• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پتہ نہیں دنیا کے کسی اور ملک میں بھی اس طرح کے تماشوں کی اجازت ہے یا نہیںلیکن پاکستان میں تو یہ تماشے معمول کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر یہ سلسلہ کسی روک ٹوک کے بغیر یوں ہی چلتا رہا تو بات کہاں جا کر رکے گی۔ میرا اشارہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ میں پانامہ پیپرز کے بارے میںجاری اس مقدمے سے ہے جو خاصی شہرت اختیار کر گیا ہے۔ اس مقدمے میں عمران خان کی تحریک انصاف ، سراج الحق کی جماعت اسلامی اورشیخ رشید احمد کی پاکستان عوامی تحریک مدعی ہیں۔ مقدمہ وزیر اعظم نواز شریف اور انکے اہل خانہ کے خلاف ہے اور تنازع کا مرکز لندن کے فلیٹس ہیں۔ یہ مقدمہ جسٹس انورظہیر جمالی کے دور میں شروع ہوا۔ انکی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے ایک نیا پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا ۔اگرچہ وہ خود اس بنچ کا حصہ نہیںبنے۔ گزشتہ دو ہفتوں سے یہ بنچ مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیادوں پر جاری رکھے ہوئے ہے۔ تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے سربراہ حامد خان کو تو ابتدا ء میں ہی الگ کر دیا گیا۔ یہ ذمہ داری نعیم بخاری نے سنبھالی۔ وہ کئی ماہ تک پوری تفصیل کیساتھ اپنے دلائل دیتے رہے اور عدالت بڑے تحمل سے سنتی رہی۔ پھر وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان کی باری آئی۔ انہوں نے بھی بھرپور دلائل دئیے جو پورا ہفتہ جاری رہے۔ تین دن جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے بھی لے لئے جنکے بارے میںعدالتی ریمارکس آئے کہ انہوں نے اپنے موکل کے کیس کو جتنا تقصا ن پہنچانا تھا پہنچا لیا۔ اب مریم نواز کے وکیل دلائل دے رہے ہیںجسکے بعد حسین نواز اور حسن نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ میدان میں اتریں گے۔
عدالت کے اندر جاری عمل تو آئین و قانون کے طے شدہ ضابطوں کے مطابق چل رہا ہے۔ہر فریق کے وکیل کو اپنا موقف پیش کرنے کی مکمل آزادی ہے۔اور معزز جج صاحبان حقائق کا سراغ لگانے کے لئے مسلسل سوالات بھی کر رہے ہیں۔لیکن اس عدالت سے باہر بھی کئی عدالتیںپورے جوش و خروش کیساتھ جاری ہیں۔پہلی عدالت اس وقت لگتی ہے جب مدعی جماعتیںاور حکومت کے نمائندے صبح صبح عدالت کا رخ کرتے ہیں۔کمرہ عدالت میں داخل ہونے سے قبل کم از کم تین یا چار شخصیات اپنے خیالات سے نوازتی اور متوقع سماعت کے بارے میں اظہار خیال کرتی ہیں ۔ ان میں شیخ رشید احمد نمایاں ہوتے ہیں جو ہر روز یہ خبر دیتے ہیں کہ پورے ملک کی آنکھیں صرف پانامہ کیس پر ہی لگی ہیں اور بیس کروڑ انسان صرف نواز شریف کی نااہلی کے منتظر ہیں۔ پھر عدالت عظمیٰ کورٹ نمبر 2 میں باقاعدہ سماعت کا آغاز کرتی ہے۔ اس کارروائی کی تفصیلات ساتھ ساتھ باہر آتی رہتی ہیںاور تمام ٹی وی چینلز پر ٹیکرز ، خبروں اور تبصروں کی شکل میں متوازی "عدالتی کارروائیاں" جاری رہتی ہیں۔ جب باقاعدہ سماعت ختم ہو جاتی ہے تو فریقین باہر نکلتے ہیں ۔یہ مناظر بھی پوری قوم کو دکھائے جاتے ہیں۔
