• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے کان کھڑے ہوجاتے ہیں یہ سنتے ہی کہ مریم اورنگزیب صاحبہ فلم سے متعلق ایک کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ فلم کی زبوں حالی ختم کرنے کے لئے حکومت فلم بنانے والوں کےلئے سرمایہ فراہم کرنے کی طرف بھی توجہ دے گی۔ یہ سنتے ہی شاید فلم انڈسٹری کے پرانے گدھ اپنے پرتول رہے ہوں گے کہ کسی طرح سے اس حکومتی امداد کو بٹوریں۔ ان سے ہم کسی اچھے پروجیکٹ کی توقع توکر نہیں کرسکتے اس لئے کہ پچھلے 20برس میں سوائے شعیب منصور کے اکثر باقی فلم میکرز نے جھک ہی ماری ہے۔ ایک طرف پرانی فلم انڈسٹری کے لوگ ہیں جنہوں نے اس تمام عرصے میں سوائے بدمعاشوں، ٹھگوں، طوائفوں اور اسی قماش کے لوگوں پر فلمیں بنائی ہیں اور دوسری طرف کراچی کی نئی انڈسٹری کے لوگ ہیں جن کی فلمیں شاید گلیمر میں تو کوئی مقام حاصل کر پائیں مگر یہ اچھے پلاٹ سے سراسر عاری ہیں۔ فلم کیسی ہونی چاہئے؟ اس میں اچھے پلاٹ کی کیا اہمیت ہے اور اچھا پلاٹ کیسے بنتاہے؟ آج چلیں اسی موضوع پر کچھ گفتگو کرتے ہیں۔ اس حوالے سے آج ہم 70 برس پہلے بنائی گئی ایک شاندار فلم "Gone with the Wind" کا بھی کچھ ذکر کرتے ہیں۔
یہ تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ فلم نے اپنے ابتدائی دور میں اچھی کہانیاں تخلیق کرنے کے لئے بہت سے مشہور ڈرامہ نگاروںاور ناول نگاروں سے رابطہ کیا۔ ان کی بڑی فلموں میں ایسے اسکرپٹ موجود رہے ہیں کہ جن پر ادب کی چھاپ رہی ہے۔ اگرچہ فلم اور ناول یا ڈرامہ دو مختلف اصناف ہیں اور یہ مختلف فنی محاسن کا تقاضہ کرتے ہیں لیکن اچھا فلم میکر جب کسی ڈرامہ یا ناول کے اسکرپٹ کو فلم کے اسکرپٹ میں ڈھالتا ہے تو اسے ایسا عظیم بنا دیتا ہےکہ اسے دیکھنے والے یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ ناول زیادہ بڑا تھا جس پر فلم بنی یا پھر اس ناول پر بنائی گئی فلم۔
اُس وقت سے لے کر موجودہ زمانے تک یوں تو فلم میکرز نے بے شمار ناولوں اور ڈراموں پر فلمیں بنائی ہیں لیکن سبھی فلمیں اچھی نہیں تھیں۔ اس میں "Hamlet"، "The kiss of the Spider Woman"، "Lolita"، "Wuthering Heights" جیسی عظیم کہانیاں بھی ہیںجن پر فلمیں بنائی گئیں۔ جن میں کہیں تو ناول کی یا ڈرامہ کی کہانی اتنی زور دار ہے کہ فلم اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتی اور کہیں فلم اتنی اچھی بن جاتی ہے کہ اصل ناول پیچھے رہ جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال تو "Kiss of the Spider Woman"ہے جو یقیناً اپنے ناول سے کہیں بہتر ہے۔ ایسا ہی کچھ "The God Father" کے ساتھ بھی ہواہے جہاں فلم ناول سے کہیںبہتر ہے لیکن ٹالسٹائی کے ناولز "War and Peace"اور "Anne Karenina" پر بنائی گئی فلمیں اصل ناول سے بہت کمتر ہیں۔ اس حوالے سے جو لوگ فلم اور ناول کی اصناف کا بہتر مطالعہ کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے جارج بلوسٹون کی شاندار کتاب "Novels into Film" ایک بہترین مطالعہ ثابت ہوسکتی ہے۔
