• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فزکس میں آئیڈیل اسٹیٹ کی تعریف کے مطابق مستقل درجہ حرارت پر ہی دبائو اور حجم مستقل رکھے جاسکتے ہیں۔کم یا زیادہ درجہ حرارت عمومی مجموعی نتائج پر اثر انداز ہوتا ہے۔ وطن عزیز میں تسلسل سے بدلتے درجہ حرارت سے حکومتیں زبر دست دبائو کا شکار رہی ہیں۔ 126دن تک دھرنے کے شدید دبائو تلے رہنےاور اپوزیشن کی بے جا تنقید کے باوجودموجودہ حکومت گڈ گورننس اور ترقیاتی پروگراموں کی تکمیل کیلئے زبردست جدوجہد کررہی ہے لیکن نام نہاد سیاستدان مخالفت برائے مخالفت کے اصولوں پر عمل پیرا ہوکر پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں ۔ اس منفی طرز سیاست میں بعضنام نہاد تجزیہ کار بھی انکا ہاتھ بٹانے میںمشغول ہیں ۔اس کی سب سے بڑی اور تازہ ترین مثال گیارہ سال بعد انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کا دورہ لاہور تھا ۔جماعت اسلامی سمیت کئی سیاسی جماعتوں نے اس دورے کی شدید مخالفت کی۔ امیر جماعت الدعوۃ حافظ سعید نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی اچانک پاکستان آمد نے کروڑوں محب وطن پاکستانیوں کے دل دکھا دیئے ہیں ۔ ہم اپنے وزیر اعظم سے کہتے ہیں کہ ذاتی دوستی اپنی جگہ مگر ہم اس پاکستان دشمن شخص کا استقبال اس طرح سے نہیں کرسکتے۔انہوںنے کہا کہ شہید کشمیریوں کے لواحقین پوچھ رہے ہیں کہ کیا کشمیر کو ذاتی دوستی پر قربان کر دیا جائے گا ؟ اس شخص کا اس طرح استقبال کیوں کیا گیا ؟ یہاں پر سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ اور کینیڈا سمیت دنیا کےمتعدد ہمسائے پرامن رہ کر اپنے شہریوں کو زندہ رہنے کا موقع فراہم کرسکتے ہیں تو کیا ہندوستان اور پاکستان کے عوام کو یہ حق نہیں ملنا چاہئے؟ کسی فرد واحد، سیاسی یا مذہبی جماعت کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ عوام کو اس حق سے محروم کرنے کی کوشش کرے اور اس ضمن میں بیانات جاری کرے ؟یہ دورہ طے شدہ تھا یا غیر طےشدہ اس پر پاکستانی اور بھارتی تجزیہ نگاروں کا رد عمل اور بحث عجیب و غریب حد تک غیرمنطقی رہی۔ہر کوئی دور کی کوڑی لا کر اس کے ٹھوس اور درست ہونےپر اصرار کرتا رہا۔ جس پر وزیر خزانہ کو بھی وضاحت کرنا پڑی کہ یہ غیر طے شدہ دورہ تھا۔ پاکستان میںسبکدوش ہونے والےبھارتی سفیر نےبھی اس امر کی تصدیق کی۔ ماضی میں جنرل ضیا الحق کی کرکٹ ڈپلومیسی کی وجہ سے دونوں ممالک پر چھائے جنگ کے بادل بمشکل چھٹے تھے۔ اسی کی پیروی کرتے ہوئے مودی نےبرتھ ڈے ڈپلومیسی کا سہارا لیا جسے سشما سوراج نےمودی کا ماسٹرا سٹروک قرار دیتے ہوئے کہایہ ایک غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ اور بروقت فیصلہ تھا۔ مغربی اور عرب میڈیا نے بھی اسے سرپرائز وزٹ قرار دیا ۔ حیران کن امر تو یہ ہے کہ پیرس ملاقات کے بعد یہ دورہ برسوں کی بد اعتمادی کے بعد امن ڈائیلاگ کیلئے کوششوں کا کامیاب آغاز قرار دیا جاسکتا ہے۔آزادی کے بعددو نوں ممالک کئی جنگیں کشمیر پر لڑ چکے ہیں۔آئندہ ماہ دونوں ممالک کے سیکرٹری خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور اعزاز چوہدری اسلام آباد میں ملاقات کریں گے۔ پونے دو گھنٹے کی مودی نواز ملاقات پر مختلف حلقوں نے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں کہ اچانک بھارتی وزیر اعظم کا دورہ پاکستان کیوں ہوا ہے ؟ ملاقات کس ایجنڈے پر ہوئی ؟کیا باتیں ہوئیں ؟ کوئی ملکی معاملات تھے یا کوئی بزنس ڈیل تھی ؟ ان تمام سوالوں کا جواب یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی دفعہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت پاک بھارت اور افغانستان سے جڑے ہوئے پیچیدہ ترین معاملات کے حل کیلئے ایک پیج پرہے۔لہٰذا جلد یا بدیر امن اس خطے میں آنا ہی آنا ہے۔کیونکہ ان تینوں ممالک میں پائیدار امن لانے کیلئے امریکہ ، چین اورروس کے معاشی مفادات بھی ایک بہت بڑا فیکٹربن چکے ہیں۔باقی رہا مسئلہ کشمیر اس کو حل کئے بغیر پائیدار امن تو محض خواب ہوگا جس کے بارے میں سب طاقتیں بخوبی جانتی ہیں۔تما م پاکستانیوں اور سیاسی جماعتوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ موجودہ عسکری اور سیاسی قیادت اس امر پر متفق ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بیک ڈورڈپلومیسی سب سے بڑا اور کارگر ہتھیار ثابت ہوگی۔