پھر عدالت عظمیٰ سے باہر شاہراہ دستور پر ایک نئی عدالت سجتی ہے۔ کیمر ے پہلے سے لگے ہوتے ہیں۔ چینلز کی براہ راست نشریات والی گاڑیاں تیار ہوتی ہیں۔ پہلے جس کو بھی موقع مل جائے محاذ سنبھال لیتا ہے۔ حکومت کو موقع ملے تو ایک پوری ٹیم لائن میں لگی ہوتی ہے۔ معاملہ خواجہ آصف، سعد رفیق یا مریم اورنگ زیب پہ ختم نہیں ہو جاتا۔ طارق فضل، دانیال عزیز،محسن رانجھا، طلال چوہدری اور مائزہ حمید بھی سرکاری موقف میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ وہ اپنی بھڑاس نکال کر رخصت ہوتے ہیں تو پی ٹی آئی رہنما اپنا چہرہ دکھانا ضروری خیال کرتے ہیں۔ پانچ سات افراد اپنے مخصوص لب و لہجہ میں خطاب کرتے اور رخصت ہو جاتے ہیں۔وہ منظر سے پوری طرح غائب نہیں ہوتے کہ شیخ رشید احمد کی تقریر شروع ہو جاتی ہے۔ وہ ہٹنے نہیںپاتے کہ سراج الحق کا خطبہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ عدالتیں اپنے دفتر سمیٹ کر گھر چلی جاتی ہیں لیکن انکے ارشادات مختلف چینلز پر مسلسل گونجتے رہتے ہیں۔ اتنے میں شام ڈھل جاتی ہے ۔ پانچ یا چھہ بجے کے لگ بھگ مختلف ٹی وی چینلز پر بیسیوں عدالتیں لگ جاتی ہیں۔ یہ عدالتیں رات بارہ بجے تک چلتی رہتی ہیں۔ ان میں سے کچھ عدالتیں ایسی بھی ہیں جو ہر روز اپنا فیصلہ بھی سناتی ہیں۔ انکے سنائے گئے فیصلوں کے مطابق نواز شریف نا اہل قرار پاتے ہیں۔ ہر ایک عدالت میں بیٹھا "جج " اپنی اپنی آبزرویشن دیتا اور قوم کو کسی نہ کسی طرح کی خوش خبری سناتا ہے۔ لوگ ان عدالتی کارروائیوں سے لطف اندوز ہو کر سو جاتے ہیں۔علی الصبح جب انکی نگاہ اخبارات پر پڑتی ہے تو شہ سرخیوں سے لے کر تبصروں، جائزوں، اداریوں، کالموںاور بیانات میں بھی جا بجا چھوٹی چھوٹی عدالتیں لگی ہوتی ہیں۔ ان عدالتوں میں بیٹھے "جج صاحبان" اپنے اپنے ذوق اور اپنی اپنی پسند کے مطابق فیصلے سناتے نظر آتے ہیں۔ کئی ایسے بھی ہیں جو سپریم کورٹ کے معزز جج صاحب کو قیمتی قانونی مشوروں سے بھی نوازتے ہیں۔
اب آپ ہی بتائیے کہ بے چارے عوام کیا کریں؟ اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ عدالتی کارروائی کو نمک مرچ لگائے بغیر عوام تک پہنچا دیا جائے ۔لیکن عدالت کے مقابلے میں عدالتیں لگانا کون سے ملک میں روا ہے؟ مگر ہمارے ہاں یہ تماشا جاری ہے۔ اس میں خود سیاستدان بھی شامل ہیں اور میڈیا بھی۔معزز جج صاحبان نے ایک دو بار نرم لہجے میں توجہ دلائی کہ بہت ہو چکا۔اب عدالت کے فیصلے کا انتظار کریںلیکن نہ سیاستدانوں نے یہ بات سنی نہ میڈیا نے کان دھرے۔لہٰذا تماشے پورے عروج پر ہیں۔دیکھیے پانامہ کے نام پر تماشے کب تک جاری رہتے ہیں۔

.
تازہ ترین