• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم اور ان کے بھائی جو تقریباً ہر روز ایک نئی سڑک کا افتتاح کرتے نظر آتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں کہ یہ ہے ترقی۔ اس بارے میں دنیا کیا کہتی ہے آیئے ہم ہفت روزہ اکنامسٹ کی ایک رپورٹ دیکھتے ہیں۔
’’پاکستان کی پہلی موٹروے کی تکمیل کو بیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن ابھی بھی اسے دیکھ کر ایک ویرانے کا احساس ہوتا ہے ۔تقریباً375 کلومیٹر طویل اسلام آباد تا لاہور تک پھیلی ہوئی اس موٹروے پر ٹریفک کم ہی نظر آتی ہے۔ موٹر سوار میلوں گاڑیاں دوڑاتے پھرتے ہیں لیکن وہ دوسری گاڑیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ لیکن بہرحال یہ ایک محفوظ سفر ہے کیونکہ شاید ٹریفک پولیس نے اسپیڈ جانچنے کا بندوبست کیا ہوتا ہے جبکہ یہ دونوں شہر پہلے ہی گرینڈ ٹرنک روڈ کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں جو کہ موٹروے کے مقابلے میں 90کلومیٹر کم اور ٹول فری ہے۔ اسی لئے موٹروے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ یہ موٹر وے ایک سفید ہاتھی ہے، جس پر1.2 بلین کا خرچہ آیا۔ آج بھی نوازشریف کا قابل فخر کارنامہ گردانا جاتا ہے۔ جن کے دور میں1997 میں موٹروے کا افتتاح کیا گیا اور جو آج بھی حکمران ہیں۔ نوازشریف، اپنا موازنہ سولہویں صدی کے حکمران شیر شاہ سوری سے کرتے ہیں جس نے گرینڈ ٹرنک روڈ کی بنیاد رکھی۔ نوازشریف نے2013 میں دوبارہ اقتدار حاصل کیا اور اسی مہم کے ساتھ آئے کہ اب بھی وہ مزید روڈ اور انفراسٹرکچر تعمیر کریں گے۔ انہوں نے ایسی بلٹ ٹرین چلانے کا وعدہ بھی کیا جو کراچی کے مسافروں کو فجر کے وقت پشاور کے لئے روانہ کریں اور شام کو شمال کی طرف ایک ہزار کلومیٹر کا سفر کرکے وہ پشاور پہنچ کر نماز ادا کر سکیں۔ مسلم لیگ نواز سمجھتی ہے کہ انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری کرنے سے معیشت کو اٹھان ملتی ہے۔ نواز حکومت اس وقت تیزی سے اپنے شروع کئے گئے طویل منصوبوں کو اگلے الیکشن سے قبل مکمل کرنا چاہتی ہے۔ جن میں2018کے وسط میں مکمل ہونے والا اسلام آباد ایئر پورٹ اور لاہور کی اورنج لائن، میٹرو بھی شامل ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ نیا ایئرپورٹ جو بے شمار مسائل سے دوچار ہے جیسا کہ اس میں بنائے گئے رن وے جو آپس میں بہت ہی قریب بنائے گئے ہیں ان کا استعمال بھی ملک کے دوسرے ایئرپورٹ کی طرح، جو بہت کھلے اور جدید ہیں کی طرح ناکافی ہی ہوگا۔ پاکستان کا انفراسٹرکچر کا استعمال ناکافی ہے کیونکہ ابھی تک معیشت کو وہ اٹھان ہی نہیں ملی جس مقصد کے لئے یہ انفراسٹرکچر بنایا گیا ہے۔ حکومت نے آخری تین برسوں میں کامیابی کے ساتھ ادائیگیوں کے توازن سے متعلق بحران کو ٹالا ہے۔ یوں اس سے میکرو اکانومی استحکام کو پانے میں مدد ملی ہے۔ اس سے بجٹ خسارہ کم ہوا ہے۔ کیونکہ ٹیکس جمع بندی میں بھی جزوی اضافہ ہوا اور انرجی سبسڈیز میں بھی کٹوتی کی گئی اور کم ہوتی تیل کی قیمتوں کے سبب بھی پاکستان کا تجارتی خسارہ کم ہوا اور اسی سے فارن ایکسچینج ریزرو کو ازسر نو تعمیر کرنے میں بھی مدد ملی۔2015 کے اختتام تک اسٹاک مارکیٹ میں بھی پچاس فیصد بڑھوتری دیکھنے میں آئی۔ لیکن دہشت گردی اور شورش نے فارن اور گھریلو سرمایہ کاروں کا راستہ روکا ہے اور ملک اپنی غیرمستعد اور اکثر کارٹلائزڈ صنعتوں کے معاملے میں بھارت اور بنگلہ دیش سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ ہماری ایکسپورٹس کا 60 فیصد ٹیکسٹائل پر مشتمل ہے لیکن یہ سیکٹر گزشہ کچھ سالوں سے خاصا سکڑ چکا ہے۔ ابھی بھی ایک تعلیم یافتہ ورک فورس بنانے کے لئے بہت کچھ کرنے ضرورت ہے۔ تقریباً5 ملین بچے جن کی عمریں پانچ سے سولہ سال تک ہیں، اسکول جانے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح صحت کے شعبے کو بھی تعلیم کی طرح فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومتیں اس سیکٹر کو فنڈز فراہم کرنے میں شرم کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔ ملک کے محض0.6فیصد افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ عالمی بینک کے مطابق پاکستان کی طویل المیعاد ترقی کا دارومدار بہتر خوراک ، صحت اور تعلیم پر ہے۔ لیکن نوازشریف حکومت ابھی بھی ملک کے معاشی مسائل کے حل کے لئے انفراسٹرکچر پر تکیہ کئے ہوئے ہے۔ جس کی ایک واضح شکل پاک چین معاشی کاریڈور کی بدولت ملنے والی46 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری بھی ہے۔ اس میں بہت کچھ کمرشل شرائط کی بنا پر فنانس کیا گیا ہے جن میں کئی پاور پلانٹس بھی شامل ہیں۔ پاکستان کو اس وقت بجلی کے بحران سے نجات پانے کی اشد ضرورت ہے جو ایک دائمی مرض کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ لیکن ماہرین یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ ملک کو قرضے ادا کرنے میں خاصی جدوجہد کرنا پڑے گی۔ خصوصاً اس وقت اگر فارن ایکسچینج جو کہ ایکسپورٹ سے متعلق ہیں مسلسل گراوٹ کا شکار رہتی ہیں۔ حکومت کو ایسے سست صارفین کا پیچھا کرتے رہنا ہوگا تاکہ ان کے بل ادا ہوسکیں اور مہنگی سبسڈیز پر روک لگانا ہوگی۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو کہ قطعی طور پر غیرمقبول سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان کی پاور سپلائی کو بڑھاوا دینے کیلئے سی پیک منصوبہ ایک ایسے راستے کے طور پر دیکھا جارہا ہے جو کہ چین سے گوادر تک ایک گزرگاہ کا کام دے گا تاکہ ایک منافع بخش تجارتی راستہ بنایا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے نئی شاہراہیں بنائی جائیں گی۔ اس مقصد کے لئے قراقرام ہائی وے جو کہ ساٹھ کی دہائی میں بنائی گئی اس کو اس سی پیک منصوبے کے تحت اپ گریڈ کیا جارہا ہے لیکن یہاں پر ہمیشہ کام چلتا رہتا ہے اور اس کا استعمال بھی خاصا محدود ہوتا ہے۔ یہ شکوک موجود ہیں کہ زنجیانگ جو کہ مغربی چین کا غریب ترین علاقہ ہے آج بھی بہتر ٹرانسپورٹ کے لئے بہت غریب ہے کیا یہ پاکستان کی معیشت میں کوئی فرق پیدا کر سکے گا؟ اسی طرح بلوچستان میں سے گزرنے والی شاہراہ کو جو مال سے لدی ہوگی علیحدگی پسند باغیوں سے بچانا بھی ایک چیلنج ہوگا۔ لیجیان ژاہو جو کہ ایک چینی سفارتکار ہے اس بات سے آگاہ ہیں کہ یہ پاکستان کے لئے بہت ضروری ہے کہ آگے بڑھنے کیلئے اپنے انفراسٹرکچر کو ترقی دے۔ ساتھ ہی وہ برطانیہ کی ان کاوشوں کو سراہتا ہے جس سے پاکستان کے سوفٹ ویئر میں بہتری آتی، جن میں ایجوکیشن اور قانون کی حاکمیت شامل ہے۔ لیکن لیجیان ژاہو کے مطابق چین کی اصل مہارت ہارڈویئر میں ہے۔ نوازشریف کو اس بات کا کوئی خدشہ نہیں ہے کہ شاہراہوں کی اگلی نسل اسی طرح ویران ہے جیسے کہ اس سے پہلے تھی۔ سویلین حکومتوں نے اکثر کوشش کی ہے کہ وہ فوجی حکومتوں کے مقابلے میں بہتر کام کر سکیں۔ لیکن ووٹرز ہمیشہ نئے چمکتے ہوئے منصوبوں سے ہی متاثر ہوتے ہیں، چاہے وہ ان کو استعمال کریں یا نہ کریں۔ یہ وہ اپروچ ہے جس نے نوازشریف کے بھائی شہبازشریف کے لئے ہمیشہ کام کیا۔ انہوں نے ہمیشہ ہی لاہور میں سگنل فری راہداری اور انڈرپاسسز بنانے میں وسیع پیمانے پر وسائل استعمال کئے ہیں۔ جس سے ایلیٹ کلاس کو ہمیشہ سے ہی فائدہ پہنچا ہے جو کہ کاروں کو افورڈ کر سکتے ہیں۔ یہاں پر کچھ حدود و قیود ہیں تاہم خواجہ سعد رفیق جو کہ ریلوے کے وزیر ہیں انہوں نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر حال ہی میں تسلیم کیا ہے کہ ملک کو بلٹ ٹرین بالکل بھی نہیں ملے گی۔ اس بارے جب ہم نے چینیوں سے استفسار کیا تو بقول سعد رفیق وہ ہنسنے لگے۔‘‘



.
تازہ ترین