بلاول بھٹو نے بہت جرأت کی! دہشت گردوں کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے وہ پیپلز پارٹی پہ چھائی یاسیت کو توڑنے میدان میں نکلے۔ اور وہ بھی وسطی پنجاب کی سب سے زیادہ ترقی کرتی ہوئی پٹی میں جو نواز شریف کا گڑھ اور شہباز شریف کی ترقی کے ماڈل سے سب سے زیادہ فیضیاب۔ لاہور تا فیصل آباد ریلی کا انعقاد ایک بڑا رسک تھا۔ لیکن یہ جیالے بے حال ہوتے ہوئے بھی بڑے جاندار ہیں جن کے روایتی جوش و جذبہ نے بڑے ہجوم کے نہ آنے کو محسوس نہیں ہونے دیا اور بڑے دھوم دھڑکے سے سکوت کو ایک حد تک توڑ ڈالا۔ کہیں بھی لوگوں کے بڑے ٹھٹھ لگے نہ آخر میں لاکھوں کا مجمع سجا۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں دس برس سے زائد عرصہ سے کوئی لیڈر نہ گھُسا تھا۔ کہیں تنظیم کا نام و نشان تھا نہ مقامی تحرک نظر آیا۔ اس سب کے باوجود ہزاروں جیالوں کا جمع ہو جانا، معجزہ نہیں تو اور کیا ہے؟ جو لوگ بھی آئے کہیں سے سُن کر آئے یا پھر مقامی لیڈر لوگ تھے جو اپنی موجودگی رجسٹر کرانے آئے تھے۔ گاڑیاں بھی بہت تھیں، لیکن پاجیرو گروپ نظر نہ آیا۔ جیالیاں تھیں، لیکن کم کم۔ بہت سے پرانے شناسا چہرے غائب تھے۔ محنت کشوں کی تعداد زیادہ تھی اور درمیانی عمر کے لوگ حاوی تھے۔ جوش و جذبہ وہی پرانا تھا۔ بھٹو اور بی بی کی یادوں میں مستغرق یہ لوگ دیکھنے آئے تھے ایک اور بھٹو کی جھلک۔ وہی بھٹو اور بی بی کی شکل اور وہی آواز ایک عمر رسیدہ جیالے نے گہری سوچ سے نکلتے ہوئے کہا۔ اس بار نعرہ تھا ’’بھٹو آ رہا ہے‘‘، اور یہ بس جیالوں کو آپے سے باہر کرنے کو کافی ہے۔ بلاول سے ان جیالوں کی محبت قابلِ دید۔ یہ سب پھر چاہتے ہیں کہ ’’بھٹو دے نارے وجن گے‘‘ اور یہ ابھی بھی سمجھتے ہیں کہ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ جیالوں کے دلوں میں امید کے دیئے ابھی بجھے نہیں۔ ایک آدھ کے سوا کہیں زرداری کی تصویر نظر نہ آئی۔ البتہ جو بات عام تھی وہ ایک پختہ جیالے فلسفی نے ایک فقرے میں بیان کر دی۔ اس نے کہا کہ زرداری سے کہو ’’گھر بیٹھے، لڑکے کو آزاد چھوڑے، پھر دیکھنا لوگ کیسے ٹوٹ کر پڑتے ہیں‘‘۔ میں نے سوالیہ نگاہوں سے دوسروں کی جانب دیکھا، ان کے ماتھے پہ بھی کچھ ایسا ہی لکھا تھا۔
