• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پوری دنیا حیرت اور تذبذب کے عالم میں یہ دیکھ رہی ہے کہ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے ابتدائی دنوں ہی میں کیا گل کھلائے ہیں۔ خود امریکی سیاست اور معاشرے میں ایک ہیجان بپا ہے۔ ویسے تو دنیا کو اور روشن خیال جمہوری قوتوں کو جھٹکا تو اسی وقت لگا تھا جب ٹرمپ نے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی گو عوامی سطح پر ہلیری کلنٹن کے ووٹوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ایک ماتمی سی فضا میں یہ سوال ذہنوں میں گونجنے لگا کہ آخر یہ سب کیسے ہوگیا۔ اور یہ بھی کہ ہم سب یعنی ان لوگوں نے جو دائیں بازو کی انتہاپسندی کے چنگل سے آزاد ہیں اس کی پیش بینی کیوں نہ کی۔ کئی ایسے مبصر تھے جنہیں ہٹلر یاد آگیا کہ کیسے خوف اور سلامتی کے بارے میں خدشات کے ماحول میں ایک آمرانہ قیادت جمہوریت کی آڑ میں جنم لے سکتی ہے۔ یہ بھی یاد آیا کہ ہٹلر نے کس طرح باری باری اپنے مخالف گروہوں کا صفایا کیا۔ امریکی عوام کے لئے یہ تاریخ کا سبق ہے کہ مطلق العنانی کے خلاف تحریک اتحاد کا مطالبہ کرتی ہے اور ہم نے دیکھا کہ کئی مسلمان ملکوں کے شہریوں کے لئے امریکہ میں داخلے پر پابندی کے خلاف کتنا بھرپور احتجاج ہورہا ہے۔ امریکہ کی ایک سابق خاتون وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ اگر مسلمانوں کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا گیا تو وہ خود کو مسلمان کہہ کر اپنا نام لکھوائیں گی۔ گویا ٹرمپ کے سیاہ بادلوں کے پیچھے روشنی موجود ہے۔ اور جس روشنی کا خاص طور پر میں آج ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ امریکی معاشرے میں ایک خاص فکری سطح پر سوچنے اور سمجھنے کا جذبہ ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ میں اب ان کتابوں کی فروخت میں اضافہ ہورہا ہے جن میں ان حالات کا عکس اور ان کا تجزیہ شامل ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ میں پڑھے لکھے اور باذوق افراد کتابیں پڑھتے ہیں اور یہ بھی کہ وہاں ہر موضوع پر، ہر انداز میں کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ میرے اس دکھ سے آپ کو واقف ہونا چاہئے کہ پاکستان میں مطالعے کی عادت کچھ ایسی ہے کہ جسے لوگ چھپ چھپ کر کرتے ہیں اور یہ رونا میں مسلسل روتا رہا ہوں۔ اخبارات کی اشاعت بھی ہمارے ملک میں شرمناک حد تک کم ہے اور اس ضمن میں ہم اپنے جیسے دوسرے ملکوں سے بھی بہت پیچھے ہیں۔ میری نظر میں یہ ہماری ذہنی اور تہذیبی پسماندگی کا ایک اہم پیمانہ ہے۔
بہرحال، میں ان کتابوں کا ذکر کررہا ہوں جنہیں پڑھ کر امریکی ٹرمپ کی آمد اور اس کے اقدامات کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں نے امریکی اخباروں اور رسالوں کے ایسے کئی مضامین پڑھے ہیں جن میں ان کتابوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ اسی دن شروع ہوگیا جب 8نومبر 2016ء کو ٹرمپ کی انتخابی فتح کا انتہائی غیرمتوقع اعلان ہوا۔ ایک اخبار نے کہا کہ یہ چھ کتابیں پڑھنا ضروری ہے۔ کسی دوسرے مضمون میں 12کتابوں کا حوالہ دیا گیا۔ ان تمام فہرستوں میں جارج آرویل کی 1984موجود رہی۔ یہ ناول آرویل نے 1948میں یعنی تقریباً 70سال پہلے لکھا تھا اور اس میں مستقبل کے ایک ایسے زمانے کا ذکر تھا کہ جس میں ایک مطلق العنان نظام شہریوں کی سوچ اور عمل پر حاوی ہوجاتا ہے۔ ایک فرضی ریاست کی ایسی تصویر بنائی گئی ہے کہ کیسے حکمراں جھوٹ کو سچ بنانے کی قوت حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ ناول جدید ادب کا ایک شاہکار مانا جاتا ہے۔ اس کے کردار اور جملے ایک تمثیل بن گئے ہیں جن کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’بگ برادر‘‘ کا تصور بھی آرویل کی اختراع ہے۔ یعنی، خبردار ’’بگ برادر‘‘ آپ کو دیکھ رہا ہے۔ شاید یہ جو ’’بھائی‘‘ کا استعمال ہماری سیاست میں ہوتا رہا ہے وہ بھی کچھ اسی قسم کا ہے۔ گویا جو کہا گیا ہے وہ کرو اور جس طرح ہم کہتے ہیں وہ سوچو ورنہ…
