• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوںامریکی سی آئی اے کی منظر عام پر آنے والی خفیہ دستاویزات میں ضیاالحق کی امریکہ سے سازباز کی کہانی آپ نے پڑھ لی ہوگی۔ تیس سال بعدخفیہ دستاویزات کو عام کرنے کےامریکی و برطانوی قانون کا مقصد جہاں یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ کس طرح اُنہیں وطن فروش سستے دام میسر آئے وہاں اپنے عوام کو یہ ہاور کرانا بھی ہوتا ہے کہ تمہاری خاطر کس قدر مکروفریب،لالچ ودھمکی کو بروئے کار لایا گیا۔ چونکہ اب سچ سامنے آنےسے تیس سال قبل گزرے جھوٹ وفریب کا کچھ بگڑتا نہیں، اس لئے ایسی دستاویزات کو عام کردیا جاتا ہے۔ آیئے ہم قیام پاکستان سے ایوبی دور تک اپنے حکمرانوں کا اصل چہرہ دیکھتے ہیں، اس سلسلےایک کتاب The American Role in Pakistan آئینہ دکھاتی ہے جس میں عام ہونے والی دستاویزات محفوظ ہیں۔آپ جانتے ہیں دوسری جنگ عظیم کے بعد دور دور تک امریکہ کا مقابل نہیں تھا،لیکن1949میںروس کے پہلے ایٹمی دھماکے اوراسی سال چین میں کمیونزم آجانے سے اشتراکی نظام، سرمایہ دارانہ نظام کے مقابل آگیا۔ اس عوامی مساوات پر مبنی نظام کو قابو میں کرنے کیلئے امریکہ کے پاس کوئی نسخہ کیمیا نہیں تھا، لیکن کیا کیا جائے کہ ایسے میں اس کی لاٹری نکل آئی۔ غلام محمد کی کوششوں سے وزیراعظم لیاقت علی خان نے روس کا طے شدہ دورہ منسوخ کردیا اور حکومت پاکستان کی ازخود خواہش پر دسمبر 1949میں امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری Meghee پاکستان آئے اور امریکی دورے کیلئے لیاقت علی خان کو امریکی صدر ٹرومین کا خط پہنچایا۔ رسمی ملاقات کے بعد انہوں نے اصل ملاقات غلام محمد سے کی، مذکورہ کتاب ’’پاکستان میں امریکی کردار‘‘ کے صفحے106 پر درج ہے ’’پاکستانی وزیر خزانہ غلام محمد نے امریکہ کو اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ پہلا کام امریکی و پاکستانی انٹیلی جنس کے درمیان رابطہ قائم کرنا ہے، مزید یہ کہ امریکہ تمام امور کے سلسلے میں ان (غلام محمد) سے براہ راست رابطہ رکھے۔‘‘ امریکی نمائندے سے دیگر اہم کھلاڑی بھی ملے جس کے بعد امریکی سیکرٹری نے ڈائریکٹر آف سیکورٹی کو رپورٹ دی ’’جب روس سے جنگ کی حالت ہو گی تو پاکستان امریکہ کو فوجی اڈوں سمیت ہر قسم کی امداد دینے پر تیار ہو گا۔‘‘ (صفحہ88)۔ اب جب بن مانگے امریکہ کو پاکستانی حکمرانوں نے سب کچھ دینے پر آمادگی ظاہر کر دی تو امریکہ کھیل شروع کرنے میں دیر کیوں لگاتا۔ اسی مہینے پاک فوج کے محب وطن اور کمانڈر انچیف بننے کے اہل جنرل افتخار اور جنرل شیر خان طیارے کے حادثے میں شہید ہو گئے۔ دورِ غلامی میں انگریزی فوج کے لیفٹیننٹ کرنل ایوب خان جو صرف تین سال میں میجر جنرل بنا دیئے گئے، نے امریکہ کا دورہ کیا۔ 16اکتوبر کو لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ابھی ان کی قبر کی مٹی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ برطانوی پروردہ امریکی وفاداروں نے کلی طور پر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ خواجہ ناظم الدین وزیراعظم، غلام محمد گورنر جنرل، اسکندر مرزا وزیر دفاع اور ایوب خان کمانڈر انچیف بن گئے، سر ظفر اللہ خان تو پہلے سے وزیر خارجہ تھے۔ قائداعظم نے فرمایا تھا میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ اسکندر مرزا اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں ’’قائداعظم نے مجھ سے کہا پاکستان میں نے اور میرے اسٹینوگرافر (ٹائپ رائٹر) نے بنایا ہے۔