• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شیکسپیئر کی اکثر ٹریجیڈیز تناقضات کا مظہر رہی ہیں۔ ڈرامہ میک بتھ کے علاوہ ہیملٹ اور کنگ لیئر سمیت دیگر ٹریجیڈیز میں کردار امنگ اورخواہشات کے زیر اثر رہتے ہوئے بدلہ لیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔اس کے ہیرو اپنی شخصی منفی عادات کی بنا پر زوال پذیر ہوتے ہیں۔زیادہ تر ناقدین کا ماننا ہے کہ اسکےنامور کرداراپنے زوال کی وجہ خود تھے۔زوال کے بعد نہ صرف وہ عدم ہوئے بلکہ اپنی ریاستوں کو روبہ زوال کرگئے۔ موجودہ سیاسی منظر نامے پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ عمران خان کی شخصیت اور حالات زندگی و سیاسی سوچ بھی ولیم شیکسپیئر کے ٹریجڈی ڈراموں جیسی بنتی چلی جارہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ شیکسپیئر کے رومانٹک ڈرامہ رومیو جولی ایٹ کامرکزی کردار بن چکے ہیں۔اس ڈرامہ کا ہیرو رومیو کی مانند وہ بھی نتائج سے بے پروا رہنے کے طرز عمل کا عملی مظاہرہ کرتا ہےجواسکی جولی ایٹ سے علیحدگی اوربعد ازاں دونوں کی موت پر منتج ہوتی ہے۔ 21 سالہ دورکرکٹ میں عمران خان نے بہت بڑی بڑی شکستوں اور تنازعات کا سامنا کیالیکن وہ ہر وقت اپنے جلسوں میں ورلڈ کپ جیتنے کا ڈھنڈورہ پیٹتے رہتے ہیں۔ وہ شاید یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ 92کے ورلڈ کپ میںپہلے رائونڈ کے 5میں سے 3میچ ہار نے کے بعد پاکستانی ٹیم انگلینڈ کے خلاف 74کے اسکور پر آئوٹ ہوگئی تھی اور پہلے رائو نڈ سےباہر ہونے والی تھی کہ بارش کے باعث دونوں ٹیموں کو برابر پوائنٹ دئیے گئے۔جس کے بعد ٹیم بمشکل دوسرے رائونڈ میں پہنچی تھی۔ورلڈ کپ ٹیم نے جیتا تھا لیکن وہ انکا نام لینے کیلئے تیار نہیں بلکہ فوائد وہ ہمیشہ خود ہی اٹھاتے چلے آرہے ہیں۔ ڈرامہ میک بتھ کے کردارکی مانندوہ بڑی بڑی خواہشات پوری ہونے کے بعد مزید تمنائوں کےحصول کیلئے ناشکرے پن کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ سیاسی مشکلات در آنے پر خود کیلئے اظہار ہمدردی بھی محسوس کرتے رہتے ہیں۔تحریک انصاف کے آغاز سے لیکر آجتک 20سالوں میں عمران خان کو بوجوہ ایسے مخلص اور وفادار افراد نہ مل پائے ہیں جنکی مدد سے وہ اپنی خواہشات ناتمام پالیں اور اپنی تشنگی مٹالیں۔عمران خان نے بہر حال ایک چیز شیکسپیئر سے بخوبی سیکھ لی ہے کہ وہ پرانے واقعات اور بیانات کو ٹوئسٹ دے کر ان میں نیا پن پیدا کرنےکے فن میں طاق ہوگئے ہیں جن کی بنا پر پہلے وہ توجہ حاصل کرلیتے ہیں اور اس کے بعد ازاں انکے بیانات کا مذاق بھی بن جاتا ہے۔لاہور مینار پاکستان جلسہ کی کامیابی کے بعد وہ تنقیدی سوالات کے بعد صحافیوں کو تواتر سے بائونسرز کی زد میں لے لیتے تھےلیکن دھرنا،دھرنا پلس اور لاک ڈائون کی شرمناک ناکامی اور کے پی میں قابل ذکر منصوبوں کو شروع نہ کرسکنے کے بعد اہل صحافت کے سوال کو ویل لیفٹ کرنا شروع کردیا ہے اور کہیں تبدیلی آئےیا نہ آئے انکے رویے میں یہ کھلی تبدیلی واضح طور پر دیکھی جارہی ہے لیکن وہ اپنے سیاسی مخالفین پر شدید ترین سیاسی حملے کررہے ہیںجیسے وہ انکے ذاتی اور جانی دشمن ہوں۔ ایک پیرا گراف انکی خدمت میں پیش ہے۔ آنحضور ﷺ کی تلوار مبارک کے دستہ پر یہ کنندہ تھا اسے معاف کر دو جو تمہیں درد دے،اسے ملو جو قطع رحمی کرے،اس سے نیکی کرو جو تمہارے ساتھ بدی کرے اور سچ بولو اگرچہ تمہارے اپنے خلاف ہو۔ آنحضورﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ایک دوسرے کو معاف کردیا کرواوربغض و کینہ ختم کردوکیونکہ ان سے نفرت،دشمنی پیدا ہوتے ہیں۔یہ بڑےگناہ ہیںاس لئے اپنے دلوں کو ان سے پاک کردو۔مقدس بائبل میں کہا گیا اپنی تلخیوں، غصہ،عداوت اور دشنام ترازیوں سے نجات پالو۔گوتم بدھ نے کہا تھانفرت کا مقابلہ نفرت سے نہیں بلکہ محبت سے کیا جاسکتا ہےیہ ابدی قانون ہے۔ایک انگریزی کہاوت ہے کہ نفرت قضیہ کو جنم دیتی ہے لیکن محبت تمام کوکامیابی سے تلف کردیتی ہے۔میری پسندیدہ مصنف انیڈ بلائٹن نے اپنے ناول چھ کزن دوبارہ میں لکھاتھامحبت کی نسبت نفرت کو جیتنا جتنا آسان ہے اس سے چھٹکارا پانا اتنا ہی مشکل ہے۔بطور خاتون اس خیال سے میں بھی متفق ہوں مجھے پاکستان کے لاکھوں شہریوں کی طرح عمران خان کے شدید، متعصبانہ و متنازع بیانات اوریوٹرن اشتعال انگیز محسوس ہوتے ہیں۔مخالفین کہتے ہیں کہ پاکستان کو دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنا کر نہ جانے وہ کس کا ایجنڈا مکمل کررہے ہیں۔ جاری پانامہ کیس کی سماعت کے دوران ایک مرحلہ پرجسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں لارجر بنچ نے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری سے پوچھا کیا دنیا میں کسی عدالت نے پانامہ پیپرز کے خلاف کوئی فیصلہ دیا ہے؟ تو انکا جواب مثبت نہ تھا۔معزز عدلیہ نے یہ بھی کہا کہ صرف مفروضوں پر وزیر اعظم کو نااہل کرنا خطرناک مثال ہوگیااور پی ٹی آئی کے وکیل سے دریافت کیا تھاکہ کیا بغیر کسی ٹھوس ثبوت عدالت کو فیصلہ صادر کردینا چاہئے؟حالات و واقعات، دستیاب ثبوتوں اور قانونی احتیاجات کی بنا پر یہ کہا جانا صائب ہوگا کہ عدالتی فیصلہ کے بعد پی ٹی آئی کو ایک بار پھر دھول چاٹنی پڑے گی۔جس کے بعد پی ٹی آئی عدالتی فیصلہ کو مسترد کردے گی کیونکہ وہ 2018کے انتخابات میںہر صورت پنجاب میں فتح حاصل کرنے کا خواب پریشان دن میں ہی دیکھتے چلے جارہی ہے۔
عمران خان اور ان کےحامیوںسے اختلاف رائے کے بنیادی انسانی حق اور اس کے اظہارکے پیش نظر یہ واضح کرتی چلوں کہ اس تحریر کا مقصد نہ تو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حمایت کا اظہار ہے نہ ہی عمران خان کی سبکی مطمع نظرہے۔ یہاں پر یہ بھی واضح کرنا اشد ضروری ہے کہ مخالفت برائے مخالفت اور میں نہ مانوں کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے عمران خان اور ان کے ساتھی نفرت بھری دیواریں نہ صرف بلند کررہے ہیں بلکہ اس کا حجم بھی بڑھاتے چلے جارہے ہیں جس پر تاریخ اور سیاست میں ان کا نام منفی فہرست میں البتہ ضرور لکھا جاسکتا ہے۔ مندرجہ الفاظ تحریر کرنے کا مقصد نفرت کو مہمیز لگاناہرگز نہیں بلکہ حقائق سے آگاہی اورآئندہ کی سیاسی صورتحال پر سیر حاصل بحث کرکے معاملہ قارئین پر چھوڑدینا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے رائے مرتب کریں۔ہر وقت تلاشی کی رٹ لگانے والے عمران خان عدالت میںایس کے بابر کی طرف سے امریکہ اور دیگر ممالک سے تحریک انصاف کو ملنے والے فنڈز کے حساب کتاب اور مصدقہ آڈٹ رپورٹ پیش کرنے سے انکاری ہیں۔وہ تو چھوٹی سی بھی تلاشی دینے کیلئے تیار نہیں۔یہ انکی خام خیالی ہے کہ جو لوگ انھیں فنڈ دیتے ہیںوہ اس کا حساب مانگنے کا حق نہیں رکھتے ہیں۔ انھوں نے طویل عرصہ کے بعد آخر تحریری معافی نامہ جمع کرواد یا۔
پہلے وہ کہتے رہے عدالت مجھ سے پوچھنے والی کون ہوتی ہے؟عدالت ایک عام شہری کی بات کیوں سن رہی ہے ؟
شاید عمران خان اپنے ہی چار بیانات بھول گئے ہیں اول یہ کہ بنی گالہ جمائمہ نے خریدا تھا دوم بنی گالہ لندن فلیٹ بیچ کر خریدا تھا۔سوم بنی گالہ قرضہ لیکر خریدااور چہارم یہ کہ بنی گالہ جمائمہ نے گفٹ کیا۔بنی گالہ کی اصل قانونی حیثیت کیا ہے؟ یہ ابھی تک الف لیلیٰ کی کہانی بنی ہوئی ہےجسے وہ حل کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں؟

.
تازہ ترین