• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار پر براجمان ہوتے ہی سات مسلمان ملکوں کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کرکے دنیا کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے حکم نامہ میں ان ممالک کے تارکین وطن پر پابندی عائد کرنے اور انہیں حراست میں لے کر ملک بدر کرنے کے بھی احکامات جاری کیے ہیں۔ نیویارک کی فیڈرل کورٹ نے اس صدارتی حکم نامے کو عارضی طور پر معطل کردیا تو ٹرمپ نے اس عدالتی فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ مستقبل میں پاکستان سمیت کئی اور مسلمان ملکوں کو بھی امریکی امیگریشن پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان کا بھی کہنا ہے کہ سات مسلمان ملکوں کی طرح پاکستان کے خلاف ایسی انتقامی کارروائی ہوسکتی ہے۔ مغربی میڈیا میں اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات پر سخت تنقید ہو رہی ہے۔ یہ کوئی اچانک نہیں ہوا بلکہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں واضح کہہ دیا تھا کہ وہ برسر اقتدار آکر مسلمانوں کے حوالے سے سخت گیر رویہ اپنائیں گے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا بھر میں امریکی صدر کے ان ناروا اقدامات کے خلاف شدید احتجاج کیا جارہا ہے مگر اس کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ ٹس سے مس نہیں ہو رہے اور اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ بمشکل اپنی صدارت کا پہلا دور مکمل کر پائیں گے کیونکہ امریکہ کی تاریخ میں کبھی صدر بننے کے بعد اس قدر شدید احتجاج نہیں ہوا جتنا ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ہو رہا ہے۔ مشتعل امریکی عوام سڑکوں پر امریکی صدرکی پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ سات مسلمان ملکوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی کے فیصلے کے خلاف اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اپنے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے ٹرمپ انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ رنگ ونسل اور مذہب سے بالاتر ہو کر تمام لوگوں کے ساتھ مساوی سلوک کریں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر مارگریٹ ہوانگ کا بھی کہنا ہے کہ نئی امریکی حکومت کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی پامالی کے زمرے میں آتا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل امریکی صدارتی فیصلے کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی۔ اقوام متحدہ کو اس اہم معاملے پر امریکہ کے ساتھ نرم گوشہ نہیں رکھنا چاہئے۔ مقام افسوس ہے کہ اب اقوام متحدہ عالمی برادری کا نمائندہ ادارہ نہیں بلکہ امریکہ اور یورپی ممالک کا کٹھ پتلی ادارہ بن چکا ہے۔ ماضی میں امریکہ نے جب چاہا اس عالمی ادارے کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ افغانستان اور عراق پر امریکی جارحیت کا پروانہ بھی سلامتی کونسل سے جاری کروایا گیا تھا۔ کشمیر اور فلسطین کے دیرینہ مسائل بھی اقوام عالم کے اس ادارے کے پلیٹ فارم پر موجود ہیں مگر آج تک یہ اہم مسائل حل نہیں ہو سکے۔ واقفان حال کا مزید کہنا ہے کہ نئے امریکی صدر کی غیر متوازن شخصیت اور جانبدارانہ پالیسیوں کی وجہ سے تیسری جنگ عظیم بھی چھڑنے کا امکان ہے۔ اگر دنیا کو ایک اور عالمی جنگ سے بچانا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ کو دانشمندانہ طرزعمل اپنانا ہو گا۔ امر واقع یہ ہے کہ امریکہ کی ترقی وخوشحالی تارکین وطن اور مہاجرین کی مرہون منت ہے جنہوں نے اپنے ملکوں کو خیرباد کہہ کر امریکہ کو اپنا وطن بنایا اور اُس کو عالمی سپر پاور بنانے کیلئے اپنی صلاحیتوں کو دن رات صرف کیا۔ اوباما حکومت نے بھی ماضی میں پاکستان کی قربانیوں کو قبول نہیں کیا تھا۔ اس وقت بھی ڈونلڈ ٹرمپ کا جھکائو واضح طور پر اسرائیل اور بھارت کی طرف ہے۔ فلسطینی عوام بھی نئے امریکی صدر کے اقدامات پر سراپا احتجاج ہیں۔ اب بھارت کو خوش کرنے کیلئے ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستانی حکومت پر بھی دبائو ڈالنا شروع کردیا ہے کہ کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں کو روکا جائے۔ حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں فوری اقدامات کیے ہیں مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اس سے راضی نہیں ہوگا اور وہ مسلسل ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرتا رہے گا۔ اوباما حکومت بھی ماضی میں اسی پالیسی پر گامزن رہی۔ کشمیر وفلسطین کے مسائل کو حل کرنے کیلئے امت مسلمہ کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کا اعلان کیا ہے جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے مطالبہ کیا ہے کہ 1967کی سرحدوں کو بحال کرکے مسئلہ فلسطین حل کیا جائے۔ ماضی گواہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ فلسطین کی آزادی کیلئے آواز اٹھائی ہے۔ اسلامی سربراہی کانفرنس اور عرب لیگ کے اداروں کو کشمیر اور فلسطین کے ایشوز پر اپنا کردار اداکرنا چاہئے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ 56اسلامی ملکوں میں اتحاد ویکجہتی کی وہ فضا نظر نہیں آتی جس کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔ افسوس کہ سات مسلمان ملکوں پر حالیہ امریکی پابندی پر بھی اسلامی دنیا خاموش تماشائی بنی رہی۔ صرف ایرانی وزیر خارجہ کا احتجاج سامنے آیا کہ امریکہ کے اس فیصلے سے دنیا میں انتہاپسندی بڑھے گی۔ انتہاپسندی کیا ہے؟ شدت پسندی سے انتہاپسندی جنم لیتی ہے۔ نئے امریکی صدر کے شدت پسندانہ اقدامات کی وجہ سے مغربی انتہاپسندی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ابھی چند روز قبل کینیڈا کے شہر کیوبک میں مسجد پر دہشت گردی کا حملہ اسی سوچ کا شاخسانہ ہے۔ ساری دنیا میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آچکی تھی مگر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد عالمی امن کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ چار امریکی ریاستوں نے نئے امریکی صدر کیخلاف قانونی چارہ جوئی کااعلان کردیا ہے۔ اسلامی ملکوں کو اپنے مسائل کے حل کیلئے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا پڑے گا۔ امریکہ سے اب کوئی خیر کی توقع نہیں ہے۔ جموں کشمیر کے معاملے پر نئی امریکی حکومت بھارت کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ پاکستان امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر بھی زیر عتاب ہے۔ امریکہ نے ایک بار پھر ہمیں دھوکہ دیا ہے۔ حالانکہ افغان جنگ میں اتحادی بننے پر پاکستان کو یقین دہانیاں کروائی گئی تھیں کہ افغان مسئلے سے نمٹنے کے بعد امریکہ جموں وکشمیر کے معاملے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کروانے کیلئے ہندوستان پر دبائو ڈالے گا مگر اب تو الٹی گنگا بہنے لگی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے بھی سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا تھا۔ مشرف کی پالیسیوں کا خمیازہ پوری قوم اب تک بھگت رہی ہے۔ پندرہ سال تک امریکی جنگ کا حصہ بننے کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچا ہے۔
اب کچھ تذکرہ ہو جائے احوال لاہور کا۔ گزشتہ ہفتے الحمرا ادبی بیٹھک میں اقبال راحت مرحوم کی کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کا موقع ملا۔ اس تقریب کی صدارت کے فرائض مجھے ادا کرنے کا موقع ملا۔ اقبال راحت مرحوم کے بھائی حاجی محمد لطیف کھوکھر اس تقریب کے روح رواں تھے۔ علامہ عبدالستار عاصم، ناصر بشیر اور دیگر اہم مقررین نے بھی اس پروگرام سے خطاب کیا۔ میں نے اپنے صدارتی خطاب میں اقبال راحت مرحوم کی ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ ملک میں امن کے قیام کیلئے کتاب دوست کلچر کو فروغ دینا چاہئے اور قومی زبان اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینا چاہئے اور صوبوں میں مادری زبانوں کو فروغ دیا جائے۔ سندھ میں سندھی زبان لازمی پڑھائی جاتی ہے۔ اسی طرح پنجاب میں بھی مادری زبان کو اہمیت دینی چاہئے کیونکہ مادری زبان کو صوبوں کی سطح پر اہمیت دینے سے شرح خواندگی میں اضافہ ہوگا۔ البتہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق قومی زبان اردو کو دفتری زبان کے طور پر رائج کرنا چاہئے۔




.
تازہ ترین