• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2 جولائی 1900ء کو یورپ کے ملک آسٹریا کے ایک یہودی گھرانے میں ایک بچے نے جنم لیا، جسے لیوپولڈ ویس کا نام دیا گیا۔ ہوش سنبھالا تو والدین نے محسوس کیا کہ یہ تو کوئی انوکھی چیز ان کے آنگن میں اتر آئی ہے۔ ایک مضطرب اور بے چین روح..... مذہب اور سماجی ضابطوں کا باغی، گھٹن بڑھی تو صرف 14برس کی عمر میں گھر سے بھاگ نکلا۔ پہلی عالمی جنگ کی ابتدا ہوچکی تھی، غلط نام اور عمر بتا کر فوج میں بھرتی ہوگیا۔ شام کے محاذ پر بھیجا ہی جانے والا تھا کہ والدین آڑے آئے اور بڑی منت سماجت کے بعد لڑکے کا نام فہرست سے کٹوا لیا اور گھر واپس لے گئے مگر وہ ان کے لئے بدستور دردِ سر بنارہا۔ مذہب اور سماج کے ضابطوں کا باغی یہ نوخیز لڑکا تو آبائو اجداد کے مذہب (یہودیت) کو کھلم کھلا چیلنج کررہا تھا۔ وہ اسے محض ڈھکوسلا قرار دیتا تھا اور مذہب کے طور پر ماننے کے لئے ہرگز تیار نہیں تھا، مگر اس حوالے سے کنفیوزڈ تھا کہ اگر اس کے بڑے بزرگوں کا مذہب ڈھکوسلا ہے تو پھر حقیقت کیا ہے؟ تلاش حق کا یہ سفر لیوپولڈ کی زندگی کا مشن بن گیا۔ اس نے دنیوی علوم حاصل کئے، سیاسیات، سماجیات اور لسانیات کے مطالعہ میں اوج کمال کو پہنچا۔ ادیان کا تقابل بھی دقیق نگاری سے کیا۔ قرآن حکیم بھی مسلسل مطالعے میں رہا۔ گتھی سلجھ نہ پارہی تھی اور پھر یکایک وہ وقت آن پہنچا۔ اپنی خودنوشت ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ قیام جرمنی کے دوران ایک سب وے میں سفر کررہا تھا اور حسب عادت مسافروں کی ظاہری اور باطنی کیفیات کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔ مجھے یوں لگا کہ بظاہر مطمئن، خوش پوش اور خوش خصال لوگ اندر سے شدید طور پر ٹوٹے ہوئے اور غیرمطمئن اور کنفیوژن میں شاید مجھ سے بھی بڑھ کر۔
’’انہی خیالوں میں گم سم گھر پہنچا اور سیدھا اسٹڈی میں گیا، جہاں میز پر قرآن حکیم کھلا چھوڑ آیا تھا مگر یہ وہ صفحہ تو نہیں تھا۔ کھڑکی کھلی تھی شاید ہوا کے جھونکے نے صفحات آگے پیچھے کردیئے تھے جو ایک لحاظ سے غیبی مدد تھی اور میری مشکل آسان ہوچکی تھی۔ سامنے سورہ التکاثر موجود تھی۔ متن پڑھا، مفہوم کچھ یوں ہے۔ ’’زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی ہوس نے تمہیں غافل رکھا، حتیٰ کہ تم قبروں میں جاپہنچے۔ ہاں، ہاں تم جلد جان جائو گے، تمہیں اپنے کرتوتوں کا انجام جلد معلوم ہوجائے گا۔ ہاں، ہاں اگر تم اس انجام پر یقین رکھتے تو ایسا ہرگز نہ کرتے۔ تم دوزخ دیکھ کر رہو گے۔ یقیناً تم جہنم کو اپنی آنکھوں سے دیکھو گے اور اس دن مال کی ہوس اور اس کے ہولناک انجام کے بارے میں قرآن کے الفاظ پڑھ کر اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور برملا پکار اٹھے کہ مال و زر کی محبت کے حوالے سے اس سے زیادہ موثر، مدلل اور فطری توجیہ ان کی نظر سے کبھی نہیں گزری اور اس درجہ فصیح و بلیغ کلام یقیناً ذات حق کا ہوسکتا ہے۔ یوں 1927ء میں انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور محمد اسد نام پایا۔ بعد میں پی ایچ ڈی کرلی تو ڈاکٹر اسد کہلائے اور پھر وہ عروج پایا کہ شاید وباید۔ قرآن حکیم کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کے علاوہ ایک اسلامی اسکالر، مفکر، مفسر، ماہر لسانیات، مترجم، ریفارمر اور سفارتکار کے طور پر ایک زمانہ ان کی صلاحیتوں کا معترف ہے۔ ان کی خودنوشت سوانح ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ بھی پائے کی چیز ہے اور ان کی زندگی اور فلاسفی کا بڑی حد تک احاطہ کئے ہوئے ہے۔
