• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیر ریاستی عناصر کی کارروائی اور ریاست کی ذمہ داری

کوئی نہیں کہہ رہا تھا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان امن قائم کرنا بچوںکا کھیل ہوگا ۔ دونوں ممالک کے پاس تکلیف دہ تاریخ، تلخ یادوں، نفرت اور عدم اعتمادکے انبار لگے ہوئے ہیں۔ اُن کے پاس جنگی جنون رکھنے والے رہنما ہیں جو ایک دوسرے کی دشمنی کی آتش بھڑکاکر اپنے سیاسی چراغ جلاتے ہیں۔ اپنے قیام سے لے کر اب تک دونوں ریاستوں کے نزدیک قومی مفاد کا تعلق دوسری ریاست کے نقصان سے ہے۔ اُنہیں اس اذیت پسند سوچ کی قید سے نکلنے اور ماضی کے جال سے جان چھڑا کر مشترکہ مفاد اور بقائے باہمی کے اصول اپنانے کے لئے دلیر اور پرعزم قیادت کی ضرورت ہے۔
ہمارے رہنمائوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے سیاسی سرمائے کو اس مقصد کے حصول کے لئے خرچ کریں۔ نواز شریف صاحب نے نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لئے جاتے ہوئے اور پھر روس کے شہر اوفا میں ملاقات کرتے ہوئے غیر معمولی رویے کا اظہار کیا۔ اسی طرح گزشتہ دنوں نریندرمودی کا لاہور میں اترنا بھی حیران کن پیش رفت تھی۔ ہوسکتا ہے کہ ایسی جذباتی اورلمحاتی پیش رفت قیام ِامن کے عمل کو شروع کرنے میں معاون ثابت ہو لیکن ان کا اُس وقت تک فائدہ نہیں ہوسکتا جب تک طرفین کے دماغ میں یہ سوچ راسخ نہیںہوتی کہ دشمنی کے جذبات پالنے سے نہ توریاستوں کی سیکورٹی بہتر ہوگی اور نہ ہی عوام کی حالت میں کوئی تبدیلی آئے گی۔
ہم دونوں ریاستوں میں پروان چڑھائے جانے والے متحارب بیانیے سے آگاہ ہیں۔۔۔۔ بھارت نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا، چنانچہ اس نے 1971میں اسے دولخت کردیا، فاٹا اور بلوچستان میں شورش پھیلانے کے لئے بھارتی خفیہ ایجنسی را فنڈنگ کرتی ہے۔ آپ یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں کہ اجیت دوول پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی بات کررہا ہے۔ سرحد پار بیانیہ اس طرح ہے کہ تمام جنگیں پاکستان نے شروع کیں، وہ بھارت میں علیحدگی پسند گروہوں کی مددکرتا ہے، جب بھارت نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا اس کی طرف سے جواب میں کارگل کا تحفہ دیا گیا۔ پاکستان غیر ریاستی عناصر کی عملی معاونت کرتے ہوئے بھارت میں پرتشدد کارروائیاں کراتا ہے۔
حالیہ دنوں پٹھان کوٹ کا واقعہ اس بیانیے کو تقویت بھی دے سکتا ہے اور ان سے چھٹکارا پاتے ہوئے آگے بڑھنے کا موقع بھی فراہم کرتاہے۔ اس حملے کے بعد البتہ بھارتی حکومت کا رد ِعمل معقول اورمحتاط تھا۔ ممبئی حملوں کے برعکس اس مرتبہ اس نے عالمی سامعین کے سامنے دوٹوک انداز میں پاکستان کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا ۔ اس کی گلیوں میں پاکستان سے نفرت کا بہتا ہوا لاوا دکھائی نہیں دیا۔ اس نے صرف یہی کہا ہے کہ اس کے پاس انٹیلی جنس شواہد موجود ہیں کہ حملہ آور بہاولپور سے آئے تھے اور اُن کا تعلق جیش ِ محمد سے تھا۔ بھارتی افسران کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے پاکستان کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کیا ہے اور اُنہیں توقع ہے کہ ان معلومات کی روشنی میں ہم ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ بھارت نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ وہ سرحد پار سے ہونے والے حملوں کو برداشت نہیں کرے گا۔
اگر ہم اس وقت خود کو بھارت کی جگہ پر رکھ کر سوچیں تو اُس نے کوئی غلط بات نہیں کی ہے۔ اب بال ہمارے کورٹ میں ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم جو کہانیاں بھارتی میڈیا پر سنتے ہیں اُن میں بہت سا ابہام ہوتا ہے۔ کیا پاکستان میں ہونے والے حملوں کے بعد ہم جو کہانیاں سنتے ہیں، اُن میں ابہام نہیں ہوتا ؟ کیا وہ دوٹوک اور اظہر من الشمس ہوتی ہیں؟سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس الزام کہ یہ حملہ پاکستانی سرزمین سے آنے والے غیر ریاستی عناصر نے کیا، یہ کہہ کر مستر د کردیں گے کہ فراہم کردہ معلومات میں بہت جھول پایا جاتا ہے اور یہ قابلِ عمل نہیں، یا پھر ہمارے رویے سے اس عزم کا اظہار ہوگا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنے میں سنجیدہ ہیں اور اس حملے کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف ایکشن لیںگے؟