1984اور دوسری کئی برمحل کتابوں کا ذکر ممکن ہے لیکن میرے لئے ان کی تشریح مشکل ہوجائے گی۔ کئی ناول ہیں۔ کئی کتابیں تاریخ اور خاص طور پر امریکہ کی تاریخ کے بارے میں ہیں۔ ایک ایسی خود نوشت کو کافی اہمیت دی جارہی ہے جس میں مصنف نے وسطی امریکہ کے ان چھوٹے شہروں میں اپنی پرورش اور نوجوانی کا حال بیان کیا ہے جن میں اب ٹرمپ کی بے پناہ حمایت پائی جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ اگر کوئی پورے منظر کو غور سے دیکھتا اور ساحلی ریاستوں کے بڑے شہروں سے دور رہنے والے سفید فام افراد میں پائی جانے والی بے چینی کا مشاہدہ کرتا تو ٹرمپ کے طوفان باد و باراں کی علامتیں اسے دکھائی دے جاتیں۔ جہاں تک 1984کا تعلق ہے تو اسی ہفتے نیویارک ٹائمز نے اپنے ایک طویل مضمون میں یہ خبر دی ہے کہ آرویل کا ناول سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل ہوگیا ہے اور ’’ایمیزون‘‘ کی ویب سائٹ پر تو یہ سرفہرست ہے۔ ناول کے نام کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ آرویل نے آنے والے زمانے کے تعین کے لئے 48کے ہندسوں کو الٹ دیا۔ اب 2017میں ٹرمپ کے انداز حکمرانی میں 1948کی جو جھلکیاں نظر آتی ہیں وہ قابل غور ہیں۔ ناول کی حکومت سچائی کو اپنی طرح سے پیش کرتی ہے اور پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کے ذہنوں پر حکومت کرنا چاہتی ہے۔ ان کے بہلاوے کے لئے سستی تفریح کا بندوست کرتی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت پیش کی گئی ہے جو ہمیں اپنے میڈیا میں نظر آتی ہے۔ امریکی تبصرہ نگار موجودہ حالات کا 1984سے موازنہ کرکے یہ بتارہے ہیں کہ ٹرمپ بھی سچائی کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے۔ کتنی اچھی مثال ہے کہ وہ یہ کہتا ہے کہ جب اس نے صدارت کا حلف لیا تو تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع وہاں موجود تھا جبکہ ثبوت موجود ہیں کہ ایسا نہیں تھا۔ ٹرمپ کی حکومت کی ایک اہم عہدیدار نے تو ’’متبادل حقائق‘‘ کی ترکیب بھی استعمال کی۔ آرویل کے ناول میں سچائی کی بھی ایک وزارت ہے۔ (ہماری وزارت اطلاعات سے ملتی جلتی) جو وہ کہے وہ سچ ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ایک جگہ کہتا ہے کہ اگر سب لوگ اس جھوٹ کو تسلیم کرلیں جو ’’پارٹی‘‘ آپ پر تھوپ رہی ہے اور اگر تحریروں میں بھی اس کا بیان ہو تو وہ جھوٹ تاریخ کی سچائی بن جائے گا۔ ٹرمپ جس طرح جھوٹ کو سچ کہہ رہا ہے اس کی مثالیں ترقی پذیر ملکوں میں تو بے شمار ہیں۔ امریکہ میں بھی صدر نکسن کی حکومت میں اس کی نشانیاں موجود تھیں لیکن اب امریکہ اور کسی حد تک دنیا کے کئی دوسرے ملکوں میں دائیں بازو کی انتہاپسندی اور تنگ نظر قوم پرستی ایک جابرانہ قوت بن کر ابھر رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کے عوام اپنی جمہوری روایات کا کس حد تک تحفظ کرسکتے ہیں۔ آرویل کا ناول پڑھ کر اس جدوجہد کی معنویت کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔



.
تازہ ترین