میں اور میرے دوست خالد فاروقی اس ریلی کا منظر دیکھنے نکلے تھے کہ دیکھیں کہ بھٹو کی اپیل کا سحر ابھی کتنا باقی ہے۔ جیالوں میں تو یہ بہت نظر آیا، لیکن عام لوگ کچھ زیادہ متوجہ نہ ہوئے۔ مجھے یاد ہے جب بھٹو صاحب وزارت سے استعفے کے بعد لاہور بذریعہ ٹرین آئے تھے۔ کیا ہوشربا مجمع تھا۔ اور پھر بی بی کے لئے لوگ رات رات جاگ کر سڑکوں کے کنارے بیٹھے ہوتے تھے کہ اس کی ایک جھلک پا سکیں۔ ایسا منظر تو نظر نہ آیا۔ البتہ فیصل آباد کے جلسے میں محنت کشوں اور عام سے لوگوں کی شرکت کا جو ولولہ ہم نے دیکھا، لگا ابھی بھی بھٹو کا نام غریبوں کے دل میں دھڑکتا ہے۔ اگر اچھی پبلسٹی کی گئی ہوتی تو معلوم پڑتا کہ بھٹو سحرانگیزی کا کتنا سحر باقی ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ جیالے چھوڑ چھاڑ گئے ہیں۔ وہ انتظار میں ہیں کہ بلاول آئے تو وہ میدان میں اتریں۔ اس ریلی کے بعد لگتا ہے کہ اب جیالے اگلے اعلان کو سنجیدگی سے لیں گے اور پرانے و نئے ٹکٹ ہولڈر بھی کچھ پیسہ ویسہ خرچ کرنے پہ راغب ہوں گے۔ لیکن جو پیپلز پارٹی کا پنجاب میں حال ہوا ہے، اس کے بعد یہ کام آسان نہیں جبکہ نواز مخالف اپوزیشن میں عمران خان پنجاب میں چھائے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ مقابلہ بھی ایک ہی نظریاتی کیمپ کے مخصوص خوشحال طبقوں کے درمیان ہے جس میں غریب عوام غائب ہیں۔ ان کے لئے کوئی عوامی پروگرام ہے نہ زور دار عوامی آواز۔
کہتے ہیں پلوں تلے بہت پانی بہہ چکا۔ معاشرتی اور سماجی فضا بدل چکی۔ بالکل نئے دولت مند اور منہ زور سیاسی دھڑے باز میدان میں ہیں جو ضیا الحق اور مشرف کی مقامی حکومتوں کی بھٹیوں میں تیار کیے گئے ہیں۔ پنجاب میں کبھی صرف بھٹو تھا، پھر بھٹو مخالف پیدا ہوئے۔ نظامِ مصطفیٰ کے نام پر قومی اتحاد کی تحریک چلی، بھٹو پھانسی چڑھے اور ضیاالحق کی طویل رات میں تمام روشن دیئے اپنی روشنی گنوا بیٹھے۔ ملا، ملٹری اور بازار کا ایسا خوفناک اتحاد وجود میں آیا کہ اس نے پنجاب میں بی بی کی واپسی کا داخلہ ہمیشہ کے لئے زور زبردستی بند کر دیا۔ ایسے میں ابھر کر آئے میاں نواز شریف جو بھٹو کی نیشنلائزیشن کا شکار ہوئے تھے۔ جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل نے اسلامی جمہوری اتحاد بنا کر پیپلز پارٹی کی پنجاب میں راہ مسدود کر دی اور بی بی کی حکومت چلنے نہ دی۔ جب نواز شریف وزیراعظم بنے تو وہ اب پنجاب کی ان طاقتور سرمایہ دارانہ قوتوں کے نمائندہ تھے جسے اب انتظامیہ کی بیساکھی کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ پھر مجھے یاد ہے نواز شریف کی وہ تقریر ہوئی جس نے نوکر شاہی کے ستون اسحاق خان کو الٹا کر رکھ دیا اور نواز شریف اب اپنے ہی زور پر ایک تگڑے پنجابی لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ اس کے بعد بھی ہوا یہی کہ بی بی کو پنجاب سے باہر رکھا گیا اور منظور وٹو، یوسف رضا گیلانی اور فاروق لغاری جیسے غیرعوامی لیڈروں کے ہاتھوں ایک عوامی پارٹی کی ایسی تیسی پھر گئی۔