‘‘ قیام پاکستان کے بعد کے واقعات ان اصحاب کے کھوٹے سکے ہونے کا ثبوت ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ لیاقت علی خان اور امریکہ میں کشمیر کے مسئلے پر اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے دو روز بعد سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ امریکہ پہنچ گئے تاکہ کشمیر پر امریکی موقف کو اپنانے کی یقین دہانی کرائی جائے، پھر فوری وزیر خارجہ سر ظفراللہ خود چلے گئے۔امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ایچی سن اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں ’’ظفر اللہ نے کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا، دراصل غلام محمد کی حکومت امریکہ کے مزید قریب آنا چاہتی ہے‘‘ 1952 میں امریکی انتخابات کے بعد فوسٹرڈیلس سیکرٹری اسٹیٹ بن گئے،انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا،واپسی پر ریڈیو پر اپنے عوام سے خطاب میںانہوں نے کہا ’’ میں پاکستانی حکمرانوں کے روحانی جذبے، انہوں نے الفاظ استعمال کئے۔ (Spiritual spirit) سے بہت متاثر ہوا ہوں، آپ کیلئے خوشخبری یہ ہے کہ پاکستان کمیونزم کے خلاف مضبوط مورچہ ثابت ہوگا‘‘۔ پاکستان میں امریکہ ہمیشہ ایسے حکمرانوں کا پشتی بان بنا جو اس کے اہداف پورے کرنے کا جوہر رکھتے تھے،وہ کسی شرمندگی کے بغیر اس کا اظہار یوںکرتے ہیں’’ہمارا ہدف امریکی دوست حکومت ہونا چاہئے‘‘فروری 1954میں نیشنل کونسل کے اس فیصلے کی تفصیلات مذکورہ کتاب کے صفحہ 326پر درج ہیں۔بعدازاں جب نوکر شاہی پر مشتمل حکومتیں نااہل ثابت ہوگئیں تو امریکہ اپنے اصل حلیف کو میدان میں لےآیا، 1958میں ایوبی مارشلا اس امر کا اعلان تھا۔ایو ب خان سے امریکہ کی قربتیں تو اس قدر عیاں تھیں کہ1961میں جب صدر ایوب امریکہ پہنچے توپورا امریکہ سڑکوں پر کھڑاتھا، لوگ سبز ہلالی پرچم ہاتھوں میں تھامے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے،لیکن صرف ایک سال بعد 1962میں چین اور بھار ت میں جب جنگ چھڑ گئی تو امریکہ نے چین دشمنی میں بھارت میں اسلحے کے انبا ر لگادئیے،لیکن ہم پھر بھی امریکہ سے ہم آغوش مدہوش تھے۔یہ ایوبی دور ہی تھا جب بڈھ بیر پشاور سے امریکی طیارہ اُڑااور جسے روس نے اپنی سرزمین پر مارکر پاکستان کے اطراف سرخ دائرہ کھینچ دیا تھا۔1971میں جب پاکستان فناوبقا کی کشمکش سے دوچار تھاتو امریکہ ہاتھ کرگیالیکن 1979میں جب روس اور امریکہ افغانستان میں مدمقابل آگئے توہم پھر سستے داموں (جسے ضیاالحق نے مونگ پھلی قرار دیا تھا) دستیاب تھے۔قصہ مختصر کہ یہ ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمٰن ہی تھے جنہوں نے اس جنگ کو جہاد بنا کر امریکہ کو دنیا کابلاشرکت غیرے چوہدری بنا دیا۔ضیاالحق کے ساتھ شہید ہونے والے بریگیڈئر صدیق سالک اپنی کتاب میں لکھتے ہیں’’امریکی حکام نے اسے (افغان جنگ) کو ایسا خدائی موقع قرار دیا جس کے ذریعے وہ کسی امریکی کی جان کو گنوائے بغیر روسیوں کو قتل اور ویت نام میں اپنی شکست کا بدلہ لے سکتے ہیں،جنرل اختر عبدالرحمٰن امریکہ سے متفق تھے‘‘(صفحہ63 )اب یہاں پر امریکی سیکرٹری کےاُس قول کو پھر ذہنوں میں تازہ کیجئے جس میں انہوں نےکہا تھا’’میں پاکستانیوں کے ’روحانی‘ جذبے سے بہت متاثرہوں،پاکستان کمیونزم کیخلاف مضبوط مورچہ ثابت ہوگا...!عرض یہ ہے کہ اس میں دو رائے نہیں کہ امریکہ خود غرض ہے،لیکن اِس کے پاس تو ہم خود گئے تھےاوراب بھی واپس نہیں لوٹے!جذبات اپنی جگہ اہم سہی، مگر یہ واضح رہے کہ جب تک ہمارے حکمرانوں کی ضرورت امریکی حمایت ہے،ان کی فوجی و اقتصادی امداد ہے، اور عام پاکستانی کی ضرورت امریکی تعلیم، علاج، ڈالر،جینز،جوگر، پاپ میوزک اور گرین کارڈ ہے،تو لاکھ ہم امریکہ مخالف مظاہرے کریں کچھ نہیں بدلے گا۔

.
تازہ ترین