• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شمالی کوریا کو دنیا ’’بدمعاش ریاستــ‘‘، ـ’’پرائی ریاست ‘‘، ’’خفیہ ریاست‘‘ اور اس طرح کی دیگر ناپسندیدہ اصطلاحات کے ذریعے جانتی ہے۔دنیا میں اس وقت دو سو کے قریب ریاستیں موجو د ہیں ، شمالی کوریا کو ان دو سو ریاستوں میں سب سے زیادہ بدنام ریاست ہونے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل ہے۔ یہ’’ اعزاز‘‘ اس ریاست کے حصے میں آتا ہے جو چار خصوصیات میں سے کم از کم تین خصوصیات کی حامل ہو۔ اول، یہ ایٹمی و دیگر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاربنا رہی ہو،دوم دہشتگردی کو سپورٹ کر رہی ہو،سوم، اپنے ہی شہریوں پر ظلم اور بربریت میں ملوث ہواورچہارم دنیا کے موجودہ نظم وضبط کو چیلنج کرتی ہو۔شمالی کوریا پر پہلی، تیسری اور چوتھی خصوصیت کا الزام ہے ۔ آج کے موضوع کے حوالے سے میں صرف تیسری خصوصیت یعنی اپنے شہریوں پر ظلم اور بربریت کے حوالے سے وضاحت کروں گا۔ کم جونگ آن2011سے شمالی کوریا میں بد ترین آمریت قائم کئے ہوئے ہے۔اسکا باپ کم جونگ ال 1994سے 2011تک شمالی کوریا کا بلا شرکت غیر ے ڈکٹیٹر رہا۔باپ سے پہلے اسکا دادا کم ال سنگ 1948سے1994تک شمالی کوریا کے سیاہ و سفید کا مالک بنا رہا۔شمالی کوریا کی ریاست کا ایک نظریہ ہے کہ ڈکٹیٹر کم جونگ آن کی منشا ہی آئین ہے، قانون ہے ، نیکی ہے ، سچائی ہے اور درست ہے۔اسکے باپ اور دادا کے زیر سایہ بھی ریاست کایہی نظریہ تھا۔ شمالی کوریا کے عوام پچھلے سات عشروں سے ان تین افراد کے ’’نظریے ‘‘ کے غلام رہے ہیں ۔ ان تین ڈکٹیٹروں نے ہزاروں لوگوں کو’’نظریاتی سرحدیں‘‘عبورکرنے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتارا، ہزاروں لوگوں کو غائب کرا دیا، لاکھوں خاندان اجاڑ دئیے۔ سرد جنگ کے زمانے میں شمالی کوریا کے عوام کے اوپر جوبیتی سو بیتی،رپورٹس کے مطابق سوشل میڈیا کے انقلاب کے اس جدید دور میںپچھلے پانچ سالوں میں کم جونگ آن سینکڑوں لوگوں کو قتل کروا چکا ہے۔ اپنے حقوق کی آواز اٹھانے والے شہری تو کسی کھاتے میں ہی نہیں ، وہ حکمران طبقے کے 140سینئرحکومتی اور فوجی افسروں کو بھی قتل کر چکا ہے۔ 2013میں اس نے اپنے ہی چچا کو قتل کروایا۔اپنے ہی وزیر تعلیم کو ’’بدتمیزی‘‘ کے الزام میں فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کر دیا۔2015 میں اپنے ہی وزیر دفاع کا اینٹی ائیر کرافٹ گن سے قتل دکھانے کیلئے زبردستی عوام کو بلایا گیا، حتی کہ اس وزیر دفاع کی اپنی فیملی کی وہاں موجودگی کا خصوصی انتظام کیا گیا۔
اس بات کا پورا کریڈٹ پاکستان کے عوام کو جا تا ہے کہ انہوں نےماضی میں مختلف ڈکٹیٹروں کی پوری کوشش کے باوجود پاکستان کو شمالی کوریا نہیں بننے دیا۔لیکن اسکا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہمارے ڈکٹیٹر مکمل طور پر ناکام ہوئے۔ انکی کوششوں سے آج دنیا میں کہیں کہیں پاکستان کوبھی شمالی کوریا کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے ، خال خال پاکستان کو بھی پہلے بیان کی گئی نا پسندیدہ اصطلاحات سے پکارا جا تا ہے۔ستر سالوں میں ڈکٹیٹر شپ نے سخت سنسر شپ، جھوٹی تاریخ،جعلی مفروضوں اور خطرناک بیانیے کی بنیاد پر عوام کو ـ’’کنویں کے مینڈک‘‘ بنا کر رکھا ۔ جہاں اندرون ملک عوام کوعظمت کے سراب سایوں میں پھنسا تے رہے وہیں بیرون ملک انکی نااہلی، کرپشن، دوسروں پر انحصاراور آمرانہ روش نے پاکستان کو بتدریج عالمی سطح پر تنہا اور بدنام کرنا شروع کر دیا۔پاکستان کے اندر عقل و دانش کی آواز اٹھانے والوں پر ریاستی جبر کا نا رکنے والا سلسلہ جاری رہا جو آج تک جاری ہے۔ دور آمریت میںتین دریا بھارت کو ہار دئیے گئےلیکن کسی کو آواز اٹھانے کی اجاز ت نہیں دی گئی۔ دوسرے دور آمریت میں آدھا ملک بھارت کو ہار دیا لیکن اندرون ملک اس اندوہناک شکست کو فتح بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ تیسرے دور آمریت میں مذہب کے نام کا بے دریغ سیاسی استعمال کیاگیا، ریفرنڈم میںآمر نے اپنے آپ کو ــ’’اسلام کا سپاہی‘‘ بنا کر پیش کیا ، ’اسی دور میں انڈیا نے سیاچن پر اپنی افواج بھیجیں ۔اسی دور میںریاستی اداروں اور چند مخصوص مذہبی گروہوں کے ذریعے شہریوں پر ظلم اور بربریت کے پہاڑ توڑے گئے۔اور چوتھاآمر کارگل کی ہزیمت کا ٹیکہ سر پر سجائے، دو دفعہ آئین توڑ کر، پاکستان کو پرائی جنگوں میں جھونک کر، بلوچستان کو خانہ جنگی کی نذرکر کے، عدلیہ کو محصور کر کے ملک سے فرار ہو گیا۔اس نے تو اپنے ادارے کی ساکھ بھی مجروح کی۔آج کل دبئی ، لندن اور امریکہ کے نائٹ کلبوں میں بھارتی گانوں پر ڈسکو ڈانس کرتا ہوا پایا جاتا ہے۔ماضی میںڈکٹیٹروں کے ان سارے ’’کارناموں‘‘ نے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ لیکن چونکہ پاکستان ایک جمہوری طریقے سے 1946کے عام انتخابات کے ذریعے صرف اور صرف عوام اور جمہور کی حاکمیت کے نظریے پر وجو د میں آیا تھا ، اور قائد اعظم عوام کے اندر جمہوری امنگوں کا بیج بو چکے تھے، اسلئے بہادر پاکستانی عوام نے آمروں کو تاریخ کی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔
پاکستانی عوام آمریت کو بار بار شکست دے چکے ہیں اوراس نے کسی ایک آمر کو بھی پاکستان کا کم ال سنگ، کم جونگ ال اور کم جونگ آن نہیں بننے دیا۔لیکن آمرانہ سوچ ابھی بھی کارفرما ہے، اسکے ساتھ جنگ پاکستانی عام آدمی کو ابھی جیتنی ہے ۔ یہی وہ جنگ ہے جسے بیانیے کی جنگ کہا جا رہا ہے۔ اس جنگ کا بنیادی محاذ یہ ہے کہ پاکستان کی جو بھی نظریاتی سرحدیں ہیں انکا تعین کرنے کا حق صرف اور صرف پاکستان کے عوام اور جمہور کو ہے اور عوام ہی ان نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں۔ عوام اپنی مرضی و منشا کا اظہار جمہوری طریقے سے منتخب عوامی نمائندوں کے ذریعے آئین ساز ی اور قانون ساز ی کے ذریعے کرتے ہیں۔پاکستان کا آئین عوام کا بنایا ہوا ہے جس میں عوام نے نظریاتی سرحدوں کا تعین کیا ہوا ہے۔ ان نظریاتی سرحدوں میں’’جمہور کی حاکمیت‘‘،’’ قانون کی حکمرانی‘‘،’’ بنیادی انسانی حقوق کا احترام‘‘ ،’’ شخصی آزادیوں کی فراہمی‘‘ جیسی کلیدی سرحدوں کا تعین کیا جا چکا ہے۔آج اگر کوئی فرد یا گروہ آئین پاکستان کی متعین کردہ ان نظریاتی سرحدوں کو بلا خوف و خطر پامال کرتا ہے تواسکا مطلب یہ ہے کہ ایک دفعہ پھرطبلِ جنگ بج چکا ہے ۔یہ جنگ کسی آمرکے خلاف نہیں جو سب کو نظر آتا ہے بلکہ یہ جنگ ایسے دشمن کے خلاف ہے جو بظاہر نظر نہیں آتالیکن ہم سب کے درمیان موجود ہے ۔ اس دشمن کا کوئی مجسم وجود بھی نہیں لیکن یہ ایک آمرانہ سوچ کی شکل میں حکمران طبقے کے ان لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے جنہیں کوئی اور نہیں بلکہ صرف اور صرف پاکستانی عوام بڑے بڑے اعلیٰ عہدے ایک مخصوص وقت کیلئے امانت کے طور پر سونپتے ہیں۔ہر کسی کے نہیں لیکن کہیں کہیں طاقت اور اقتدار کے خمار کی وجہ سے کسی کسی کے دل میں عوام کی دی گئی امانت میں خیانت کا خیال چرانے لگتا ہے ۔ چند افرادیا انکے اشاروں پر حرکت میں آنے والے چندسیاسی،صحافتی اور مذہبی کٹھ پتلیاں نہیں بلکہ 20کروڑ عوام اپنی ریاست اور قوم کے بیانیے کے مالک ہیںاور اس بیانیے پر بحث مباحثہ اور مکالمہ کرنے کیلئے کسی کی اجازت کے محتاج نہیں۔حالیہ گمشدگیاں یہ تاثر دیتی ہیں کہ بیانیے کی جنگ شروع ہو چکی ہے اور ہمیں یہ جنگ ہر حالت میں جیتنی ہے۔

.
تازہ ترین