• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری زندگی سے حیرت ختم ہوگئی صرف حیرانی باقی رہ گئی ہے۔ اب آپ پاناما کا قصہ ہی لے لیں کسی کو حیرت نہیں کہ پاناما کے پردے میں کیا کیا کھیل ہوا، بس یہ مقدمہ تو عمروعیار کی داستان سا نظر آتا ہے۔ بس ہماری حیرت تو گم ہے مگر حیرانی بہت ہے۔ قصہ اور کہانی طول پکڑتی جا رہی ہے حیرت کے سمندر میں تو جج صاحبان ہوسکتے ہیں۔ عوام کو تو فقط حیرانی ہے کہ ایسے مقدمے کا دیکھیں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ فریقین کی تاویلیں ایسی جیسے کے اسٹاک مارکیٹ کا ریٹ۔ پاکستانی معیشت بھی دنیا بھر کو حیران ہی کررہی ہے۔ آئی ایم ایف کے غیر محفوظ قرضوں پر بنی مضبوط ترین معیشت کا پرچار ہمارے جناب اسحاق ڈار صاحب خوب کرتے رہتےہیں۔ پھر اسٹاک مارکیٹ کی تیزی دیکھئے۔ ریکارڈ بنا رہی ہے۔ قرضوں کی معیشت پر ایسے ریکارڈ کم ہی دیکھنے میں آتےہیں دوسری طرف پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اسٹاک مارکیٹ کی تیزی کو مشکوک بنا رہی ہے۔
ہماری مضبوط معیشت کا تذکرہ عالمی اقتصادی فورم میں خوب ہوا۔ جس میں شرکت کے لئے ہمارے وزیراعظم خصوصی طور پر سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس گئے ہوئے تھے۔
انہوں نے اس عالمی اقتصادی فورم میں شرکت ایک مبصر کی حیثیت سے کی۔ جناب وزیر اعظم پاکستان کو دعوت نامہ ورلڈ اکنامک فورم کے ایگزیکٹو چیئرمین نے دیا تھا۔ جناب نواز شریف ڈیووس میں بہت ہی مصروف رہے اگرچہ ان کے وفد کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔مگر ان کے قیام کے دوران کافی پاکستانی تاجر اور کاروباری اہم لوگ اس فورم میں نمایاں رہے۔ ورلڈ اکنامک فورم نے دنیا بھر میں کاروبار کرنے والوں کے لئے دس بنیادی اصولوں کو بھی مرتب کیا ہے اس فورم میں سب سے اہم شخصیت چین کے صدر جناب شی چن پنگ کی تھی۔ انہوں نے جو سب سے اہم بات کی وہ دنیا میں معیشت کے بحران کے بارے میں تھی۔ ان کے مطابق دنیا کا اقتصادی بحران ناجائز منافع اور مالیاتی بدانتظامی کا نتیجہ ہے۔ اس فورم کا آغاز بھی چینی صدر کی تقریر سے ہوا۔ اب یہ نہیں معلوم ہو سکاکہ ہمارے وزیر اعظم نے چینی صدر سے کب اور کیسے ملاقات کی اور کن امور پر تبادلہ خیال ہوا۔
ہمارے وزیراعظم کے ساتھ تمام ملاقاتوں میں پرنسپل سیکرٹری جناب فواد حسن بڑے ہی نمایاں رہے۔ وہ ہیرا ہیں اور وزیراعظم اور ان کے پری وار کے مزاج کو خوب جانتے ہیں۔ چند دن پہلے ہی جب اسلام آباد کے گن کلب میں لیگی ایم این اے دانیال عزیز نے غیرضروری سا ہنگامہ کیا اس پر گن کلب کے ملازمین نے کمزور سا دھرنا بھی دیا تو موصوف نے وزیراعظم کے سیکرٹری جناب فواد حسن فوادسے مدد چاہی۔ انہوں نے پہلے تو نظر انداز کیا۔ مگر جب مریم نواز شریف کی سفارش آئی تو وزیر داخلہ سے مدد کی درخواست کی۔ وزیر اعظم کے سیکرٹری بڑے زیرک افسرہیں۔ ایک عرصہ تک پنجاب میں صحت کے معاملات دیکھتے رہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف ان کی صلاحیتوں کے قائل ہیں اب جبکہ پنجاب میں اسپتالوں کا حال بہت خراب ہے ان کو فواد حسن فواد کی کمی بہت ہی محسوس ہو رہی ہے۔
