• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما لیکس کا مرکزی نکتہ یانچوڑ مقدمہ، لندن فلیٹس کا نواز شریف سے تعلق ہی تو ثابت کرنا تھا۔ بفرض محال، وزیراعظم نواز شریف اسمبلی فلور پر پاناما لیکس پرتقریر نہ کرتے تو سوال اتنا، کہ پھر تحریک انصاف کا کیس تھا کیا؟ ایک طرف متعلق وملوث فریقین، احاطہ سپریم کورٹ تاجلسہ گاہ،جبکہ دوسری طرف میڈیابصراحت،فیصلہ بمطابق خواہشات شب وروز صادر فرمانے میں خودکفیل ہو چکے ہیں۔ پچھلے چند ماہ سے عدالت کو انتہائی دبائو میں رکھنے، لانے کے لیے ہر ہتھکنڈہ آزمایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیاپرجھوٹ، بے حیائی، بے شرمی ہر حدپھلانگ چکی ہے۔ خصوصاََ جانے والے چیف صاحب اورنئے چیف صاحب کے خلاف سوشل میڈیا مہم جوئی نے عدالتی نظام کو دبائو نیچے لانے اور زک پہنچانے کی مذموم جسارت کی۔
آخری خبر، عدالتی کارروائی میں پاناما لیکس کااصل کیس گم ہوچکاہے۔ نعیم بخاری، مخدوم علی خان اورتوفیق آصف صاحب، احسن الدین کے دلائل کا مآحاصل، ’’آرٹیکل 62(F) کے تحت وزیراعظم کی نااہلی ہے‘‘۔ بحث پر درجنوں گھنٹے خرچ ہو چکے،محوریہی کچھ۔ دعویٰ کا مرکزی نقطہ بھی یہی کچھ کہ ’’ وزیراعظم کی اسمبلی فلور پرداغی تقریر،مجموعہ اضداد، وزیراعظم نے حقائق چھپائے، اسمبلی اندرپوری بات نہیں بتائی‘‘۔ وزیراعظم کی اسمبلی فلور پر کی گئی تقریرزیربحث آئی تو آئین کا آرٹیکل,63,62 248,69,66 وغیرہ سب کھنگالنے پڑے۔استثنیٰ اور بطور ممبر قومی اسمبلی استحقاق زیربحث رہا۔ گو آرٹیکل 248 وزیراعظم کے استثنیٰ کاذریعہ بن سکتا تھا( صدرزرداری لے چکے ہیں) وکیل نے مانگا نہیں، اجمالاًذکر ضرور رہا۔ البتہ آرٹیکل 69,66آئینی استحقاق کے حق سے دستبردار ہونے سے انکار ی تھے۔ عدالت کو بتایا کہ’’ عدالت اپنے طور دخل اندازی کرکے فیصلہ صادر کرنے میں بااختیار ہے‘‘۔ معاملہ آئین کا، عدالت آئین کے طابع، آئینی دفعات زیربحث لانا، جوئے شیر ہی بنے گا۔وزیراعظم کے وکیل کا عدالتی بحث میں زوراتنا کہ 66 اور69 سے دستبرداری آئینی طور پر ممکن نہیں۔رضاکارانہ ترک کیا بھی توباقی ممبران کے استحقاق متاثرہونے کا احتمال رہے گا۔
سپریم کورٹ کی کل ہی کی آبزرویشن کہ’’ ابھی تک پاناما کیس بارے ثبوت سامنے نہیں آئے‘‘چنانچہ پاناما کی رونق وزیراعظم کی قومی اسمبلی کی تقریر پر موقوف ہو چکی ہے۔تقریر زیربحث لاکر، جھوٹ ثابت کرکے ہی وزیراعظم کی برطرفی ممکن ہے، یعنی کہ وزیراعظم اسمبلی فلور پر تقریر نہ کرتے تو پاناما لیکس کیس کوثابت کرنا، ایک لاینحل مسئلہ رہتا؟ یہی سوال جب زیرک، ذی فہم، نابغہ روزگار قانون دان جناب حامد خان سے پوچھا تو کم وبیش یہی جواب ملا کہ’’قومی اسمبلی کی تقریر بنیاد بن پائی، تو جھوٹ کی بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل کرواناممکن ہو جائے گا‘‘۔ قطع نظر اگر تقریر زیربحث آئی بھی تو فروگزاشت کوجھوٹ کے زمرے میں لانا، ثابت کرنا، کتنا آسان ہوگا؟ وقت ہی بتائے گا۔ عمران خان، جوجلسوں کی حد تک، اپنا کیس ثابت کرنے میں کمال درجہ رکھتے ہیں۔ 2014 میں دھاندلی اوپر ہزاروں صفحات پر مبنی ثبوت دئیے، ردی کی ٹوکری کی زینت بنے۔دھاندلی پرقائم کمیشن ایسے ثبوت لینے، ماننے سے انکاری تھا۔ قوم کا وقت برباد ہوا،عمران کی گرتی ساکھ کو ایک مزید دھکا لگا۔آج بھی عدالت سامنے نوازشریف کا لندن فلیٹس سے تعلق جوڑنے بارے ثبوت سے دامن صاف رکھ چھوڑا ہے۔ ؎
شیخ محشر میں جو پہنچے تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
ملک کے بڑے قانون دان،کامل فن حامد خان کا کیس لڑنے سے معذرت کرنا،تحریک انصاف کی بدقسمتی کاآغاز ہی جانیں۔ نعیم بخاری کابنیادی پیشہ دل بہلانا، لبھانارہا، تفریح نوازی ضرورکی۔ کیس کا آغازہوا تو وزیر اعظم کی تقاریر میں تضاد،ثبوت کا سہارابنے تھے۔ دودن بعد، وزیراعظم کے وکیل نے تفصیلی جواب دعویٰ داخل کیا تو جسٹس کھوسہ صاحب نے جواب دعویٰ سے نکالے تین نکات کواجاگرکرکے کیس کو آسان بنا دیا۔’’بخاری صاحب آپ کو صرف اتنا ثابت کرنا ہے کہ فلیٹس 2006 سے پہلے خریدے گئے، مریم نواز زیرکفالت ہیں، پیش کی گئی تفصیل ترسیل زر( خصوصاًقطری شہزادے کا خط) غلط ہے‘‘۔ آغاز کارہی سے، کورٹ نے جمع کرائے ثبوت، غیر تصدیق شدہ اخباری تراشے،کتابیںوغیرہ غیر ضروری قرار دیں۔ ساتھ ہی وزیراعظم کے وکیل کوبھی متوجہ رکھا کہ بارثبوت آپ پر بھی ‘‘۔مہینوں پہلے عرض کر دیا تھا کہ تفصیلاًترسیل رقم دینا وزیراعظم کے بچوں کی ذمہ داری ہے۔ بخاری صاحب نے عدالت کی طرف سے اٹھائے تین نکات پر براہ راست ثبوت توفراہم نہ کیے البتہ وزیراعظم کی اسمبلی تقریر اورمختلف بیانات میں تضاد پر وزیراعظم کی نااہلی بمطابق 62(F) کا مطالبہ کردیا۔ اس سے پہلے 2014میں،62(F) کی بنیاد بناتے،اسی نوعیت کا دعویٰ تحریک انصاف کے اسحاق خاکوانی صاحب نے وزیراعظم کی نااہلی کے لیے دائرکیا تھا،’’ وزیراعظم نے اسمبلی فلور پراپنی تقریر میں جھوٹ بولا ‘‘۔ سات رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ آرٹیکل 66اور69کی بنیادوںپر دعویٰ خارج کر دیا گیا۔ 62(F) کے اوپرجہانگیر ترین بنام صدیق بلوچ کیس میں سپریم کورٹ نے 62(F)کے نفاذکوآئینی Nightmare قراردیا تھا۔ نوازشریف کے وکیل نے دفاع میں 62(F) کے دفاع پر 20گھنٹے میں سے اٹھارہ گھنٹے دلائل صرف آرٹیکل 69,66,63,62 پردئیے۔