مسئلہ کشمیر کا حل ایک کھیر نہیں ہوگا کہ ایک نے پکائی اور دوسرے نے کھائی بلکہ دونوں ممالک کو کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیا ن یہ طے پا چکا ہے کہ پاک افغان سرحد ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور سرحد پار کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا ۔افغانستان ،پاکستان کے ڈی جی ایم اوزکے درمیان ہاٹ لائن بھی قائم ہوگی ۔افغان امن عمل کے دوبار ہ آغاز کے لئے چار فریقی فریم ورک پر اتفاق ہوا ہےجس کا پہلا دور اسی ماہ جنوری میں شروع ہوجائیگا ۔سال 2015اپنے اختتام کو جاپہنچا ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اپنے عزم غیر متزلزل پر قائم رہتے ہوئے وطن عزیز کو سات شاندار تحفے دئیے ہیں جو یقیناًپاکستان کے ماتھے کا جھومر اور گیم چینجر کہلائیں گے۔ سب سے پہلا وزیر اعظم نیشنل ہیلتھ پروگرام کا آغاز ہے جس میں12 اضلاع کے بتیس لاکھ غریب خاندانوں کو عارضہ قلب ، ذیابیطس، جگر، گردے، ہیپاٹائٹس بی سی،ایڈز،کینسر میں مبتلا مریضوں کی کیمو تھراپی اور ریڈیو تھراپی کروانے کی اجازت ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ حادثوں اور آگ سے متاثرہ افراد کو علاج کی مفت سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔قومی صحت پروگرام کا دائرہ کار 23اضلاع تک بڑھایا جائیگا۔اس پروگرام کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اگر مریم نواز کی ذاتی سوچ اور حقیقی لگن شامل نہ ہوتی تو یہ عوامی فلاحی پروگرام ہرگز شروع نہ ہو پاتا۔ اس پروگرام کے تحت مہلک بیماری میں مبتلا ہر مریض تین لاکھ روپے تک علاج پر خرچ کر سکے گا تاہم ضرورت پڑنے پر علاج معالجے کیلئے اضافی رقم بیت المال فراہم کرے گا۔دوسرا بڑا تحفہ46ارب ڈالر کا پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ہے جو پاکستان کی قسمت بدل کر رکھ دے گا۔ جوبدقسمتی سے اسلام آباد میں طویل دھرنے کی وجہ سے ایک سال تاخیر کا شکار ہوگیا۔اس دھرنے نے چینی صدر کو تاریخی معاہدے پر دستخط کرنے سے دور رکھا۔ اب بھی خیبر پختونخوا بوجوہ اسکی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے مخالفت کررہا ہے۔تیسرا بڑا تحفہ پنجاب حکومت کی طرف سے میٹرو بس سروس ہے جس کو لاہور اور راولپنڈی کے بعد دیگر شہروں میں بھی متعارف کروایا جارہا ہے۔اپوزیشن نے اس پر بہت تنقید کی لیکن عوام نے اسکو زبردست سراہا۔چوتھا تحفہ اورنج لائن ٹرین ہے جو یقیناً ٹرانسپورٹ سہولتوں کی فراہمی میں حکومت کا قابل قدر منصوبہ ہے۔جس پر ہر سیاسی جماعت پوائنٹ اسکورنگ کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہے جب یہ مکمل ہوجائیگا تو یہ بھی موٹر وے کی طرح دنیا بھر میں ہماری مثبت پہچان کو اجاگر کرے گا۔پانچواں بڑا تحفہ کراچی میںکا امن کا قیام ہے۔جو میگا سٹی کو دوبارہ روشنیوں کے شہر میں تبدیل کردے گا۔پیپلز پارٹی کی طرف سے شدید تنقید کے باوجود حکومت اور عسکری قیادت کا نیشنل ایکشن پلان پر کاربند رہنا اور اسے منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم خوش آئند ہے۔چھٹا بڑا تحفہ بلوچستان میں سیاسی استحکام کو یقینی بنایا جاچکا ہے جو یقیناً ترقی یافتہ پاکستان کے لئے مہمیز ثابت ہوگا۔ساتواں اور سب سے عظیم تحفہ سیاسی اور عسکری قیادت کا ایک پیج پر آجاناہے۔پوری دنیا کو یہ پیغام جاچکا ہے کہ پالیسیوں کے تسلسل کیلئے طاقت کے دونوں مراکز ایک دوسرے کو مناسب اسپیس د ے رہے ہیں جو پاکستان کے زریں مستقبل کی ضمانت ہے۔ اب پاکستانی سیاسی منظرنامہ کسی قسم کی جمہوریت مخالف سازشوں سے پاک ہوچکا ۔دونوںقیادتیں اس امر پر متفق ہوچکی ہیں کہ کوئی بھی تصادم تمام منصوبوں کے لئے زہر قاتل ثابت ہوگا۔ آئندہ سال لاہور سے کراچی موٹروے کا جلد افتتاح کر دیا جائیگا جو ایک بار پھر سفر کی طوالت میں کمی کے ساتھ ساتھ محفوظ سفر کو یقینی بنائے گی۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا کام ختم ہوگیا ہے ہرگز نہیں۔اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ تنقید کے گولے برسانے کی بجائے تعمیری تنقید کرے اور عوامی فلاحی خدمت پر مبنی پروگراموں پر توجہ دے۔
تازہ ترین