قبول اسلام کے بعد ڈاکٹر اسد دنیائے اسلام کے دورے پر نکلے، سعودی عرب میں قیام کا دورانیہ خاصا طویل تھا۔ شاہ ابن سعود ان کے علم و تدبر سے بے حد متاثر تھے اور طویل صحبتیں رہیں۔ ڈاکٹر اسد برصغیر آئے اور یہ دورہ علامہ اقبال کی دعوت پر تھا۔ اس دوران حضرت علامہ وفات پاگئے اور دوسری عالمی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی انگریز سرکار نے محمد اسد کو نظربند کردیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ ان کا آبائی وطن آسٹریا مخالف جنگی اتحاد میں شامل تھا۔ پاکستان بنا تو نئی مملکت میں موصوف کی خوب آئوبھگت ہوئی۔ پاکستان کے آئین کی تشکیل کے حوالے سے ان سے مشاورت ہوتی رہی۔ ایک موقع پر اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کے لئے خدمات انجام دیں، جس کے لئے انہیں پاکستان کی شہریت خصوصی طور پر عطا کی گئی تھی۔ زندگی کے آخری برسوں میں موصوف گروہی، جماعتی اور مسلکی بنیادوں پر مسلم امہ کی تقسیم پر سخت پریشان تھے اور کہا کرتے تھے بے شک اسلام ایک شاندار دین ہے مگر افسوس مسلمانوں کو اس کی قدر نہیں۔ مراکش میں قیام کے دوران ایک خطبہ میں کہا تھا کہ میں نےدین اسلام کو مکمل جانچ پرکھ کے بعد بہ رضا و رغبت قبول کیا ہے سو جو اس کی قدر مجھے ہے آپ لوگوں کو نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ اسلام آپ کو ورثے میں ملا ہے اور آپ اس کی حقانیت کے آشکار ہونے کے پراسیس سے نہیں گزرے، سو جیسا کہ ایسے حالات میں ہوتا ہے، مذہب کے ٹھیکیداروں کو ان کی باتیں ناگوار گزریں۔ مراکو میں موصوف کے خلاف جلوس نکلا اور ان کی کتاب نذر آتش کی گئی۔ دل برداشتہ ہو کر ڈاکٹر اسد اسپین جابسے اور وہیں 1992ء میں واصل حق ہوئے۔
قرآن حکیم سے براہ راست ہدایت پانے والے ڈاکٹر اسد اکثر کہا کرتے تھے کہ سورہ التکاثر نے ان کی زندگی ہی نہیں بدلی بلکہ پوری کائنات کو یکسر تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دوسروں کی حق تلفی کرکے اپنے خزانے بھرنے والوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے اس سے بڑھ کر کلام نہیں ہوسکتا، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ان بدنصیبوں کے دلوں پر قفل پڑےہوئے ہیں۔ سب کچھ ہونے کے باوجود ان کی نیت نہیں بھرتی اور چاہتے ہیں کہ اتنا سمیٹ لیں کہ نسلیں شاد رہیں۔ مگر جب موت کی شکل میں دنیا کی ناپائیداری سامنے آتی ہے تو پچھتاتے ہیں کہ ظلم کیوں کیا؟ دوسروں کا حق کیوں مارا؟ لالچ میں اندھے کیوں ہوگئے؟ مگر ازالے کا وقت گزرچکا ہوتا ہے اور وہ اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں۔مال و زر کے ڈھیر ان کے کسی کام نہیں آتے۔ عالمی تاریخ گواہ ہے کہ روئے زمین پر برپا ہونے والے اکثر و بیشتر خونی انقلاب اسی حبّ زر کا شاخسانہ تھے۔ جب معدودے چند ناعاقبت اندیش حرص جملہ وسائل پر قابض ہوگئے اور عام عوام کو نان شبینہ بھی میسر نہ رہیں۔ مستفیض اور محروم طبقات کے مابین تفادت جب انتہا کو پہنچتا ہے تو جبر کے بند ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کےحالات بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں۔ Haves اور Have nots کے مابین خلیج یہاں بھی پاتال کو چھوچکی کہ صرف اتنی ہے کہ خوش بختی سے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفرت ابھی قابو میں ہے جو کسی کا کمال نہیں، محض ہمارے لوگوں کی فطری نجابت، درگزر اور برداشت کی وجہ سے ہے۔ لحاظ اور شرم و حیا والی یہ مٹی انہیں روکے ہوئے ہے۔ مقتدر طبقوں کو اس ٹرانزٹ دور کا فائدہ اٹھانا چاہئے جو یقیناً لامحدود نہیں۔ گھنٹی بچ چکی اور اب محض بونس کا وقت ہے، کسی کا صبر نہیں آزمانا چاہئے اور محروم طبقوں کا جو بنتا ہے، مزید ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ان کی جھولی میں ڈال دیا جائے۔





.
تازہ ترین