• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بدنصیب ہے وہ قوم ، جس میں کوئی ہیرو پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ڈائیلاگ اردو اسٹیج ڈرامہ ’’ گلیلیو ‘‘ کاتھا، جو1986 ء میں کراچی میں منعقد ہونےوالی ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کانفرنس کے موقع پر پیش کیاگیاتھا ۔ جرمن ڈرامہ نگار بریخت (Bertolt Brecht ) کے اس ڈرامے کا یہ ڈائیلاگ اٹلی کے عظیم ماہر فلکیات ، طبعیات دان ، فلسفی اور ریاضی دان گلیلیو کا ایک شاگرد ’’ آندریا ‘‘ اس وقت ادا کرتا ہے ، جب گلیلیو پوپ کے جبر سے یہ اعتراف ’’ جرم ‘‘ کرتا ہے کہ اس نے یہ حقیقت بیان کرکے غلطی کی ہے کہ زمین گول ہے اور سورج کے گرد گھومتی ہے ۔ ڈرامے میں آندریا کے اس ڈائیلاگ کے جواب میں گلیلیو کی ایک گرج دار آواز بلند ہوتی ہے ’’ نہیں ، نہیں آندریا ! بدنصیب ہے وہ قوم ، جس کو ہیرو کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ‘‘ ڈرامے میں گلیلیو کا مرکزی کردار اسلم اظہر نے ادا کیا تھا ، جو29 دسمبر2015 ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ اسلم اظہر اگرچہ ’’ ہیرو ازم ‘‘ کے خلاف تھے لیکن ان کا شمار ان لوگوں میں کیا جا سکتا ہے ، جنہیں تاریخ ہیرو قرار دیتی ہے۔ ممتازامریکی دانشور ول ڈیورانٹ اپنی کتاب ’’ ہیروز آف ہسٹری ‘‘ میں بھی تاریخ کی تعبیر عظیم شخصیات سے نہیں کرتے مگر وہ کہتے ہیںکہ ’’ تاریخ کے اس متلاطم اور گدلے دریا میں لغویت اور دکھ کے بیچوں بیچ چھپا ہوا ایک مطلق شہر خدا موجود ہے ، جس میں ماضی کی تخلیقی روحیں حافظے اور روایت کے معجزات کے ذریعہ اب بھی زندہ اور سرگرم ، نغمہ زن اور متمنی ہیں ۔ سقراط کے ساتھ فلسفے کا کھیل کھیلتا ہوا افلاطون ، روزانہ نت نئے خزانے پیش کرتا ہوا شیکسپیئر ، اب بھی اپنی بلبل کا نغمہ سنتا ہوا کیٹس ، مغربی ہواؤں کے دوش پر اڑتا ہوا شیلے حیرت و انکشاف انگیز نیطشے ،اور بھی ہزاروں ہیں، جو ہمیں اپنے تحائف سے نوازتے ہیں ۔ وہ نسل کابے مثال ترکہ ہیں۔۔۔ تاریخ کے تانے بانے میں ایک طلائی تار ۔ ‘‘ اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ کالم8 جنوری کو شائع ہو رہا ہے ، جو گلیلیو کا یوم وفات ہے ۔ گلیلیو8 جنوری 1642ء یعنی آج سے 374 سال پہلے اس دنیاسےچلےگئےتھے لیکن آج بھی وہ رجعتی سوچ اورجاہلانہ عقائد کو حقائق کی بنیادپر جرأت مندی کے ساتھ چیلنج کرنے کا استعارہ ہیں ۔ اسلم اظہر بھی ہمارے عہد کے گلیلیوتھے ۔ وہ بھی ساری زندگی فرسودہ تصورات کے خلاف علم اور فن کے ہتھیاروں سےبرسرپیکار رہے اوراپنے عہدکےچرچ کی دشمنیاں مول لیتےرہے ۔بریخت کے اس ڈرامے گلیلیو کے مترجم ، ڈائریکٹر ، پروڈیوسر اور مرکزی کردار خود اسلم اظہر تھے ۔ ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کانفرنس کی آرگنائزنگ کمیٹی کے ایک دو اجلاسوں میں مجھے انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ ان کی شخصیت کرشمہ ساز تھی ۔ دنیا ان کی صلاحیتوں کا لوہا مانتی تھی ۔ اسلم اظہر کے تھیٹر گروپس ’’ دستک ‘‘ اور ’’ کراچی آرٹس تھیٹر سوسائٹی ‘‘ نے جو اسٹیج ڈرامے تخلیق اور پیش کیے ، ان کی حیثیت پاکستان کی تاریخ میں ایسی ہی ہے ، جو عہد زریں کے یونانی ڈرامہ کی تھی ۔ انہوں نے بریخت اور میکسم گورکی کے علاوہ دنیا کے کئی بڑے ڈرامہ نگاروں کے ڈرامے کا ترجمہ کرکے انہیں اپنے انداز میں پیش کیا اور ہر ڈرامے میں فن اپنے عروج پر تھا ۔اسلم اظہر ایک وسیع المطالعہ شخص تھے ۔ وہ خود ہی فنکار ، فلسفی اور تخلیق کار تھے ۔ انہوں نے اپنے عہد کے رجعتی ، استعماری اور استحصالی سوچ کو اپنے علم اور فن سے شکست دی ۔ یہی وجہ ہے کہ جب رجعتی قوتوں کے نمائندہ اور حسن و فن اور جمالیات سے نفرت کرنے والے جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے سب سے پہلے اسلم اظہر کو پی ٹی وی کے چیئرمین / منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے سے برطرف کر دیا ۔ ان کے ساتھ طویل عرصے تک کام کرنے والے نوجوان دانشور اور کالم نگار ناظر محمود کہتے ہیں کہ ضیاء الحق نے برطرفی کے حکم نامے میں یہ بھی لکھا تھا کہ اسلم اظہر کو گریجویٹی ،پراویڈنٹ فنڈ اور پینشن ملے گی اور نہ ہی انہیں ریٹائر منٹ کی دیگر مراعات حاصل ہوں گی ۔ اسلم اظہر اس سرکاری ادارےکےپہلے چیئرمین / منیجنگ ڈائریکٹرتھے ۔ یہ عہدہ انہوں نے کسی کی سفارش یا اثرو رسوخ سے حاصل نہیں کیا تھا ۔ یہ بھی ایک عجیب کہانی ہے ۔ستمبر 1932ء میں زندہ دل لوگوں کے شہر لاہور میںپیدا ہونے والے اسلم اظہرنے 1954ء میں کیمبرج سے قانون کی بیچلر آنرز کی ڈگری حاصل کی اور واپس آکر ایک کثیر القومی آئل کمپنی میں ملازم ہو گئے ۔ان کی تعیناتی چٹاگانگ میں ہوئی تھی ۔اپنے ایک انٹرویو میں وہ کہتے ہیں کہ ایک دن یہ کہاوت ان پر واردات بن کر اتری کہ ’’ پڑھیں فارسی ، بیچیں تیل ‘‘ ۔ اسلم اظہر نے آئل کمپنی کی اس نوکری سے استعفیٰ دے دیا ، جسے حاصل کرنےکےلیے اس زمانے کے لوگ خواب دیکھتے تھے ۔ وہ تخلیقی رحجان کے حامل تھے اور خاص طور پر تھیٹر کی طرف راغب تھے کیونکہ ان کے نزدیک یہ لوگوں تک بات پہنچانے کا انتہائی مؤثر ذریعہ تھا ۔ تیل کمپنی کی نوکری چھوڑنےکےبعد وہ کراچی آ گئےاور فری لانس کے طورپر کام شروع کر دیا۔انہوںنے محکمہ فلم اینڈ پبلیکیشن کےلیے دستاویزی فلمیں بنانا شروع کر دیں ۔ گندھارا تہذیب پر ان کی دستاویزی فلم نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھرسے داد وصول کی ۔ پھر اپنا تھیٹر گروپ قائم کیا ، جس نے ’’ تھیوسوفیکل ہال ‘‘ کراچی میں لاجواب اسٹیج ڈرامے پیش کیے ۔ اسی اثناء میں حکومت پاکستان نے ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور جاپان کی ایک فرم کو اس کا ٹھیکہ دیا ۔ جاپانیوںنے ان کے بارے میں سن رکھا تھا ۔ انہوں نے ہی اسلم اظہر سے کہا کہ وہ ٹی وی کے پروگرامز کے شعبے کے سربراہ بن جائیں ۔ اسلم اظہرنے ان سے کہا کہ وہ ٹی وی کے بارے میں کچھ نہیںجانتے ۔ اس پرجاپانیوںنے کہا کہ پاکستان میں آپ سے زیادہ کوئی جانتا ہو تو بتائیں ۔ پھر دنیانےدیکھا کہ اسلم اظہر ایک فنکار اور تخلیق کارہونےکےساتھ ساتھ بہترین منتظم بھی ہیں ۔ انہوں نے بڑے لوگوں کو ٹی وی پروگرامز میں لکھنے کےلیے کہا ۔ ان میں ڈاکٹر انور سجاد ، اشفاق احمد اوربانو قدسیہ جیسے لوگ شامل تھے ۔ انہوںنےپاکستان میں موسیقی، ڈرامہ اورنیوز کا ٹیلنٹ دریافت کیا اوربہت بڑے لوگوں کی ٹیم بنا کر ایک سرکاری ادارے کو چلایا ۔ ضیاء الحق کے غضب کا شکار ہونےکے بعد وہ کراچی میں دستک کے ذریعہ جمہوری اور ترقی پسند قوتوں کی آواز بنےرہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹوکےپہلے دور حکومت میں انہیں ایک بار پھر پی ٹی وی کا چیئرمین بنایا گیا لیکن وہ کسی کی ڈکٹیشن نہیںلیتےتھے۔ ایک سال چیئرمین رہنے کے بعد وہ بے نظیر بھٹوکے دور میں ہی او ایس ڈی بنا دیے گئے ۔ بعد ازاں انہوں نے اسکولز کی ایک بڑی چین کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا لیکن وہ اسکول کے مالکان کی کمرشل پالیسی کے ساتھ نہ چل سکے ۔ ناظرمحمود کہتے ہیں کہ اسلم اظہر جیسےبڑے آدمی سے پھر کسی نے کام نہیں لیا اور ان کی زندگی کے آخری 20 سال ضائع ہو گئے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ لابنگ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی وہ زمانے کے طور طریقوںسےچلنے کو اپنے لیے بہتر سمجھتے تھے ۔ بحیثیت انسان وہ بہت اعلیٰ کردار کے حامل تھے ۔ سرکاری ٹی وی چینل کے سربراہ کی حیثیت سے وہ جب بھی اپنے دفترجاتے تھے تو چوکیدار اور چپراسی سے لے کر اوپر تک تمام لوگوں کو پہلے خود سلام کرتے اور ہاتھ ملاتے ۔ انہوں نے اپنا بیگ کبھی کسی دوسرے کو نہیں اٹھانے دیا ۔ سینئر صحافی اور دانشور غازی صلاح الدین سے اگلے روز جب اسلم اظہر کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا معاشرہ کس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ اس نے اسلم اظہر جیسے لوگوں کی خدمات حاصل نہیں کیں۔اسلم اظہر کہتےتھے کہ وہ ٹی وی نہیںدیکھتے ہیں ۔ ٹی وی وہ صرف اس وقت دیکھیںگے ، جب انہیں اس کام کی ادائیگی کی جائے گی ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پہلے کلچرڈ سوسائٹی تھی ۔ آج کی طرح کنزیومر سوسائٹی نہیں تھی ۔ وہ کہتےتھے کہ میں کتابیں پڑھتا ہوں کیونکہ کتابیں پڑھنےسے ذہن کی نشوو نماہوتی ہے ۔ ان کی اہلیہ نسرین اظہر بھی ان کی طرح ہمہ جہت شخصیت کی حامل ہیں ۔ ان کے صاحبزادے اریب اظہر بہت بڑے گلوکار ہیں ۔ خاص طور پر صوفی شعراء کا کلام وہ مکمل وجدکےساتھ گاتےہیں ۔ ہمہ خانہ آفتاب است ۔ اس خاندان نے علم و فن کے ذریعہ جبر واستبداد کے خلاف جدوجہد کی اور اپنے اور دوسروںکےلیے خوشی حاصل کی ۔ اسلم اظہر کو اس بات پر کوئی ملال نہیں تھا کہ وہ زندگی بھر اپنا گھر نہیں بنا سکے ۔ آج جب بندوق کے خوف سے ذہنوں کے دریچے بندکیے جا رہے ہیں اوربندوق برداروںکےخلاف جنگ اور روشن خیالی کے نام پرصرف دولت سمیٹی جا رہی ہے ، اس مرحلےپر اسلم اظہرکے بچھڑنے سے ہمیں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ہم بدنصیب قوم ہیں۔
تازہ ترین