اسمبلی فلور پر کی گئی تقاریر زیربحث آبھی سکتیں ہیں یا نہیں، دلائل کاایک ابنوہ دیکھنے کوملا۔ تحریک انصاف نے مفادعامہ کیلئے تاثر ضروردیا کہ وزیراعظم نے استثنیٰ مانگ لیا۔ اگلے دن فاضل جج جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب کی رائے زنی، ’’وزیراعظم نے استثنیٰ نہیں مانگا، آئینی استحقاق کا کہاہے ‘‘۔ جناب توفیق آصف نے وزیراعظم کی اسمبلی فلور پر کی گئی تقریرکو جھوٹ کہا تو جسٹس عظمت سعید نے ٹوکا کہ ’’جھوٹ کیسے، تقریرتوابھی زیر بحث آئی نہیں‘‘۔ ازراہ تفنن اضافہ کیا کہ ’’ اس بات پر آپ پر 62(F) لگ سکتی ہے‘‘۔
اب آرٹیکل69,66,63,62 کا جائزہ لے لیں۔ آرٹیکل 62ممبر اسمبلی کے ضروری قرار دیتا ہے کہ وہ عقلمند، ذی فہم، خوش اطوار،پرہیزگار، متقی، قانون کا پابند وپاسدار۔ عیاشی/آوارگی/ بدچلنی/ فضول خرچی سے دور رہے۔ صادق اور آمین ہو۔دی گئی خصوصیات کی نفی میں کسی قسم کا عدالتی فیصلہ موجود نہ ہو۔
آرٹیکل 66(1)۔ اسمبلی میں اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے۔ کسی ممبر کی کسی قسم کی کوئی بھی کہی بات کسی بھی قسم کی عدالت میں قانونی چارہ گوئی کے لیے استعمال نہیں ہوسکتی۔
69(1)۔ اسمبلی کی کسی کارروائی کی درستگی میں بے ضابطگی اور بے قاعدگی کی بنیاد پر کسی جگہ سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔
سیاستدان عدالتوں میں ہر قسم کی نورایا مفاداتی کشتی کرلیں۔آئین کے آرٹیکل 62/63کے نافذالعمل ہونے میں رکاوٹ باجماعت متحد ہیں۔اے اہل وطن! 62(F) کو باربار پڑھتے جائیں شرماتے جائیں۔ کیا تمام سیاسی جماعتیں صدق دل سے 62(F) کی گرفت موثر بنانے کے لیے، آئین کے خدوخال کو واضح کریں گی یا مفاداتی سیاست اور ذاتی کردار کے ہاتھوں مجبور رہیں گی۔ 62(F) نافذ ہوا تو قائدین کا کردار معاشرے کی تلچھٹ بنے گا۔ بقول سپریم کورٹ ’’جماعت اسلامی کو چھوڑ کر اسمبلیاں تمام ممبران سے محروم ہو جائیں گی ‘‘۔
تلاشی دو تلاشی لو، دو کیس دوبڑی عدالتیں۔ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن میں زیرسماعت دونوں جگہ عمران خان فریق، دونوں جگہ رویہ متضاد۔ نوازشریف کے خلاف سپریم کورٹ میں جورہنماء اصول، الیکشن کمیشن میں انہی اصولوں سے راہ فرار۔ عمران خان! ایک ساکھ ہی آپ کا سرمایہ تھی، آج اس سے محروم، ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ بدقسمتی سے عمران خان کی سیاست سے غصہ،نفرت، انا، حسد، حرص کوشخصیت میں سے نکال دیا جائے تو پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں بچتا، کیا خسارہ۔



.
تازہ ترین