عالمی اقتصادی فورم کی ملاقاتوں میں وزیر اعظم پاکستان نے اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹری جنرل سے خصوصی ملاقات کی اور شنید ہے کہ کشمیر کے تنازع پر اپنا موقف بھی دیا۔ اس کے علاوہ عالمی مارکیٹ کی ایک اہم کمپنی کے چیف جیک مانے سے اہم ترین ملاقات کی۔ مذکورہ کمپنی دنیا بھر میں جدید انداز میں تجارت کو فروغ دے رہی ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم سے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے مثبت انداز میں پیش کش بھی کی۔ ہمارے وزیر اعظم اس گروپ سے خاصے متاثر بھی نظر آئے۔ پاکستانی وزیراعظم جناب نواز شریف کے خصوصی سیکرٹری جناب فواد حسن فواد تمام اہم ملاقاتوں میں وزیراعظم کی مکمل مشاورت کرتے رہے۔ اس اقتصادی فورم نے پاکستان سے بھی کافی لوگوں کو مدعو کررکھا تھا ان میں ایک اہم شخصیت پاکستان کےسابق کماندار جنرل (ر)راحیل شریف کی تھی۔ ان کو دنیا بھرمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے مدعو کیا گیا تھا۔ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا مقدمہ بڑے موثر انداز میں پیش کیا اور لوگوں کو اپنا گرویدہ بھی بنایا۔ ان کے قیام کا انتظام علیحدہ تھا۔ اتنا قریب ہونے کے باوجود وہ وزیر اعظم کا قرب حاصل نہ کرسکے۔
پاکستان کی وزیر مملکت انوشہ رحمان کے علاوہ شرمین عبید چنائے۔ دائود گروپ کے لوگ پاکستان کے سابقہ سفیر برائے بھارت اور کینیڈا جناب شاہد ملک بہت ہی نمایاں رہے۔ جناب شاہد ملک دفتر خارجہ کے اہم لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے بھارت میں سفارت کاری کی پھر کینیڈا میں پاکستان کے ہائی کمشنر رہے۔ سرکاری ملازمت سے فراغت کے بعد اس بڑے صنعت کار و بینکار کے لئے کام کرتے رہے۔ ان صنعت کارنے بھارت میں بینک کے حوالہ سے جو پروجیکٹ سوچا تھا اس پر شاہد ملک نے ان کی رہنمائی کی اور آج کل وہ دائود گروپ کے ساتھ ان کے معاملات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ وہ بھی کچھ اہم اجلاسوں میں نظر آئے۔ سابقہ امریکی سیکرٹری جان کیری نے ایک اجلاس میں پولیو کے حوالہ سے بات کی اور پاکستانی مندوبین کو اس معاملہ کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ ہمارے بیشتر پاکستانی حضرات کی عالمی اقتصادی فورم میں شرکت نجی حیثیت میں تھی۔ مگر ان کو اس فورم میں شرکت سے اندازہ ہوا کہ ملک میں بد انتظامی سے ہی معیشت کی حالت خراب ہے اور اس کا احساس سرکار کو نہیں۔
وزیر اعظم جناب نواز شریف ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کے بعد لندن کے لئے روانہ ہوگئے۔ پانامہ کے مقدمہ کی وجہ سے لندن کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ لندن میں انہوں نے آرام کے علاوہ مسلم لیگ کے صدر جو کچھ دن پہلے نامعلوم لوگوں کے ہاتھوں زخمی ہوگئے تھے ان کی خصوصی عیادت بھی کی۔ لندن کا مختصر سا قیام وزیر اعظم نواز شریف کو چاق و چوبند سا کردیتا ہے۔ اگرچہ ڈیووس کے قیام کے دوران مصروفیت کی وجہ سے وزیر اعظم خاصے تھکے تھکے سے نظر آ رہے تھے مگر لندن یاترا کے بعد ان کے چہرے کی تازگی اور ان کے ہلکے پھلکے جملے ان کےاچھے مزاج کا پتہ دے رہے تھے۔ اس دورہ کے دوران وہ ہر وقت پاکستان میں رابطے میں رہے۔ اس سفر کے دوران میاں نواز شریف نے آنے والے دنوں کے لئے اپنا پروگرام کافی حد تک بنا لیا ہے۔ اور ان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ میاں صاحب اعلیٰ عدلیہ کی کارروائی کی وجہ سے متبادل اقدامات کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔ یہ بات خاصی خوش کن ہے جمہوریت کی بقاکے لئے ایسا اقدام میاں صاحب کے اگلے الیکشن کے لئے ایک سنگ میل ہو سکتا ہے اگرچہ یہ پتھر بھاری ہے مگر اٹھانے میں کیا ہرج ہے۔ آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟ ہوسکتا ہے اعلیٰ عدالت قوم کو حیران اور میاں صاحب کو حیرت زدہ کر دے۔

.
تازہ ترین