• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد ایک نو آباد شہر ہے جس کی عمر کے انسان بھی پوری طرح سے بوڑھے نہیں ہوتے۔ فقط 55/60برس کی عمر عزیز۔ چنانچہ دنیا کے بڑے شہروں کے برعکس یہاں نہ صرف تاریخی عمارتیں ناپید ہیں، فن تعمیر کے اعتبار سے بھی ہم کوئی تیر نہیں مار سکے۔ فقط کنکریٹ کی چھوٹی بڑی ڈھیریاں ہیں جنہیں ایک وسیع و عریض خط زمین پر ضرورتاً کھڑا کر لیا گیا ہے مگر مارگلہ کے دامن میں آباد سارا علاقہ فطری حسن سے مالامال ہے جس کے سبب اسلام آباد کی عزت بنی ہوئی ہے البتہ یہاں ایک عمارت ایسی ضرور موجود ہے جس نے وفاقی دارالحکومت کی لاج رکھی ہوئی ہے اور وہ ہے فیصل مسجد۔ شہر اقتدار میں کوئی اپنے رشتے داروں سے ملنے آئے، سیر و تفریح مقصد ہو یا پھر کوئی میٹنگ یا کانفرنس بھگتانا ہو، فیصل مسجد دیکھے بغیر واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سابق سعودی فرماں روا کے نام سے موسوم یہ مسجد اسلام آباد کی سب سے زیادہ وزٹ کی جانے والی جگہ ہے۔ 1986ء میں سعودی سرمائے سے پایہ تکمیل کو پہنچنے والی یہ مسجد ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں۔ اندرون؍بیرون ملک سے جہاں آئیں تو ہم انہیں فیصل مسجد دکھانے ضرور لے جاتے ہیں کہ یہ شہر کا مان بھی ہے اور پہچان بھی۔ مگر اب کی بار گئے تو مایوسی بھی ہوئی اور سبکی بھی۔ یہ تو وہ شاہ کار مسجد ہی نہیں تھی جس کی تعمیر کو ابھی 30برس بھی پورے نہیں ہوئے۔
حسب معمول خلق خدا بڑی تعداد میں موجود تھی مگر ہر کسی کو غیر مطمئن پایا اور ہر کسی کے لب پر کوئی نہ کوئی شکایت تھی۔ ایک نوجوان نے بتایا کہ میری پیدائش اور تعلیم اسلام آباد کی ہے۔ آج کل کراچی میں ہوتا ہوں۔ بچّوں کو فیصل مسجد دکھانے بطور خاص آیا ہوں۔ وہ مسجد جو میرے بچپن کی یادوں میں ایک نایاب موتی کی طرح رچی بسی ہے، جس کا تعمیراتی حسن اور لش پش دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو جایا کرتی تھیں اور جس کا میں نے بچّوں میں بہت بڑا امیج بنایا ہوا تھا اور وہ اس کی خستہ حالی دیکھ کر بہت مایوس ہوئے ہیں۔ مینٹی ننس ہے نہ صفائی، فرش گندا بھی ہے اور گیلا بھی، بچّے سلپ ہوتے ہوتے بچے ہیں اور وہ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہ وہی مسجد ہے جس کے قصیدے آپ پڑھا کرتے تھے؟ یہاں تو جھاڑو اور وائپر کا استعمال بھی متروک دکھائی دیتا ہے اور کچھ نہیں ’’فرش گیلا ہے، احتیاط کریں‘‘ کا نوٹس ہی لگا دیں مگر پروا کس کو ہے؟ وہیں ایک ایسی فیملی سے ملاقات ہوئی جو پرانے اسلام آبادی تھے اور آج کل کینیڈا میں سیٹل ہیں۔ بولے…بچّوں کو وطن سے جڑا رکھنے کیلئے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، ہر سال چکر لگاتے ہیں تاکہ بچّے اپنی دھرتی اور ورثے سے اجنبیت محسوس نہ کریں۔ یہ مسجد ہمارے بچپن والی تو نہیں، شیشے کی طرح چمکتی دمکتی اس عظیم الشان عمارت کو چند ہی برسوں میں گہن کیوں کر لگ گیا؟ یہ اللہ کا گھر بھی ہے اور پاکستان کا ثقافتی سرمایہ بھی۔ چلو زیادہ نہ سہی جھاڑ پونچھ پر تو زیادہ خرچہ نہیں اٹھتا۔ فرش، شیشوں، کھڑکیوں، دروازوں پر مٹّی کی جمی تہہ سے تو یوں لگتا ہے کہ گویا برسوں سے کسی نے اس طرف دھیان ہی نہیں دیا۔ پجاری ہیں، جس میں صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے۔ ایک ادھیڑ عمر شخص تو گویا تپے بیٹھے تھے۔ بولے…اوقات تو یہ کہ کیپیٹل کے شایان شان مسجد بھی تعمیر نہیں کر سکتے تھے۔ کسی نے ہدیہ کر دی تو دہائی خدا کی، اسے سنبھال بھی نہیں سکتے۔ میں نہیں مانتا کہ فنڈز نہیں یا اسٹاف نہیں، سب کچھ ہے مگر نیت میں فتور ہے۔ کاہلی اور کرپشن ہماری ہڈیوں میں رچ بس گئی ہے اور حد تو یہ کہ خانۂ خدا کی حرمت کا بھی احساس نہیں۔ زندہ قومیں مذہبی شناخت اور قومی وقار کی علامات کو اس طرح سے ٹریٹ نہیں کیا کرتیں۔
فیصل مسجد کی زبوں حالی کے حوالے سے زائرین کی دردمندی درست بھی ہے اور فطری بھی۔ بے شک مسجد کی داخلی اور خارجی آرائش ماند پڑ رہی ہے۔ وائٹ واش اور پینٹ کی تو اشد ضرورت ہے۔ خیمہ نما مسجد اور چاروں میناروں کے ٹاپ پر نصب ہلال بھی کوئی خوشنما منظر پیش نہیں کر رہے۔ تانبے کے بنے ان آرائشی ہلالوں پر سے سونے کا ملمع ہی نہیں اترا تانبے کو زنگ بھی لگ چکا ہے اور دور سے کائی جمی ہوئی لگتی ہے۔ راقم کو وہ زمانہ اچھی طرح یاد ہے جب گل جی اور ان کی بیگم صاحبہ ایک بلند مچان پر بیٹھ کر ان ہلالوں کو سونے کے پانی سے چمکایا کرتے تھے۔ گل جی نہیں رہے تو اب کیا ہمیں ان کائی جمے ہلالوں پر ہی گزارہ کرنا پڑے گا؟ فیصل مسجد کی فٹننس کوئی بڑے خرچے کا کام نہیں جبکہ اسی شہر میں اقتدار کے ایوانوں کی فٹننس اور دیکھ بھال پر ہر برس اربوں روپے لٹائے جاتے ہیں پھر بھی اگر توفیق نہیں ہو پاتی تو سعودی سرکار سے ہی کہہ دیجئے کہ وہی کوئی بندوبست کر دے۔ ویسے ہماری اطلاع کے مطابق اس کھاتے میں ایک ملین ڈالر کی اعانت دو برس پہلے موصول ہوئی تھی، اس کا کیا بنا؟ واللہ اعلم باالصواب!
یہ الگ بات ہے کہ اسلام کا قلعہ ہونے کے دعویدار پاکستان جیسے عظیم الشان ملک کو زیب نہیں دیتا کہ وہ معمولی کاموں کیلئے بھی ایک دوست مملکت کو زحمت دے۔ فیصل مسجد سعودیہ کی طرف سے پاکستان کیلئے تحفہ ہے…تحفے کی قدر کی جاتی ہے اور ناقدری ایک طرح سے تحفہ دینے والوں کی ناقدری ہوتی ہے۔ بہرحال فیصل مسجد کی نگہداشت اور صفائی ستھرائی کیلئے فنڈز مسئلہ نہیں ہونا چاہئے، اس سے کہیں زیادہ تو سرکار بے کار قسم کی کانفرنسوں پر اڑا دیتی ہے پھر بھی اگر کوئی دشواری درپیش ہو تو تیر ہدف حل ہم بتائے دیتے ہیں۔ یہ ذمہ داری ملک کے معروف پراپرٹی آئی کون کو سونپ دیجئے، مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل ہو جائے گا کیونکہ اس حوالے سے موصوف خاصی نیک نامی کما چکے ہیں۔ ملک میں بڑی بڑی مساجد تعمیر ہی نہیں کروائیں، اسلام آباد کی لال مسجد کی زیبائش و آرائش کی ذمہ داری بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ فیصل مسجد کی خدمت کر کے بھی انہیں یقیناً راحت ہو گی۔ سرکار کو چند روپوں کی بچت مبارک ہو!

.
تازہ ترین