• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انگریز استعمار کے خلاف آزادی کی تحریک کے بعد شاید یہ دُوسرا موقع ہے کہ پختون قبائل، فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی خاطر متحد و متحرک ہیں۔قومیں اِسی طرح ستاروں پر کمند ڈالتی اور اپنے رضا و قرار کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل کرتی ہیں۔ یہ اَمر خوش آئند ہے کہ ملک کی سب سے بڑی دینی تنظیم جماعت اسلامی، بڑی سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ، تحریک انصاف سمیت تمام دیگر عوامی قوت والی جماعتیں، بالخصوص حاجی شاہ جی گل کی قیادت میں تمام منتخب نمائندےو عوام یک رائے ہیں۔جہاں تک مولانا فضل الرحمٰن صاحب اور محترم محمود خان اچکزئی کی مخالفت کا تعلق ہے، تو ہم سے زیادہ یہ قائدین جانتے ہیں کہ قوم سے کٹ کر وہ احترام پائینگے یا اس میں کمی واقع ہوگی۔
راقم کا تعلق چونکہ قوم پرست مکتبۂ فکر سے ہے اس لئے اُسے سب سے زیادہ حیرانی مشر محمود خان اچکزئی کے مؤقف پر ہوئی ہے، اور اِس سے بڑھ کر اُس شوشے پر جو انہوں نے ’’افغانیہ‘‘ کی صورت میں آن ایئر کیا۔ یہ دُرست ہے کہ پختون بیلٹ کو افغانیہ کا نام دینے کا مطالبہ نیا نہیں، اے این پی و پختونخوا میپ سمیت دیگر قوم پرست جماعتیں اور اہلِ فکر و نظر قیام پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ پختون علاقوں کو انگریزوں کے دیئے ہوئے نام کی بجائے پختونستان، پختونخوایا افغانیہ کا نام دیا جائے۔ یہ بھی غلط نہیں کہ اس مطالبے میں لسانی، ثقافتی اور جغرافیائی بنیادوں پر صوبوں کی اَزسرنو تشکیل اور پنجاب کے پختون علاقوں کی اس صوبے میں شمولیت جیسے نکات بھی شامل تھے۔ بنابریں جو اصحاب جناب محمود اچکزئی کے اس مطالبے پر گزشتہ دنوں برہم ہوئے اُن کی چیخ و پکار یوں بے معنی و بے کار ہے کہ خود لفظ ’’پاکستان‘‘ کے خالق چوہدری رحمت علی نے اِس خطے کو ’’افغانیہ‘‘ ہی قرار دیا تھا۔آپ جانتے ہیں کہ 28 جنوری 1933ء کو چوہدری رحمت علی نے جو کتابچہ Now or Never شائع کیا، اس میں پہلی مرتبہ موجودہ علاقوں کو پاکستان کا نام دیا۔ چوہدری صاحب اُس وقت کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ سر ظفراللہ خان نے اگرچہ اِسے غیرسنجیدہ مطالبہ قرار دیا تھا لیکن اِس نام کو ایسا دوام ملا کہ یہ نوآزاد مملکت کا چہرہ بن گیا۔ چوہدری صاحب کے مطابق پاکستان کے ’پ‘ سے مراد پنجاب، ’الف‘ سے افغانیہ’ ک‘ سے کشمیر ’س‘ سے سندھ اور ’تان‘ سے بلوچستان ہے۔ پھرقائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کی طرح لفظ پاکستان کے خالق کا بھی کس کسمپرسی میں انتقال ہوا، یہاں تک کہ اُن کا جسدِ خاکی بھی پاکستان نہیں لایا گیااورتدفین نیوہم روڈ پر واقع عیسائی قبرستان میں ہوئی۔ یہاںکہنا محض یہ ہے کہ افغانیہ کا مطالبہ غلط اور خلاف پاکستان نہیں، لیکن بے محل اور بعدازوقت ہے۔ بے محل یوں کہ اب جبکہ قوم، تمام سیاسی جماعتیں اور حکومت اس بات پر باہم متفق ہیں کہ قبائلی علاقوں کو پختونخوا میں ضم کیا جائے، تو ہمارے مشر نے ان کی خواہش کے برعکس راگِ دَرباری نہ جانے کیوں چھیڑنا مناسب خیال کیا؟ بعدازوقت اس طرح کے مطالبے کا دُرست وقت و موقع وہ تھا جب صوبہ سرحد کو خیبرپختونخوا کا نام دیا جا رہا تھا۔ اُس سمے بھی افغانیہ زیرِبحث آیا تھا، اتفاق مگر خیبرپختونخوا پر ہوا۔ گزشتہ روز ایک ٹی وی مذاکرے میں جب ایک جذباتی مگر باشعور طالبہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہمارے علاقوں میں اچکزئی صاحب کی کوئی حیثیت نہیں، تو راقم کو اس پر ملال ہوا لیکن یہ سخت بیانی و جلالی لہجہ معاملے کی حساسیت کو ضرور ظاہر کرتا ہے۔ ہم جنگ آزادی کے ہیرو خان شہید عبدالصمد اچکزئی بابا کے صاحبزادے کی فہم و فراست کے معترف ہیں۔ تاہم کیا ہی اچھا ہو کہ محترم اس تاثر کو زائل کریں جو یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی کسی کے ایجنڈے پر قوم مخالفت سمت میں پڑائو ڈالے ہوئے ہیں۔جہاں تک حضرت مولانا فضل الرحمٰن کی کہانی ہے تو زیب داستان کیلئے عمران خان سے لے کر بعض دیگر رجالِ باکمال تک، خواہ کوئی اس کہانی کو کوئی بھی عنوان دے، ہمارے لئے حضرت کا احترام مسلمہ ہے۔ ان کے حالیہ مؤقف سے متعلق البتہ کہنے دیجئے کہ یہ حضرت کی زیرک شخصیت سے میل و مطابقت نہیں رکھتا! جب وہ ریفرنڈم کی بات کرتے ہیں تو جہاں اِس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جیسے وہ قبائل کے منتخب نمائندوں کے جمہوری مینڈیٹ سے انکار کر رہے ہیں۔ وہاں یہ اَمر بھی نمایاں ہوتا ہے کہ وہ اُس غالب اکثریت کی خواہش کو اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں جو خیبرپختونخوا سے ملنے کیلئے بے تاب و بے قرار ہے۔ سب سے منفی تاثر یہ عام ہوا کہ ریفرنڈم کے مطالبے کے ذریعے وہ قبائل کی زندگی و موت کے اس معاملے کو خلا میں معلق کر کے گویا کسی کا حقِ رفاقت ادا کرنا چاہتے ہیں۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ تاثر کہ جیسے ان کے ہاں اب بھی انگریز کا نام و کالے قوانین ہی معتبر و برگزیدہ ہیں۔ جہاں تک حضرت کا یہ استدلال ہے کہ اس سے قبائلی ملک صاحبان کی پگڑی بے توقیر ہو جائے گی تو لاریب… پگڑی عالی شان ہے۔ مگریہ خیال رہے کہ پگڑی کی تقدیس ہر کوئی جانتا بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ خوشحال خان خٹک یاد دلاتے ہیں۔
چہ دستار تڑی ہزار دی
دَ دستار سڑی پہ شمار دی
بابا کا کہنا ہے کہ پگڑی تو ہر کوئی پہنتا ہے لیکن اِس کا اہل کوئی کوئی ہوتا ہے۔ اب محترم مولانا صاحب ہی فرمائیں کہ انگریز سے لے کر آج تک وہ ملک صاحبان جو انگریزوں یا بعدازاں پولیٹکل ایجنٹوں کے نمائندے رہے، کیا اُنہوں نے اس بیچاری پگڑی کو رُسوا نہیں کیا! یہاں تک کہ جو انگریز قبائلی علاقے میں گیایا جو پاکستانی آمر یا اِس طرح کا کوئی حاکم یا وزیر، اُس کے سر پر یہ پگڑی بٹھادی۔ ’’بٹھانے‘‘ کا لفظ ہم دانستہ یوں استعمال کر رہے ہیں کہ پھر یہی پگڑی وہ چند لمحے بھی سر پر رہنے نہیں دیتا، فوری اُتار دیتا ہے۔ ہاں اس سے ڈرامہ سازمراعات کےاہل ضرور بن جاتے ہیں۔ وہ پگڑیاں جو ملکوں،خان بہادروں یا مذہب فروشوں نے بیچیں، سابق صوبہ سرحد کے گورنر جارج کنگھم کی ڈائریوں میں ایسے سوداگروں کا جگہ جگہ کس حقارت سے ذکر ہے۔ حضرت اقبال نے یونہی تو نہیں کہا تھا۔ قومے فروختند وچہ ارزاں فروختندسو!جناب وزیراعظم صاحب! مسلم لیگ کے پاس تاریخ بنانے کا سنہرا موقع ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آپ کی جماعت تاریخ ساز ہے یا کسی شاہ شجاع کے ساتھ تماشے سجا کر انگریز کی باقیات کوہی باقی رکھنے پر آمادہ ہے ! ہاں یہ البتہ واضح رہے کہ پختونخوا میں انضمام کا مطالبہ صرف غیور و جفاکش قبائل کا نہیں، بلکہ ہر اُس پاکستانی کا ہے جو ’’علاقہ غیر‘‘ کہلائے جانے والے اِس خطے میں رہنے والوں کوغیر نہیں اپنا اور اپنے جیسا سمجھتا ہے۔

.
تازہ ترین