• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پانچ فروری ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ ہے۔ ہر سال پاکستانی یہ دن اپنے مظلوم مسلمان کشمیریوں کے ساتھ اظہارِیکجہتی کے طور پر مناتا ہے۔ اس دن کے منانے سے کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر اُجاگر ہوا اور کشمیری بھی ہمیں اپنا اخلاقی اور سفارتی پشتیبان سمجھنے لگے۔ یہ دن باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔ اس دن اس عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ دن ضرور آئے گا جب کشمیری آزادانہ طور پر اپنے سنہرے مستقبل کا فیصلہ کریں گے، کیونکہ ظلم کی رات جتنی بھی طویل ہو، سویرا ہوکر ہی رہتا ہے۔ قارئین! پس منظر اور پیش منظر کے طور پر یاد رہے مسئلہ کشمیر 1948ء سے چلا آرہا ہے۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے کشمیر ایشیا کا دل کہلاتا تھا۔ کشمیر خودمختار ریاست تھی۔ 1947ء کے بعد اس کی بندر بانٹ کردی گئی۔ کشمیر کا رقبہ 84 ہزار 4 سو 71 مربع میل ہے۔ اس کی کل آبادی تقریباً ایک کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ ہے۔ آج چار حصوں میں تقسیم ہے۔ سب سے بڑے حصے پر بھارت نے قبضہ کیا ہوا ہے جو تقریباً 41 ہزار 8 سو 97 مربع میل ہے۔ دوسرا حصہ پاکستان کے ساتھ ہے، جو تقریباً 32 ہزار 90 مربع میل ہے۔ یہ حصہ مزید دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان جو 27 ہزار 9 سو 46 مربع میل پر محیط ہے۔ دوسرا آزاد کشمیر ہے جو چار ہزار ایک سو 44 مربع میل پر واقع ہے۔ کشمیر کا چوتھا حصہ چین میں ہے جو 9 ہزار 8 سو 84 مربع میل پر محیط ہے۔ اگر کشمیر کو دیکھا جائے تو یہ دنیا کے 15 آزاد ممالک سے بڑا ہے۔ ریاست جموں کشمیر آبادی کے اعتبار سے دنیا کے 133 ممالک سے بڑی ہے۔ وسائل کے اعتبار سے کشمیر کا شمار دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ اگر ان کے پاس کچھ نہیں ہے تو وہ آزادی ہے جس کے لئے وہ ہر پلیٹ فارم پر مسلسل جدوجہد کررہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر سات عشروں سے اقوام متحدہ میں قرارداد کی موجودگی کے باوجود زیر التوا ہے۔ جواہر لال نہرو کشمیر کے حل کے لئے خود اقوام متحدہ گئے۔ جنرل اسمبلی نے قرارداد کے ذریعے کشمیری عوام کا حق خودارادیت تسلیم کیا اور بھارت سے کہا کہ وہ استصواب کا انتظام کرے لیکن اس کے بعد سے بھارت نے کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنا شروع کردیا۔ 1955ء میں اپنے آئین میں تبدیلی کرکے کشمیر پر تسلط جمالیا۔ اس مسئلے پر پاک بھارت کے درمیان تین جنگیں ہوچکی ہیں۔ 2004ء میں پرویز مشرف اور بھارتی وزیراعظم واجپائی نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کافی کوششیں کیں۔ ان کے دور میں امن، سیکورٹی، جموں کشمیر، سیاچن، سرکریک، وولر بیراج، دہشت گردی، منشیات کی روک تھام اور پانی کا تنازع سمیت آٹھ ایشوز کو باہمی گفت وشنید کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق ہوا۔ 2004ء میں پرویز مشرف اور واجپائی کے درمیان کشمیر پر ایک معاہدہ ہونا تھا، مگر چند نا معلوم وجوہ کی بنا پر ایسا نہ ہوسکا۔ پی پی حکومت نے آتے ہی اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی ٹھانی، لیکن 26 نومبر 2008ء ممبئی کا سانحہ رونما ہوا۔ بھارت نے اس کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا۔ یہ مسئلہ اتنا اُلجھا۔ قریب تھا پاک بھارت میں پھر جنگ چھڑجاتی، لیکن بچ بچائو ہوگیا2009ء سے ایک بار پھر کشمیر کی تحریک زوروں پر چلی گئی۔ اب تک اس تحریک میں 93 ہزار سے زیادہ افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیاہے۔ 32 ہزار خواتین کی بے عزتی کی گئی ہے۔ سینکڑوں اغوا اور لاپتا کردیئے گئے ہیں۔ ہزاروں معصوم کشمیری بچوں کو خاک وخون میں تڑپایا گیا۔ 11 جون 2010ء سے اب تک مقبوضہ کشمیر مسلسل آگ میں جلتا رہاہے ۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں بے گناہ کشمیریوں کی شہادت کے خلاف شروع ہونے والا احتجاج مسلسل بڑھتا گیا۔ غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنے کے لئے وادیٔ کشمیر میں مزید فوج آئی۔ کشمیر میں مسلسل ہڑتال اور مظاہروں کے بعد غاصب فوج عام لوگوں نےمکانات اور املاک کو آگ لگادی۔ وقفے وقفے سے وادی میں کئی سالوں سے ہڑتال ہو رہی ہے۔ کئی سو شہادتوں کے بعد کشمیر میں کاروبار زندگی معطل اور بھارتی مظالم کے خلاف کشمیری سراپا احتجاج ہیں۔ مقبوضہ اور آزاد کشمیر سمیت دنیا بھر میں کشمیری بھارت کا یوم جمہوریہ ’’یومِ سیاہ‘‘ کے طورپر مناتے ہیں۔ شہیدوں کے جنازوں، تدفین اور تعزیتی جلوسوں میں آزادی کے نعروں کی گونج پوری قوت سے ہوتی ہے۔ چند دن قبل مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج نے دو بہنوں کو اغوا کر نے کے بعد بے دردی سے قتل کردیاتھا، جس کے بعد علاقے میں کہرام مچ گیا ۔ عالم اسلام میں بھارتی مظالم اور عالمی اداروں اور طاقتوں کی خاموشی پر غم وغصے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اتنے اہم مسئلے پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکہ، اقوام متحدہ، برطانیہ اور دیگر بااثر طاقتیں بیچ میں پڑکر69 سالوں سے سلگتا ہوا مسئلہ کشمیر حل کروانے میں مدد کرتے لیکن عالمی ٹھیکیداروں کا کہنا ہے: ’’مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہم اس بارے میں مداخلت نہیں کریں گے۔‘‘ کیا یہ امریکہ، بھارت گٹھ جوڑ کاواضح ثبوت نہیں ہے؟ کیسی عجیب بات ہے ایک طرف تو امریکہ پاکستان سےکہہ رہا ہے کہ وہ کشمیری مجاہدین کے خلاف کارروائی کرے تو دوسری طرف وہ کشمیر میں آگ لگانے والوں کے بارے میں کہتا ہے یہ اندرونی معاملہ ہے۔ مشرقی تیمور کو اسلامی ملک انڈونیشیا سے الگ کرکے راتوں رات عیسائی ریاست بنادیا جاتا ہے لیکن مسئلہ کشمیر اتنے سالوں سے بدستور سلگ رہا ہے۔ سوڈان کی تقسیم کے لئے تو ریفرنڈم کروایا جاتا ہے تاکہ ایک حصہ عیسائی ریاست کے طورپر اُبھرے لیکن کشمیر میں ریفرنڈم اور استصواب رائے مسترد کردیا جاتا ہے۔ امریکہ کی یہی وہ دوغلی پالیسی ہے جس کی وجہ سے دنیائے مسلم امریکہ سے شکوہ کناں ہے۔ دوسری طرف پاکستان تیار ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے، لیکن بھارت، امریکہ اور دیگر طاقتیں نہیں چاہتیں کہ یہ مسئلہ حل ہوجائے، کشمیری عوام کی رائے کے مطابق وہ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد سے عالمی حالات میں تیز رفتار تبدیلیاں آرہی ہیں۔اندریں حالات پاکستان اور بھارت کو اپنے تنازعات حل کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت مل کر اپنے تنازعات کا دیرپا اور مستقل حل ڈھونڈیں اور پھر اس کے بعد دونوں ملکوں میں اسی قسم کے تعلقات ہونے چاہئیں جیسےامریکہ وکینیڈا‘‘ اور ’’جرمنی وفرانس‘‘ کے مابین ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں بھارت بہت تیزی سے ہر میدان میں ترقی کررہا ہے لیکن اس کی جارحانہ پالیسیوں اور استعماری عزائم کی وجہ سے یہ سب کچھ خاک میں مل جائے گا۔ اگر اس نے اپنی حرکتوں پر نظر ثانی نہ کی اور اپنی تخریبی کارروائیوں سے باز نہ آیا۔کشمیریوں کو چاہئے کہ وہ بھرپور انداز میں تحریک اس وقت تک چلائیں جب تک وہ آزاد نہیں ہوجاتے ورنہ خاکم بدہن وہ دن دور نہیں جب بوسنیا کی طرح کشمیر میں بھی آٹھ آٹھ ہزار مسلمانوں کی اجتماعی قبریں دریافت ہونے لگیں گی۔ اگر پاکستانی قوم نے اپنے کشمیر بھائیوں کو نہ بھلایا تو بہت جلد وہ دن آئے گا ’’جب کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا۔



.
تازہ ترین