• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغان طالبان رہنما ملا ربانی کا شوکت خانم کینسر اسپتال لاہور میں علاج کو آ جکل پاکستان پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور دیگر جما عتیں ایشو بنا رہی ہیں اور حکومت پر دبائو ڈال رہی ہیں کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف بھی انہیں دفعات کے تحت مقد مہ درج کیا جائے جن دفعات کے تحت سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عا صم کے خلاف درج کیا گیا پاکستان پیپلز پارٹی اس ایشوپر سیاست چمکانے کی ناکام کوششیں کر رہی ہے اور یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ ان کی جماعت کے ساتھ ہمیشہ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور ان کے رہنمائوں کو انتقام کا نشانہ بنا یا جا تا ہے اس ایشو کو اٹھانے کا مقصدڈاکٹر عاصم کے حق میںراہ ہمور کرنا ہے نہ کے کپتان کے خلاف مقد مہ درج کرواناہے۔ تحر یک انصاف کے چیئرمین عمران خان جو کہ سیدھی بات کرتے ہیں انہوں نے اپنے انٹرویو میں جو کہا اس کاغلط تاثر قائم کیا گیا ہے کپتان نے حامد میر کو دئیے جانے والے انٹرویو میں یہ بات کہنے کی کوشش کی کہ اسپتال میں کسی کا بھی علاج ہو سکتا ہے اسے ایشو نہیں بنانا چاہئے میرے خیال میں اِن کا موقف یہ تھا کہ اگر ڈاکٹرعاصم کوصرف اس لئے حراست میں رکھا گیا ہے کہ ان کے اسپتال میں دہشت گردوں کا علاج ہوتا ہے تو یہ الزام ٹھیک نہیں صرف اس الزام میں اِن کو گرفتار اور زیرحراست رکھنا مناسب نہیں کیونکہ معالج اور معالج گاہ کا کام انسانوں کی بلاتفریق زندگیاں بچانا ہے لیکن اگر کرپشن اور دہشت گردوں کے سہولت کار ہونے کے ٹھوس ثبوت ہیں تو اِن کی گرفتاری قابل ستائش اقدام ہے ۔اب ملا ربانی کے شوکت خانم اسپتال میں علاج کے بارے میں بات کرلیتے ہیں کپتان نے بتایا کہ تین چار سال قبل ملا ربانی کا شوکت خانم اسپتال میں علاج ہوا جس کاعلم اِن کو تب ہوا جب ملا ربانی نے کپتان کونہ صرف شکریہ کا خط لکھا بلکہ شوکت خانم اسپتال میں ملنے والے علاج معالجے کی سہولت کی تعریف بھی کی ملاربانی نے خط شاید اردو یا فارسی میں لکھا ہوگا جو کپتان کو پڑھنے اورسمجھنے میں یقینا دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہوگا جس کے باعث انہوں نے یہ کہا کہ تین چار سال قبل ملا ربانی نے شوکت خانم میں علاج کروایا جب اس بیان کی روشنی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے تحریک انصاف کے چیئرمین کو تنقید کا نشانہ بنایا تو ترجمان پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ایک وضاحتی بیان جاری کیا گیا جس میںکہا گیاہے کہ ملاربانی 1999میں شوکت خانم اسپتال میں علاج کے سلسلے میں آئے تھے اور انہوں نے جو پتہ اسپتال میں درج کروایا ترجمان نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ ملاربانی نے اپنی شناخت پاکستانی کے طور پر لکھوائی یا افغانستان کے رہا ئشی کے طور پر اسپتال میں زیر علاج رہے ان کا علاج مفت کیا گیاتھا یا انہوں نے تمام اخراجات خود برداشت کئے ملا ربانی کو کونسا مرض لاحق تھا۔
درحقیقت ملا ربانی شوکت خانم کینسر اسپتال میں محمد ربانی کے نام سے 21مارچ2000میں آئے تب ان کی عمر 43برس تھی ملا ربانی جگر کے کینسر میں مبتلا تھے اور ملا ربانی نے علاج کے تمام اخراجات خود برداشت کئے اس وقت ان کا علاج جن ڈاکٹر صاحب نے کیاتھا وہ اب امریکہ میں اس شعبے میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں ملا ربانی نے اپنا ایڈریس گلشن جناح فیض آبا د راولپنڈی کا لکھوایا تھاجبکہ 2ٹیلی فون نمبر بھی دئیے جوکہ اسلام آباد کے ہیںجب ان نمبروں پر فون ملایا تودونوں نمبر پر ٹیلی فون ٹیپ چل رہی تھی کہ ان کے نمبرتبدیل ہو چکے ہیں۔ ملاربانی28مارچ2001کو ایک روز کیلئے شوکت خانم اسپتال میں داخل بھی رہے مگر ان کا علاج ایک سال سے زائد عرصے تک چلتا رہا 29مارچ 2001کے بعد وہ دوبارہ نہیں آئے اس تمام عرصے کے دوران افغان طالبان کی افغانستان میں حکومت تھی اور پاکستان میں ان کا سفارتخانہ بھی موجود تھا لہٰذا یہ کہنا کہ شوکت خانم نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے اور کسی دہشت گرد کا علاج کیا ہے غیر مناسب بات ہے، شوکت خانم کینسر اسپتال جیسے قومی ادارے پر سیاست چمکانا انتہائی افسوس ناک اقدام ہے خدارا اس ادارے پر نہ تو پاکستان تحریک انصاف اور نہ ہی پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کو سیاست چمکانا چاہئے کیونکہ اس کی تعمیر اور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے میں پاکستانی بلا تفریق عطیات دیتے ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت اور نظریے سے کیوں نہ ہو شوکت خانم کینسر اسپتال جیسے قومی ادارے کو متنازع نہ بنایا جائے اور تحریک انصاف کے رہنماؤں سے بھی اپیل ہے کہ وہ بھی اس قومی ادارے پر بات نہ کریں۔شوکت خانم کینسر اسپتال پشاور کا افتتاح 29دسمبر کو ہو چکا ہے اور اب شوکت خانم کینسر اسپتال کراچی بننے جا رہا ہے بلاشبہ کینسر جیسے موذی اور مہنگے مرض کے مفت علاج کیلئے شوکت خانم اسپتال پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ ہے ۔شوکت خانم کینسر اسپتال پشاور کی تعمیر کیلئے اُس وقت KPKکے وزیر اعلیٰ سامیر حیدر ہوتی نے پشاور کے پوش علاقے حیات آباد میں نہ صرف زمین دی بلکہ 5کروڑ روپے بھی دئیے اگرچہ اے این پی کی حکومت کے تحریک انصاف کے ساتھ شدید اختلافات تھے جبکہ عمران خان نے اس کی بنیاد بھی وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی سے رکھوائی جو ایک قابل ستائش اقدام تھا۔مستقبل میں بھی ایسے قومی نوعیت کے ادارے کی تعمیر اور تعاون میں قومی یکجہتی کا مظاہرہ ضروری ہے ۔آخر میںمیری ایک مرتبہ پھر ہماری سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ دیگر ایشوز پر ضرور سیاست کرلیں۔شوکت خانم جیسے قومی اداروں پر سیاست ترک کر دیں ۔
تازہ ترین