• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک شام میں 2011ء سے خانہ جنگی جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں اب تک ہر 10میں سے 6شامی اپنا گھربار چھوڑ کر دوسرے ممالک یا اپنے ہی ملک کے دوسرے علاقوں میں ہجرت کر چکے ہیں۔ شامی مہاجرین کی یہ تعداد ایک کروڑ 20لاکھ سے زائد بنتی ہے۔ ان مہاجرین میں سے 74لاکھ شامی اپنے ہی ملک میں اور48 لاکھ پڑوسی ممالک میں پناہ گزین ہیں۔ سب سے زیادہ مہاجرین ترکی میں پناہ گزین ہیں۔ ترکی میں اس وقت 27لاکھ شامی مہاجر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ لبنان میں 14لاکھ، اردن میں سات لاکھ، عراق میں 3لاکھ، مصر میں 2لاکھ، جرمنی میں ڈیڑھ لاکھ، یونان میں ایک لاکھ کے قریب، الجزائر میں 40ہزار، سویڈن میں 55ہزار، آسٹریا میں 23ہزار، برطانیہ میں8 ہزار، آرمینیا میں5 ہزار، بحرین میں6ہزار، لیبیا میں 5ہزار 2سو، اطالیہ میں قریباً پانچ ہزار، بلغاریہ میں 5ہزار 5سو، کینیڈا میں 3500، برازیل میں 2100، رومانیہ میں 1847، ارجنٹائن میں ایک ہزار سے زائد، روس میں 1800، فلسطین میں 1200، فرانس میں ایک ہزار کے قریب، مقدونیہ میں ایک ہزار، پولینڈ میں پانچ سو، کولمبیا میں 800، یورا گوئے میں 500، امریکہ میں 600اور میکسیکو میں 400سے زائد شامی مہاجر موجود ہیں۔ یہ مہاجرین کن حالات میں زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ یہ دل دہلا دینے والی داستانیں ہیں۔ مہاجر کیمپوں میں موجود ان لوگوں کو انسانیت کی طرف سے بدترین سلوک کا سامنا ہے۔ خاص طور پر یورپ میں پناہ گزین ان شامی مہاجرین کی زندگی اذیت کا شکار ہے۔ انسانیت پر مہربانی کے نام نہاد دعویداریورپ میں شامی خواتین کے ساتھ زیادتیاں کی جا رہی ہیں۔ دست درازی اور چادر اور چار دیواری کی تمام حدود پار کی جارہی ہیں۔ مہاجر کیمپوں میں لاکھوں معصوم بچے ہیں اور ان بچوں کو بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں۔ دودھ، پانی، علاج معالجے کی سہولتوںاور خوراک کی شدید قلت کا سامناہے۔ لاکھوں ایسے بچے ہیں جن کا کوئی والی وارث موجود نہیں۔ یہ خانہ جنگی میں اپنے والدین سے بچھڑ گئے یا ان کے والدین جنگ کا دھواں بن کر فضا میں تحلیل ہو گئے مگر ان لاکھوں بچوں کا کوئی بھی پرسان حال نہیں۔ یہ لاکھوں مہاجرشامی سرحدوں اور پڑوسی ممالک کے سرحدی علاقوں میںبے یارومددگار پڑے ہیں۔ شدید سردی، برف باری اور موسم کی سختی نے ان کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیںمگر انسانی حقوق کے دعویدار ادارے اور مہذب قوم ہونے کا دعویٰ کرنے والے ان مظلوموں کی داد رسی کرنےکو تیار نہیں۔ ترکی میں موجود پناہ گزینوں کو بھی دہری مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک جانب یہ اپنے ملک سے تباہ حال رخصت ہو کر وہاں پہنچے تو اب ترکی میں بھی امن وامان کی صورتحال کے ابتر ہو جانے سے وہاں ان کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ ترکی میں پے درپے دہشت گردی کے واقعات سے معاشی گراف تیزی سے نیچے آ گیا ہے۔ ترکی کی کرنسی شدید گراوٹ کا شکار ہے اور ان حالات میں ترکی شدید معاشی اور انسانی بوجھ تلے دب چکا ہے۔ دیگر ممالک نے تو پہلے پہل شامیوں پر اپنی سرحدیں بند کر دیں۔ یورپ اور امریکہ نے مذہبی تعصب کی دیواریں کھڑی کر دیں۔ جرمن چانسلر اینجلا مرکل انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مہاجرین کے لئے اپنے در کھولنا چاہتی تھیں مگر دائیں بازو کی جماعتوں کی شدید مخالفت نے ان کے ہاتھ باندھ دئیے۔ یورپ میں دہشت گردی کے واقعات بھی مہاجرین کی آباد کاری میں سب سے زیادہ رکاوٹ کا باعث بنے۔ فرانس میں چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملہ ہو، نیس شہر میں ٹرک کے ذریعے دہشت گردی ہو، جرمنی کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کے واقعات ہوں یا پھر پیرس اور بلجیم میں حملے، دہشت گردی کے ان واقعات سے مسلم دنیا کے خلاف یورپ بھر میں نفرت آمیز لاوا پھٹا اور شامی مہاجرین اس لاوے کا شکار ہوگئے۔ ناقدین کا کہنا ہے ان حملوں کے پیچھے بھی یورپ کی متعصب سوچ کارفرما تھی۔ شام میں انسانیت کے اس المیے پر یورپی ممالک میں حملوں کا مقصد پناہ گزینوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینا تھا۔ یورپ بھر میں یہ خوف پھیلانا مقصود تھا کہ اگر ان شامی مہاجرین کو پناہ دے دی گئی تو یورپ کی اقتصادی اور ثقافتی ہیئت کو شدیدنقصان پہنچے گا اور یورپ کی اصل شناخت متاثر ہو گی، تاہم جرمنی اور کینیڈا کی طرف سے مہاجرین کو پناہ دینے کے پیچھے بھی کچھ وجوہات ہیں۔ جرمنی دنیا کا واحد ملک ہے جس میں شرح پیدائش سب سے کم ہے۔ یہ ایک صنعتی ملک ہے اور اس صنعتی ملک کو انڈسٹری چلانے کے لئے جوان خون درکار ہے۔ جرمنی میں ریٹائرڈ بوڑھوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور جرمنی کو اپنی اقتصادیات بچانے کے لئے اندازاً 70 لاکھ افراد کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کینیڈا کو بھی اپنی آبادی کا توازن برقرار رکھنے کے لئےدو ڈھائی لاکھ غیر ملکی افراد چاہئے ہوتے ہیں۔ یوں اگر یہ ممالک مہاجرین کو پناہ دے رہے ہیں تویہ ان ممالک کی اپنی ضروریات اور مستقبل کی پیش بندی بھی ہے۔ اسی طرح ہنگری ہے۔ ہنگری واحد ملک تھا جس میں شامی مہاجرین کے خلاف سب سے زیادہ غم و غصہ دیکھا گیا۔ مہاجرین کی آباد کاری کے حوالے سے ہنگری میں باقاعدہ ریفرنڈم بھی ہوا اور اس ریفرنڈم میں اکثریت نے مہاجرین کے خلاف ووٹ دیا۔ہنگری کو بھی آبادی کا عارضہ لاحق ہے۔ ہنگری میں ہر سال پچاس ہزار افراد کی کمی واقع ہو جاتی ہے، لیکن یہ اس کے باوجود مہاجرین کو پناہ دینے کو تیار نہیں۔ یورپ کا یہ دہرا رویہ ہے جہاں ایک طرف وہ مہاجرین سے ہمدردی کے بیانات جاری کرتا رہتا ہےتو دوسری طرف ہر واقعے اور دہشت گردی کا تعلق مہاجروں سے جوڑ کر ان سے بچنے کے اسباب بھی پیدا کرتا ہے۔ یوں اگر دیکھا جائے تو مہاجرین کا یہ سارا بوجھ اس وقت مسلم ممالک کے کاندھوں پر ہے۔ ترکی، لبنان اور مشرقی وسطی کے دیگر ممالک اپنے ہی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ شام کا بوجھ بھی اٹھا رہے ہیں۔ صرف اکیلے ترکی نے 70؍ارب ڈالر سے زائد کی رقم ان مہاجرین کے لئے وقف کی ہے، لیکن مہذب دنیا کہلانے والی طاقتیں، انسانیت کے گن گانے والی قوتیں ان شامیوں کا تماشا دیکھ رہی ہیں۔ ایک جانب اپنے ہی اتحادیوں سے شامیوں کی نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہیں اور دوسری جانب ان مہاجرین کو پناہ دینے سے بھی گریزاں ہیں۔شامی مہاجرین کے ساتھ یہ سلوک ایک بڑے انسانی المیے کو جنم دے رہا ہے۔ اردن، عراق، ترکی، لبنان اور فلسطین سرحدوں میں گھرا یہ شام قیامت خیز مناظر سے گزر رہا ہے۔ پڑوسی ملک عراق ہے جو پہلے ہی زخموں سے چور چور ہے۔ لبنان بذات خود انتشار کا شکار ہے۔ فلسطین پر عالمی سامراج کا گماشتہ اسرائیل آگ و آہن برسا رہا ہے اور رہ جاتے ہیں ترکی اور اردن تو ترکی دہشت گردی کا شکار ہونے کے باوجود شام کی مدد کر رہا ہے اور اردن بھی سات لاکھ مہاجرین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، باقی دنیا انسانیت کے اس بڑے المیے پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ امیر ممالک اپنی عیش و عشرت میں مگن ہیں۔ عالمی طاقتیں اپنا مفاداتی کھیل ’’پراکسی وار‘‘ کھیلنے میں مصروف ہیں اور کروڑوں شامی زندگی کی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’مسلمان ایک جسم کی مثال رکھتے ہیں کہ جسم کا ایک عضو بیمار پڑ جائے تو سارا جسم اضطراب اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔‘‘ ڈیڑھ ارب مسلمانوں سے درخواست ہے کہ وہ وحدتِ امت کا ثبوت دے۔

.
تازہ ترین