• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب منطق اور دلیل ختم ہو جاتی ہے تو دماغ بند، زبان تیز و دراز اور ہاتھ گریبانوں تک پہنچ جاتے ہیں۔26 جنوری کی شام 20 کروڑ عوام کےنمائندہ مقدس ایوان میں وہ ہوشربا اور شرمناک مناظردیکھنے کو ملے کہ راقم کو اس وقت اپنی آنکھوں پر یقین آیا، نا آج یہ سطور لکھتے ہوئے ہمت ہے کہ انہیں دہرا سکے۔
قارئین کرام! ہمارے دیہاتی کلچر میں عزت واحترام کی روایات کا سنہری پہلو یہ ہے کہ کسی موقع پردو ان پڑھ افراد باہم تلخ کلام ہوں تو کسی خاتون کے پاس سے گزرنے پر دونوں فریق آوازوں کو پست، لہجوں کو محتاط اور غیر مناسب الفاظ کی ادائیگی میں لحاظ برتتے ہیں لیکن جمہوریت کی آڑ میں اقتدار اور طاقت کےنشے میں بعض ’’منتخب معزز‘‘ ارکان نے ملک کے سب سے معتبر اور آئینی طاقت کے محور ادارے میں قابل احترام خواتین ارکان کی موجودگی میں جو کچھ کہا اور کیا، وہ یقین اور بیان سے باہر ہے، زہر آلود سچ ہےکہ خواتین پر توہین آمیز جملے اور نامناسب زبان کا استعمال ہی تھپڑ، مکے، دھکے اور گریبان چاک کی صورت حال کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
90کی دہائی کے پراگندہ سیاسی ماحول کی مثال دی جاتی ہے، اس وقت میڈیا محدود تھا کبھی بات چھپ جاتی، کبھی چھپا لی جاتی اور کبھی اس کو زبردستی یا مجبوراً رکوا لیاجاتا، لیکن موجودہ صورت حال میں اب کچھ چھپانا ممکن ہے نہ حقیقت سے منہ موڑنا، سب کے ہاتھ میں موبائل فون کی صورت ریکارڈر موجود ہے، سب ریکارڈ ہو رہا ہے، جو کچھ سامنے آ جاتا اس کی وضاحت دینی بھی مشکل اور عوام کا یقین کرنا اس سے بھی مشکل ترین ہو جاتا ہے، پھر سے سنجیدہ رویے اور سیاسی برداشت کا کلچرمفقود ہو رہا ہے، کیا پھر انہی راستوں اور منزل کا حصول مقصود ہے؟ 26جنوری کے ہنگامہ آرائی کے واقعہ کےدوران محترم اسپیکر موجود تھے اور حیرت انگیز اور پریشان کن پہلو یہ ہے کہ انہوں نے معاملے کی تحقیقات کا آغاز کیا تو سب سے پہلے میڈیا کےموبائل فوٹیج سے ایوان کی کارروائی کور کرنے پر پابندی کا فیصلہ سنا دیا۔ وجہ بتائی کہ ایوان کی ’’کارروائی‘‘ چینلز پر نشر ہونے سے جمہوری ادارے کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی، گویا آئین، قواعد و ضوابط اور اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی میڈیا نے کی؟ انصاف کی جے ہو۔۔۔! اسپیکر صاحب کی تحقیقات کے نتیجے کا بھی انتظار ہے کہ کیا پارلیمانی تاریخ کو مجروح کرنے والوں سے کوئی جواب لے گا انہیں بھی کوئی سزا ملے گی؟ یا یہ بھی پارلیمانی روایت کا ایک ناخوشگوار واقعہ بن کر ہمارے کالموں کا حصہ بن جائے گا؟ نیا کوڈ آف کنڈیکٹ بنانے کی بجائے پہلے سے موجود آئینی دائرہ کار اور قواعد و ضوابط پر عمل کون کرائےگا؟ صورت حال کےاس نہج پر پہنچنے اور اس کے محرکات کے سوالات اپنی جگہ موجود رہیں گے۔ سب حکمران ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں لگے ہیں، وفاق اور پنجاب کےحکمران خود کو سب سے پاک صاف، ایماندار اور جمہوریت پسند سمجھتے ہیں، گویا ان کو کچھ بھی کہنا، شان میں گستاخی اور جمہوریت دشمنی کے مترادف ہے؟ دوسروں کو تنقید کا حق دینے کو تیار ہیں نہ ہی اپنے فیصلوں پر سوال اٹھانے کی اجازت دینے کو تیار ہیں، پارلیمان میں حکومتی بینچز سے بالخصوص خواتین کے بارے میں جس طرح کی زبان اور انداز اختیار کیا جاتا ہے وہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے، دوسری طرف سپریم کورٹ میں زیر سماعت پاناما لیکس اوردن بدن بدلتی پریشان کن صورت حال حکومت کے غیظ و غضب اور موڈ کی خرابی کا باعث ہو سکتی ہے، لیکن یہ بھی یاد رکھنا لازم ہے کہ یہ سجاد علی شاہ کی عدالت ہے نہ وہ سیاسی حالات، نہ ہی وہ میڈیا، روزگار کی فراہمی، توانائی کےبحران کے خاتمے، ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ، معاشی حالات کی بہتری اور تعلیم، صحت وغیرہ کے ’’بلاجواز‘‘ اور ’’فضول‘‘ سوالات پر ٹینشن لینے کی بجائے ان کےحل پر توجہ معاملات و حالات میں بہتری کا سبب بن سکتی ہے۔ دوسری طرف دیکھیں تو خیبر پختونخوا جیسے اہم صوبے کےحکمران اور نواز حکومت کے حریف اپنی مخصوص سوچ اور نظریے کے علاوہ کسی دوسرے کی بات سننے یا جمہوری سیاسی برداشت کےطور اطوار اپنانے کو تیار نہیں، نیا پاکستان بنانے کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کیلئے آئندہ انتخابات کا انتظار کرنے کی بجائے جلد بازی اور شارٹ کٹ نہ ملنا شاید ذہنی کوفت کا سبب بنا ہوا ہے، کے پی میں حق حکمرانی پر سوالات نے بھی مخمصے میں مبتلا کر رکھا ہے، عوام جاننا چاہتے ہیں کہ بنیادی تعلیم ہر بچے کو دینے کا وعدہ پورا کیا جاتا تو2013 میں اسکول جانے والا بچہ چوتھی کلاس میں پہنچ چکا ہوتا، ملک میں سب سے زیادہ ڈھلوان والے صوبے کو ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں سے بجلی میں خود کفیل کر دیا جاتا وغیرہ۔ آئندہ انتخابات سر پر آپہنچیں اور کسی بھی طور ان ’’غیر سیاسی و غیر جمہوری‘‘ سوالوں کے جواب نہ بن پائیں تو یہی رویے ہیں جن سےعوام سےمحبت کا اظہار جھلکتا ہو؟
قارئین محترم اگر ایسا ہی ہے تو کیا عوام یہ سمجھیں کہ ڈکٹیٹر شپ کے آٹھ برسوں بعد ہی پاکستان کا جمہوری نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے؟ ذاتی مفادات، اقتدار کی مضبوطی، زیادہ سےزیادہ طاقت کا حصول، زبان ہی نہیں دو بدو لڑائی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا واحد راستہ بچا ہے؟ ماضی سے سبق سیکھنے کی بجائے سیاسی میدان میں اپنی محنت اور کارکردگی کی بجائے، ذاتی مخاصمت اور تباہ کن رویوں کو اپنی پہچان اور نظام کی مضبوطی قرار دیا جا رہا ہے؟
جمہوریت کی اس بھیانک خوبصورتی سے پیچھا چھڑانے کی سعی کیوں نہیں کی جاتی جس میں ’’پارٹی لیڈرز‘‘ اپنے پرلگنے والے الزام کی صفائی دینے کی بجائے دوسروں پر انگلی اٹھا کر خود کو احتساب سے مبرا سمجھتے ہیں؟ ایک محترم شخصیت کا ایک جملہ ذہن کو جھنجھوڑ رہا ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ مقدس ایوان میں غریب کو ایک وقت کی روٹی کی فراہمی، نظام تعلیم کی بہتری، اسپتالوں کے ابترحالات ٹھیک کرنے اور بھاری بھر کم ڈگریاں لئے خاک چھانتے نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کبلئے ارکان زبان درازی کرتے، حقائق بے نقاب کرتے، گریبان پکڑتے، لڑ مرتے اور امر ہو جاتے۔ کاش۔۔۔

.
تازہ ترین