• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان صاحب کے کہنے پر کچھ کہنے سے قبل ایک ضروری تصیح نوٹ فرمالیں۔ عام طورپر کسی کالم میں اغلاط کا تذکرہ حرفِ آخر کے طورپر کیا جاتا ہے لیکن ہم نے پچھلے اتوار کے کالم ’’آئیے ولی خان سے ملتے ہیں‘‘ کا اختتام جس شعر پر کیا تھا وہ استاد غالب کا نہیں استاد میر تقی میر کا ہے۔ چونکہ اُساتدانِ بے بدل کی بات ہے ،ظاہر ہے ہم جیسے لوگوں کا کالم ان کے سامنے کیا بیچتا ہے، لہذا ابتدا ہی میں درستی کا قصد ضروری جانا۔ یہ نشاندہی راشد سلیم صاحب نے ازراہ کرم کی ہے، اور لکھا ہے کہ اصل شعر اس طرح سے ہے۔
وے لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھودئیے
پیدا کئے تھے چرخ نے جو خاک چھان کر
تصیح کےاب اگے چلتے ہیںحضرت غالب کا کہنا ہے
صدسالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی
اب ہماری جودنیا ہے چونکہ وہ اپنی نہیں ، مستعار ہے، اس لئے اس کے بدلنے پر ہماری کوئی قدرت نہیں ہوتی، حالانکہ مصور پاکستان کا کہنا تو ازبس یہی ہے ۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
کاش! ہم حضرت کے اس فرمان پر عمل کرلیتے تو آج امریکا میں ٹرمپ صاحب آتے  یا کوئی صاحبہ! ہماری دنیا پر اس کا اس قدر اثر نہیں پڑتا کہ ہم بے اثر ہو کر رہ جاتے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارے حکمرانوں نےقیام پاکستان کے بعد امریکہ کی خاطر روس کا طے شدہ دورہ منسوخ کردیا اور اپنے شخصی اقتدار کے لئے قوم کو گروی رکھنے کا ایسا سلسلہ شروع کیا جو آج تک دراز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں حکومتیں بدلنے سے لے کر ان کے مزاج بدلنے تک ہم ان پر ایسی نظریں گاڑیں ہوتےہیں کہ جیسے یہ سب کچھ پاکستان میں ہورہا ہوتاہے۔ یہ حال ہی کا واقعہ ہے کہ ہم ہیلری صاحبہ کی پشت پر یا پہلو میں ایسے کھڑے تھے جیسے وہ ہماری امیدوار ہوں، حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ امریکی حکومتیں وہی کرتی ہیںجس میں ان کا قومی مفاد ہو۔یہاں تک کہ ایک مسلمان امریکی صدر بھی ہمارے کچھ کام نہ آسکے۔ ہم ٹرمپ مخالف تھےلہذا ان کی آمد پر مظاہروں سے ہم نے یہاں تک توقعات وابستہ کر لیں کہ شاید تھرڈ ایمپائر کی انگلی اٹھ جائے!
کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم امریکہ سمیت دنیا بھر میں اپنی خواہشات پر مبنی تبدیلیوں کے کیوں خواہاں ہوتے ہیں؟میرا اپنا کمزور سا مشاہدہ تو یہ ہے کہ چونکہ ہمارے اختیار مند ہمیں ہماری خواہش کے مطابق نظامِ مملکت دینے میں اپنا گھاٹا سمجھتے ہیں، اسی لئے ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے،چونکہ ہماری توجہ ’ بتی‘ یعنی دیگر ممالک میں رونما ہونے والے واقعات پر مرکوز ہوتی ہے اس لئے اپنے حکمرانوں کی طرف ہماری نظر جاتی ہی نہیں ہے۔ یا پھر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے دیس میں سارا فساد انہی پردیسی حکمرانوں کی وجہ سے ہی بپا ہے۔ حالانکہ سیدھی سادی بات ہے کہ جتنا زور ہم دیگر ممالک میں تبدیلیوں کے لئے لگاتے ہیں اگر اس قدر توانائی ہم اپنے ہاں صرف کرتے تو شاید تبدیلی (عمران خان والی نہیں) آچکی ہوتی! اس سلسلے میں زرد صحافت ہمیشہ حکمرانوں کے شانہ بشانہ رہی۔ یہاں تک کہ اسی امریکہ، جس سے ہم آج بیزار ہیں، کو واحد عالمی طاقت بنانے کے لئے جب ہمارے حکمرانوں نے روس، امریکہ جنگ کو ’جہاد‘ بنا ڈالا تو یہ ہماری صحافت ہی تھی جس نے اسے جہاد ثابت کرانے کے لئے اپنا مکمل حصہ ڈالا۔ اب جب امریکہ ایسے ہی حکمرانوں اور ان کے طفیلی دانشوروں و صحافیوں کی مدد سے اژدھا بن گیااوروہ پوری مسلم امہ کی جان کے درپے ہے تو ان عناصر کو امریکہ کی خامیاں نظرآنے لگیں ،بلکہ یہاں تک ابن الوقت بن گئے کہ وہ آج روس سے دوستی کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔جہاں راقم کی یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ ہمارے حکمران، سیاستدان اور میڈیا ہی ہیںجنہوں نے ملکی مسائل سے عافل کراکر ہم عوام کو بیرون ملک کے مسائل میں دلچسپی کی لذت سے سیر رکھا ہے وہاں ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ حکمران جماعت سمیت ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے پاس ’قابل عمل‘ خارجہ پالیسی ہے ہی نہیں...، چلئے ایک مثال سب سے حساس و اہم’ مسئلہ کشمیر ‘کی لیتے ہیں۔ کوئی قومی جماعت بتائے کہ اس کی کشمیر پالیسی ہے کیا ؟یہی کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے بالکل درست! لیکن اس شہ رگ پر سے بھارتی ہاتھ ہٹانے کے لئے آپ کی پالیسی کیا ہے، جنگ یا مذاکرات! اگر ان میں سے کوئی ہے تو اس پر آج تک عمل کیوں نہیں ہوسکا۔ یہ ثانوی بات ہے کہ موجودہ حکومت کا کوئی وزیر خارجہ نہیں ہے، بنیادی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی ہی نہیں ہے۔ اب چونکہ سابقہ یا موجودہ حکمرانوں کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے، تو عوام نے یہ قلمدان خود سنبھال رکھاہے۔ ہر ملک کا یہ اصول ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی اس کی داخلہ پالیسی کے مطابق استوار ہوتی ہے۔ ہمارا طرز عمل یہ رہا ہے کہ چونکہ ہماری اپنی خارجہ پالیسی نہیں ہے اس لئے امریکی خارجہ پالیسی کے عین مطابق پاکستان کی داخلہ پالیسی کو مرتب کیا گیا اور اسے اپنی خارجہ پالیسی بناکر پیش کیا گیا۔ آپ یاد کریں قیام پاکستان سے لے کر سوویت یونین کے انہدام تک ہم نے ہر امریکی (خارجہ) پالیسی کو اپنی داخلہ پالیسی بنایا۔ یہاں تک کہ افغان جنگ میں روس کے خلاف ہمارے سادہ عوام کو ایسے شامل کیا گیا جیسے کہ یہ درحقیقت جہاد ہو۔ فیض صاحب نے کیا خوب کہا ہے۔
ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا
عرض یہ ہے کہ آج عمران خان نےاگر یہ کہہ دیا ہے کہ ’’دعا ہے، کہ ٹرمپ پاکستانیوں کو روک دے‘‘ تو اس پر برہمی کیوں! کیا ہم امریکہ سے نفرت نہیں کرتے؟ اگر کرتے ہیں تو پھر ایسے ملک میں جانے کے لئے تڑپتے کیوں ہیں! ہم پاکستانی بھی عجیب ہیں، کہتے ہیں کہ سات مسلمان ممالک پر پابندی لگادی ہے۔ بھئی جن سے نفرت کی جاتی ہے ان کے گھر جانے پر کیا اسی طرح اصرار کیا جاتا ہے جس طرح ہم کررہے ہیں! عمران خان یہی کہنا چاہتے ہیں کہ ان پابندیوں کو ہمیں اپنی خودی و خودمختاری کےکام لانا چاہئے۔ہمیں تو یہ دعابھی مانگنی چاہئےکہ خدا وندکریم وہ دن لائےکہ جیسا ہم جلسوں میں کہتے ہیںاُسی طرز واسلوب پرپابندی لگانےوالے ملک کے سامنے بھی کہہ ہی جائیں۔
اے طائر ِ لاہوتی اُس رزق سے مو ت اچھی
جس رزق سےآتی ہو پرواز میں کوتاہی



.
تازہ ترین