رہی سہی کسر میرے دوست آصف زرداری کی سمجھداری نے پوری کر دی۔ آصف علی زرداری کی صدارت زبردست رہی اور انھوں نے جمہوری عبور کو یقینی بنایا اور جمہوری و آئینی نظام کو مستحکم کیا۔ اس کے لئے انھوں نے کچھ لو کچھ دو کی پالیسی اپنا کر مفاہمت کی ایسی راہ لی جو پیپلز پارٹی کو عوام سے دور کرتی چلی گئی۔ آصف زرداری کا سوچا سمجھا خیال ہے کہ بھٹو کا زمانہ چلا گیا۔ عوامی سیاست ماضی کا حصہ ہوئی۔ اب زمانہ ہے تگڑوں اور پیسے والوں کو ساتھ ملاؤ تاکہ پیسے والوں کے لیڈر نواز شریف کا مقابلہ کر سکو۔ بھٹو آئیڈیل نہ رہا، نواز شریف رول ماڈل بنے کہ کیسے تیزی سے مقتدر اور مالدار بنا جاتا ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کے پاس تو غریبوں کی حمایت کے علاوہ اثاثہ ہی کہاں تھا۔ اسے گنوا کر یہ پارٹی فقط سندھ کے رجواڑوں کی پارٹی بن کر رہ گئی۔ زرداری پانچ سال حکومت کرنے میں تو کامیاب رہے لیکن پیپلز پارٹی کہیں گم ہو کر رہ گئی۔
اب سوال ہے کہ بلاول بھٹو نے کہاں سے شروع کرنا ہے۔ وہاں سے جہاں بی بی چھوڑ کر گئی تھیں۔ یا جہاں اسے آصف زرداری رکھنا چاہتے ہیں۔ آصف زرداری نے ایک زبردست ایمپائر تعمیر کی ہے جس کے اپنے تقاضے ہیں اور بلاول اس کا حصہ ہیں۔ باپ بیٹے میں ادب احترام کا رشتہ ہے اور یہ ہمیشہ قائم رہنا چاہئے۔ انہوں نے بی بی کی شہادت کے بعد اپنی پارٹی کو بکھرنے سے بچایا اور کامیابی سے حکومت کی۔
زرداری صاحب کو سوچنا ہوگا کہ اب ان کا کیا رول ہے؟ کیا وہ ایک طرف بیٹھ کر بلاول کو اپنی اننگ خود سے کھیلنے دیں گے؟ یا پھر بلاول کو آگے کر کے اپنی ایک اور اننگ کھیلنا چاہیں گے۔ اس وقت باپ بیٹا دو پارٹیوں کے لیڈر ہیں اور اصل پارلیمانی پارٹی زرداری صاحب کے ہاتھ میں ہے۔ ایک میان میں دو تلواریں رہنے سے رہیں، نہ دو سروں والی قیادت چلنے والی ہے۔ ایک کو دوسرے کے لئے راہ چھوڑنی پڑے گی۔ جوں جوں بلاول بھٹو عوام کے پاس جائیں گے، پیپلز پارٹی متحرک ہوگی اور جیسے جیسے وہ ایک متبادل عوامی و سماجی پروگرام دیں گے، غریب عوام اور پڑھے لکھے نوجوان ان کی جانب راغب ہوں گے۔ وقت ان کے ہاتھ ہے لیکن انہیں کافی وقت لگنا ہے ایک حقیقی لیڈر بننے میں۔ اب دیکھنا ہے کہ بلاول کے مقدر میں یوپی کے اکھلیش یادیو بننا ہے، جس نے اپنے والد ملائم سنگھ یادیو سے سماج وادی پارٹی کی قیادت چھین لی ہے اور یوں عوام میں مقبول ہو گئے ہیں یا پھر اپنی والدہ کے سائے میں رہتے رہتے راہول گاندھی کی طرح چلنے سے پہلے ہی ٹھس ہو جائیں گے۔ گڈ لک ینگ بلاول بھٹو!
,