خیر ذکر ہم کر رہے تھے "Gone with the Wind" کا تو اس فلم کے بارے میں بھی نقاد یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ 1939میں بنائی گئی یہ فلم جو مارگریٹ مچل کےناول پر بنائی گئی ہے بہتر ہے یا مارگریٹ مچل کا ناول فلم سے بہتر ہے۔ اگرچہ مارگریٹ مچل کا یہ پہلا ناول تھا لیکن جس عرق ریزی سے انہوں نے امریکن سول وار کے دوران ہونے والے واقعات کی ریسرچ کی اور جس طرح سے کہانی کا تانا بانا بنا اور ایسے لافانی کردارتخلیق کئے جو آج تک پڑھنے والوں کے لئے یادگار کی حیثیت رکھتے ہیں وہ واقعی ایک شاندار کارنامہ ہے۔ اسی ناول کو لے کر جب فلمساز ڈیوڈ (Selznick)نے فلم بنانے کا ارادہ کیا تو اس کے سامنے مسائل کے پہاڑ کھڑے ہوگئے۔ سب سے بڑا سوال تو یہ ہی تھا کہ فلم کے اتنے بڑے عرصے پر محیط کہانی جس کے بیک گرائونڈ میں امریکن سول وار ہے کو کس طرح سے پردہ اسکرین پر ڈھالا جائے گا۔ پھر جس طرح کے بڑے کردار مارگریٹ مچل نے تخلیق کردیئے ہیں انہیں ادا کرنے کے لئے ایسے بڑے اداکار کہاں سے آئیں گے۔ فلم کےایک بڑے کردار Rhet Butler ہیں جس کے لئے اس وقت کے مشہور اداکار کلارک گیل کا انتخاب کیا گیا جو اس وقت بے انتہا مصروف تھے۔ صرف انہی کے فارغ ہونے کےلئے دو برس انتظار کیا گیا۔ فلم کی ہیروئین کے لئے 1400 خواتین کا انٹرویو کیاگیا اور پھر Vivien Leigh کا انتخاب کیا گیا۔ ناول سے فلم کے پلاٹ کی طرف کا سفر بھی خاصا مشکل تھا اور جب ہم اس کے کریڈٹ پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مارگریٹ مچل سے لے کر سڈنی کم ورڈ سمیت کوئی 5اور لوگوں نے طبع آزمائی کی تب جا کر اس کا اسکرپٹ مکمل ہوا۔ ڈائریکٹر کے طور پر اگرچہ وکٹر فلیمنگ کا نام کریڈٹ پر آتا ہے لیکن کئی اور ایسے تھے جو راستے میں ہی ہمت ہار گئے یا انہیں الگ کردیا گیا۔ وہ جو شاعر نے کہا کہ؎
خشک سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب کہیں بنتی ہے اک مصرع تر کی صورت
تو کچھ ایسی ہی صورتحال اس فلم کی ہے۔ کہانی تو یقیناً زوردار تھی لیکن جیسا کہ میں نے ذکر کیا اتنی محنت کے بعد اس کا فلم اسکرپٹ بھی زوردار بنا اور پھر اس سے جو فلم ڈیزائن بنایا گیا وہ بھی خوب تھا۔ اسی بنیاد پر اس فلم نے 12آسکر ایوارڈز جیتے۔ Rhet Butler اور Vivien Leigh کی ایک تصویر جو فلم کے پوسٹر پر لگائی گئی تھی آج بھی دنیائے فلم کے بڑے بڑے پوسٹروں میں شمار کی جاتی ہے۔
یہ سب لوگ ایک بڑا نام اس لئے کر پائے کیونکہ اس سب کا بیک گرائونڈ بڑا ادب تھا۔ آج کے پاکستان میں فلم بنانے والے بڑے ادب سے کتنے آشنا ہیں اس کا کچھ اندازہ تو ان کی فلمیں دیکھ کر ہو جاتا ہے لیکن افسوس کہ مریم اورنگزیب اور فلم کو بہتر کرنے کے نام پر سامنے آنے والے اکثرلوگ دنیائے فلم کی تاریخ سے آشنا ہی نہیںہیں۔ آپ اگر بڑا کام کرنا چاہتے ہیں تو پہلے ایک اچھی اکیڈمی بنائیں، وہاں آنے والے منتخب لوگوں کو فلم ہسٹری، تنقید اور ادب و فلسفہ پڑھائیں۔ پھر باری آتی ہے تکنیک کی وگرنہ بونے ہی پیدا ہوتے رہیں گے اور وہ ایسی فلمیں بنائیں گے جن میں اصل چیز شاید صرف آئٹم سانگ ہو۔


.
تازہ ترین