• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلامی جمہوریہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے مگر معیشت کے حجم کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر 41واں ہے۔ گزشتہ 35 برسوں میں پاکستان کی معیشت کی اوسط شرح نمو صرف 4.7 فیصد رہی جو کہ خطے کے اہم ملکوں کے مقابلے میں کم ہے کیونکہ اسی مدت میں بھارت کی شرح نمو 6.4 فیصد سری لنکا 5.5 فیصد اور بنگلہ دیش 5فیصد رہی۔ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے 20 جنوری 2017 کو کراچی میں ایف پی سی سی آئی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ہدف ہے کہ 2030 تک پاکستان دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کی فہرست میں شامل ہوجائے چنانچہ معاشی ترقی کی رفتار دگنی کرنے کیلئے ہم ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔ موجودہ حکومت نے کچھ برس قبل اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ 2018 سے معیشت کی شرح نمو 8فیصد سے زیادہ حاصل کی جائے گی اور 2.25 تک یہ شرح نمو برقرار رکھی جائے گی مگر ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آرہا۔ عالمی ادارے اگرچہ موجودہ حکومت کی معاشی کارکردگی کی تعریفیں کررہے ہیں مگر اس رائے کا بھی اظہار کررہے ہیں کہ 2018 میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو 8فیصد سے زائد نہیں بلکہ 5فیصد سے کچھ زائد رہے گی۔ اس طرح ماہرین 2030 تک پاکستان کو دنیا کی 30 بڑی معیشتوں میں بھی شامل نہیں کر رہے جبکہ حکومت کا ہدف اس مدت میں پاکستان کو دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شامل کرنے کا ہے۔ عالمی بینک کے کمیشن کی 2008 کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر پاکستانی معیشت 8.3 فیصد کی اوسط نمو سے ترقی کرے تب بھی وہ او ای سی ڈی (تنظیم برائے معاشی امداد باہمی اور ترقی) ممالک کی فی کس آمدنی کی سطح پر نہیں پہنچ سکے گا۔ یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ 2008 سے 2016 تک پاکستانی معیشت کی اوسط شرح نمو صرف تقریباً 3.3 فیصد رہی ہے چنانچہ او ای سی ڈی ممالک کے نزدیک پہنچنے کی دوڑ میں پاکستان جنوبی ایشیا کے ممالک بشمول بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہے۔ اگر معیشت کے شعبے میں پاکستان کو قوموں کی برادری میں اپنا جائز مقام حاصل کرنا ہے تو پاکستانی معیشت کو 10فیصد سالانہ کی شرح نمو حاصل کرنے کی حکمت عملی لازماً وضع کرنا ہوگی جو کہ موجودہ حکمت عملی سے یکسر مختلف ہوگی۔ خالق کائنات نے پاکستان کو جو زبردست انسانی و مادی وسائل عطا کئے ہیں اور جو بہترین محل وقوع عنایت فرمایا ہے اگر ان سب سے کماحقہ استفادہ کیا جائے تو 10فیصد سالانہ کی شرح نمو لمبے عرصے تک حاصل کرنا یقیناً ممکن ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے پاکستان کو تمام شعبوں کی پیداواریت بڑھا کر ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی قومی بچتوں اور مجموعی سرمایہ کاری کی مد میں پاکستان کچھ ترقی پذیر ممالک کی اوسط کے لحاظ سے تقریباً بارہ ہزار ارب روپے سالانہ کم وصول کررہا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے پاکستان کو ٹیکسوں کے شعبے اور مالیاتی شعبے بشمول شعبہ بینکاری میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات کرنا ہوں گی۔ بدقسمتی سے وطن عزیز کے طاقتور طبقے بشمول سیاستداں، ممبران پارلیمنٹ و ممبران صوبائی اسمبلیاں، سول و ملٹری بیورو کریسی، تاجر، صنعتکار، وڈیرے اور دینی و مذہبی جماعتیں ان اصلاحات کیلئے پرعزم نہیں ہیں۔ ان تمام طبقات کو ریاست کے چاروں ستونوں کی عملاً معاونت حاصل ہے۔ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں سود کا مقدمہ اور بینکوں کے قرضوں کی معافی کا مقدمہ طویل مدت سے سردخانے میں پڑا ہوا ہے۔ سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے معاشی اشاریوں کو بہتر بنانا ہوگا، کرپشن پر قابو پانا ہوگا، احتساب کا یکساں اور شفاف و موثر نظام وضع کرنا ہوگا اور امن و امان کی صورتحال بہتر بنانا ہوگی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایک ایسی موثر اور مربوط صنعتی پالیسی وضع کی جائے جس کے ذریعے صنعتی اور برآمدی بنیاد وسیع کی جاسکے ۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں جی ڈی پی اور برآمدات کا تناسب 40فیصد ہے جبکہ پاکستان کا تناسب صرف تقریباً 8 فیصد ہے۔ حکومت نے برآمدات کے فروغ کے نام پر 180ارب روپے کا جو مراعاتی پیکج دیا ہے اس سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ گزشتہ 6ماہ میں پاکستانی معیشت دبائو کا شکار رہی ہے۔ برآمدات میں مزید کمی ہوئی ہے۔ جاری حسابات کا خسارہ انتہائی تیزی سے بڑھا ہے، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا حجم انتہائی کم رہا۔ ترسیلات میں کمی کا رجحان رہا اور انٹر بینک مارکیٹ اور کھلی منڈی میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کا فرق بڑھا ہے۔ پاکستان بدستور مالیاتی ذمہ داریوں اور قرضوں کو محدود کرنے کے ایکٹ کی خلاف ورزیاں کررہا ہے جبکہ خدشہ ہے کہ موجودہ مالی سال میں ملک کے مجموعی قرضوں کا حجم مزید بڑھے گا۔
اس پس منظر میں یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے 20 جنوری 2017 کو کہا کہ حکومت سخت قوانین لارہی ہے، ٹیکس چور اب چھپ نہیں سکتے، ٹیکس چوروں کا مستقل تاریک ہے حکومت ان رقوم کا پیچھا کرے گی جس پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا، پاکستان سے لوٹ کر رقوم بیرونی ممالک منتقل کرنے والوں کے خلاف آہنی ہاتھ استعمال کیا جائے گا۔ اس دو ٹوک اعلان کے بعد حکومت کو فوری طور سے انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق(4)111منسوخ کردینی چاہئے۔ اور مالی سال 2017 اور 2018 کیلئے ٹیکسوں کی وصولی کے تناسب میں خاطر خواہ اضافہ کرنا چاہئے۔ وزیر خزانہ کا یہ بیان کے معیشت کو تیزی سے ترقی دینے کیلئے ہم ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں قابل ستائش ہے۔
اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ اگر وزیر خزانہ کے 20جنوری 2017 اور مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور پر عمل کیا جائے تو قربانی دئیے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ وفاق اور صوبوں کی سطح پر ہر قسم کی آمدنی پرموثر طور پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ کالے دھن کو سفید ہونے سے روکا جائے گا اور معیشت کو دستاویزی بنایا جائے گا۔ اگر اس منشور پر عمل کیا جائے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے کئی ہزار ارب روپے کے ’ملکی پاناماز‘ کا سراغ لگا کر ان اثاثوں پر مروجہ قوانین کے تحت ٹیکس وصول کیا جائے تو 2018 میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی 20 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو معیشت کی بہتری اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کیاکچھ نہیں کیا جاسکتا۔

.
تازہ ترین