• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صرف خواہشوں اور آرزوئوں سے یہ دنیا نہیں چلتی، اس کے لئے کام کرنا پڑتا ہے، عمل کرنا پڑتا ہے، رسک لینا پڑتا ہے، اپنی جان خطرات میں ڈالنی پڑتی ہے۔ کیا ہی خوب کسی شاعر نے کہا ہے… آرزوئوں کا حسرت، سبب اور کیا بتائوں … میرے شوق کی بلندی، میری ہمتوں کی پستی … یہ بات درست ہے کہ دنیا میں بڑے کاموں کا آغاز خوابوں سے ہوتا ہے۔ خوابوں کو ہی تعبیر ملتی ہے۔ دیکھیں! اسکول سے نکالا ہوا بچہ خواب دیکھتا ہے کہ دنیا میں بہت ہی اندھیرا ہے، روشنی ہونی چاہئے، چنانچہ وہ اپنے خواب کی تعبیر میں جُت جاتا ہے۔ وہ اپنے خواب کی تعبیر کیلئے 9سو 99تجربات کرتا ہے، آخر کار کامیاب ہوجاتا ہے اور بلب ایجاد کرلیتا ہے۔ آج دنیا اسے ’’ایڈیسن‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ وژنری اور کامیاب لوگوں کی سوانح حیات اور آپ بیتیاں پڑھ کر دیکھ لیں، آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ انہوں نے اپنی زندگیوں کو خطرات میں ڈال کر اپنے منصوبوں کی تکمیل کی خیرون القرون کی ایک مثال دیتا ہوں۔ دیکھیں! یہ ویژن تھا کہ پوری دنیا پر اسلام کا پرچم لہرارہا ہوگا۔ پورے عالم میں دین اسلام کا ڈنکا بج رہا ہوگا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اس وژن کو لے کر آپ ﷺکے صحابہ کرامؓ پوری دنیا میں پھیل گئے۔ ایک صحابی ’’عقبہ بن نافع‘‘ ہیں۔ عقبہ بن نافعؓ یہ ویژن لے کر مدینہ سے نکلے تھے کہ مجھے دنیا کے چپے چپے، کونے کونے تک یہ پیغام پہنچانا ہے، چنانچہ وہ چلتے چلے گئے، مراکش پہنچ گئے۔ یہاں تک کہ زمین ختم ہوگئی اور سمندر آگیا۔ پھر انہوں نے بحراوقیانوس میں اپنے گھوڑے کے اگلے دونوں قدم ڈال کر کہا تھا: ’’اے اللہ! تیری زمین یہاں ختم ہوگئی ہے۔ آگے سمندر ہی سمندر ہے۔ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ تیری مخلوق اس سمندر کے پار بھی ہے تو میں وہاں پر جانے کے لئے تیار ہوں۔ علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا۔ پھر سوچا اور کچھ ہی عرصے کے بعد مسلم لیگ کے قائدین کے سامنے یہ منصوبہ پیش کردیا کہ میرا خیال ہے برصغیر کے فلاں فلاں صوبوں کو ملاکر ایک نیا اسلامی ملک بنایا جائے اور وہ ملک ایسا ایسا ہو۔‘‘ ایک خیال، ایک وژن، ایک سوچ دے دی۔ پھر بانیانِ پاکستان نے ان خطوط اور پر تحریک چلائی، بالآخر مسلمانوں کے لئے ایک ملک پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔ عبدالستار ایدھی کی مثال لے لیں۔ یہ بچپن میں بسکٹ اور ٹافیاں بیچا کرتا تھا۔ ایک دن انہوں نے ایک مریض لبِ سڑک تڑپتا ہوا دیکھا۔ اس غریب مریض کو اسپتال تک پہنچانے کے لئےکوئی گاڑی نہیں مل رہی تھی۔ انہوں نے ٹافیاں پھینکیں اور سوچنے بیٹھ گے کہ کیا کرنا چاہئے؟ انہوں نے پورے ملک فری ایمبولینس سروس کا خواب دیکھا۔ سوچا، منصوبہ بنایا اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ یہاں تک کہ ملک بھر میں فری ایمبولینس کا جال بچھادیا۔ سماجی اور رفاہی کاموں کی ایک مثال قائم کرگیا۔ 60 سال بعد جب دنیا سے رخصت ہوا تو ایک ’’ہیرو‘‘ اور ’’رول ماڈل‘‘ تھا۔ ایک کریکٹر اور مثال تھا۔ پاکستان میں دو عورتوں نے سوچا کہ ایک اسکول سسٹم ہونا چاہئے، جہاں ایلیٹ کلاس کے بچے اور پاکستان کی کریم آئے، چنانچہ 1975ء میں ایک تعلیمی سسٹم کی بنیا درکھی اور کامیاب بنانے میں جُت گئی۔ یہاںتک ٹھیک 15سال بعد پورے ملک میں اس کا ڈنکا بج رہا تھا۔ اسی طرح 1978ء میں ایک عورت نے سوچا کہ اسی طرح کا ایک اور تعلیمی سسٹم ہونا چاہئے۔ اس نے سوچا، منصوبہ بنایا اور عملی اقدامات شروع کردیئے۔ ایک سسٹم متعارف کروایا۔ ٹھیک 12سال بعد اس کی شہرت پورے ملک میں ہوچکی تھی۔ اسی طرح ایک کلرک نے خواب دیکھا کہ ملک میں معیاری اور سستی ’’ہائوسنگ سوسائٹیاں‘‘ ہونی چاہئے۔ اس کی تعبیر کیسے ہو؟ اس نے غور و فکر کیا، سوچا، منصوبہ بنایا اور پھر اللہ کا نام لے کر کام کا آغاز کردیا۔ اتنا کام کیا، اتنا کام کیا، یہاں تک اس کا نام اور کام دونوں اسٹیبلش ہوگئے۔ آج ہائوسنگ سوسائٹی میں ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اسی طرح ڈاکٹر عبدالباری کو دیکھ لیں۔ آج سے 15سال پہلے ایک خواب دیکھا کہ میڈیکل فری اسپتال ہونا چاہئے۔ جہاں غریبو ںکو ہر قسم کی ادویہ اور علاج بالکل مفت ہو۔ خواب دیکھنے کے بعد گہرا غور و خوض کیا، ہر اعتبار سے سوچا، اچھی طرح منصوبہ بندی۔ پھر عملی اقدامات میں منہمک ہوگئے۔ یہاں تک کراچی کا سب سے بڑا فری میڈیکل اسپتال کھڑا کردیا۔ یہ کیا ہے؟ یہ ایک شخص کا خواب تھا، اس کا وژن تھا، اس کی منصوبہ بندی تھی، اس کی گہری فکر اور سوچ تھی۔ آج سے چالیس سال پہلے ایک کریانہ دکان کے مالک نے خواب دیکھا کہ ایسا ایسا سپر اسٹور ہونا چاہئے۔ ہر اعتبار سے گہرا غور و فکر کیا۔ مکمل منصوبہ بندی کی، پھر عملی اقدام میں لگ گیا اور کامیاب ہوگیا۔ ملائیشیا کے مہاتیر محمد کو دیکھ لیں۔ انہوں نے ایک اچھی حکمرانی کا خواب دیکھا اور پھر تیس کے مختصر سے عرصے میں سے ایک ناکام ہوتی ریاست کو ’’ایشین ٹائیگر‘‘ بنادیا۔ ترکی کے رجب طیب ارودگان کو دیکھ لیں۔ 1995ء میں ایک صاف ستھرے اور اسلامی ترکی کا خواب دیکھا۔ استنبول کے ناظم منتخب ہوئے اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ یہاں تک کہ پورے ترکی پر چھاگئے۔ اس وقت ترکی صفائی ستھرائی سے لے کر معیشت تک ہر میدان میں آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے۔ ہزاروں سازشوں کے باوجود ترکی دن بدن ترقی ہی کررہا ہے۔ حال ہی میں شروع ہونے والی ’’دیوار مہربانی‘‘ کو دیکھ لیں۔ ایران کے ایک شخص کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ گھروں میں جو زائد اشیاء ہوتی ہیں، جو کپڑے وغیرہ اضافی ہوتے ہیں، وہ ایسے طریقے سے غریبوں کو ملیں کہ ان کا عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ کسی کی سبکی نہ ہو اور سفید پوش بھی یہ اشیاء لے جاسکیں، چنانچہ اس کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔ اس نے اپنے گھر کی بیرونی دیوار پر پینٹ کروایا، گھنٹی لگوائی، اپنے گھر سے اضافی کپڑے لاکر لٹکادیے اور نیچے جلی حروف میں لکھا:’’جس کو بھی ان کپڑوں کی ضرورت ہو، وہ یہ لے جائے۔‘‘ چنانچہ سفید پوشوں اور غریبوں میں سے جس کو جس چیز کی ضرورت تھی، وہ لے گئے۔ ان کا یہ آئیڈیا، سوچ اور وژن اس قدر مقبول ہوا کہ چند ہی ماہ میں پورے ایران میں ’’دیوارِ مہربانی‘‘ بن گئی اور پھر دو سال کے مختصر عرصے میں پورے براعظم ایشیا کے ہر بڑے چھوٹے شہر میں ’’دیوارِ مہربانی‘‘ بن گئیں۔ میرے بھائیو اور دوستو! اس طرح کی ایک دو نہیں سیکڑوں ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ یہ بات یاد رکھیں! خوابوں کو تعبیر ملتی ہے انہیں جو جہد مسلسل، عمل پیہم، مستقل مزاجی اور محنت سے کام کرتے ہیں۔

.
تازہ ترین