دسمبر 1999ء میں، جبکہ کارگل کو کچھ ماہ بیت چکے تھے، انڈیا کا ایک طیارہ اغواکرکے قندھار میں اتار لیاگیا۔ اغواکاروںنے مسافروں کے بدلے بھارتی جیلوںسے کچھ قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ان قیدیوں میں مسعود اظہر اور احمد قمر سعید شیخ(جسے بعد میں ڈینیل پرل قتل کیس میں سزا ہوئی )تھے۔ بھارتی جیلوںسے رہا ہونے کے بعد مسعود اظہر اور شیخ پاکستان لوٹ آئے۔ عقل کا تقاضا تھا کہ پاکستان اس کیس سے جتنا دامن بچا سکتا ہے بچا لے لیکن مسعود اظہر کو اسلام آباد اور کراچی سمیت ملک بھر میں جلسوںسے خطاب کرنے کی اجازت دی گئی۔ تاہم یہ ماضی تھا، اب ہم نے دنیا کو بتایا ہے کہ غلطیاں ہر کسی سے ہوتی ہیں۔ جس طرح امریکیوں نے افغان جہاد کی پشت پناہی کرکے غلطی کی، اسی طرح ہم سے بھی غلطیوں کا ارتکاب ہوا۔ امریکیوں نے اُس غلطی کا خمیازہ نائن الیون کی صورت بھگت لیا، ہم ابھی تک مسلسل بھگت رہے ہیں۔ ماضی میں جب غیر ریاستی عناصر کی سرپرستی کا رواج تھا، ہم نے بھی ایسا کیا۔ باقی دنیا کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تو ہم نے بھی بہت سے جانی نقصان کے بعد اپنی غلطیوںسے سیکھ لیا۔ اس سبق کا عملی اظہار آپریشن ضرب ِ عضب کی صورت دنیا کے سامنے ہے اور شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرتا ہو جب آرمی چیف اور وزیر ِاعظم پاکستان اس عزم کا اعادہ نہیں کرتے ہیں کہ پاکستان سے ہر قسم کے انتہا پسندوں کو مٹادیا جائے گا۔ہم نے دنیا کو بتایا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ غیر ریاستی عناصر کبھی ہمارے اثاثے ہوں لیکن اب پاکستان کے ساتھ حالت ِ جنگ میں ہیں، چنانچہ اُن کی طرف سے کی گئی کسی حرکت کی ذمہ دار ی پاکستان پر عائد نہیں ہوتی کیونکہ ، (i)یہ عناصر تشدد پسند ، منہ زور اور جنونی ہونے کی وجہ سے ہمارے کنٹرول میں نہیں، اور (ii)ہم خود ان عناصر کی دہشت گردی کا سب سے بڑا ہدف ہیں۔ اس سے پہلے ہم نے پرویز مشرف کے دور میں بھی ایسے ہی دعوے کیے تھے کہ اب ہمارا ان عناصر سے کوئی سروکار نہیں، لیکن اُس وقت دنیا کو ہماری بات کا یقین نہیں آیا۔ دنیا نے ہماری بات اب، ضرب ِعضب کے آغاز کے بعد سننا شروع کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ہم صرف دعوے نہیں،عملی اقدامات اٹھارہے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ ہم اس مرتبہ بھی بہت اچھے دلائل کے ساتھ دنیا کا سامنا کریں کہ غیر ریاستی عناصر کی ذمہ داری ہم پر نہیں، یا یہ کہ قانونی نظام کو ٹھوس شہادت درکار ہے، جو کہ دہشت گردی کے کیسز میں نہیں ملتی، خاص طور پر جب اس کا ارتکاب سرحد پار کسی ملک میں کیا گیا ہو، لیکن ان دلائل سے حقیقت تبدیل نہیںہوتی کہ اگرچہ ریاستوںکو شرپسند شہریوں کے اقدامات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاتا لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ ان عناصر کی وجہ سے ریاستوں اور اس کے امن پسند شہریوں کا نام ہی بدنام ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ہم نے ان عناصر کے خلا ف کچھ نہیں کیا ہے۔ ماضی میں ہم پر الزام لگتا رہا ہے کہ پاکستان انتہا پسندوں اور جہادیوں کی نرسری ہے لیکن اب گزشتہ کچھ عرصے سےاس الزام میں کچھ تبدیلی آگئی ہے۔ اب کہا جاتا ہے کہ پاکستان صرف ان عناصر کے خلاف کارروائی کرتا ہے جو اس کے لئے خطرے کا باعث بنتے ہیں، لیکن جو اس کے لئے کوئی پریشانی پیدا نہیں کرتے، وہ ان سے اغماض برتتا ہے۔ ایمانداری سے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ الزام قطعی طور پر بے بنیاد ہر گز نہیں۔ ہم نے پہلے اس خیال کو دل میں جگہ دی کہ کچھ طالبان اچھے ہوتے ، جبکہ کچھ برے ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہماری پالیسی اچھے طالبان سے بات کرنا اور برے طالبان سے جنگ کرنا تھی۔ اس کا ہمیں کیا فائدہ ہوا؟نیشنل ایکشن پلان کے آغاز کےبعد سے ہم نے انتہا پسندی ، جو کہ دہشت گردی کی اصل بنیاد ہے، کے خاتمے کے لئے بہت باتیں کی ہیں، لیکن اس سمت عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔
ایسا نہیں کہ ہم اُس چیلنج سے آشنا نہیں، ہم جانتے ہیں کہ اصل مسئلہ کہاںہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب ریاست کو احساس ہوجاتا ہے کہ اصل مسلہ لشکر جھنگوی یا تحریک ِطالبان پاکستان ہیں، تو پھر وہ ہراقدام کرگزرتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ لشکر ِ طیبہ یا جیش محمد نے براہ ِراست پاکستان کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی لیکن پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے وہ اس کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں۔ چنانچہ پٹھان کوٹ کے بعد بھی امید کی جانی چاہیے کہ ریاست معقولیت کا دامن تھامے گی اور اگر بھارت کی طرف سے ٹھوس ثبوت دیا گیا ہے تو کارروائی کرتی دکھائی دے گی۔
تازہ ترین