• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ لطف لینے کے لئے ہلاک کرتا ہے، آبرو ریزی پر اکساتا ہے، اجتماعی قبریں کھودتا ہے، نسل کشی کی تحریک دیتا ہے، انسانیت کی جگہ حیوانی جذبوں کو بھڑکا کر لوٹ مار اور قتل وغارت گری کو انسانی زندگی کا معمول بنا دیتا ہے، دہشت گردی کی سر پرستی کرتا ہے، فسطائیت کو جنم دیتا ہے اور نسل پرستی کی آبیاری کرتا ہے، اور جب ایک مرتبہ اس کی تلوار میان سے باہر آتی ہے تو پھر بمشکل ہی کوئی اس کی تباہی کی لپیٹ سے بچ پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی قانون اس کی ترویج پر پابندی لگاتا ہے، ہر اہم مذہب اس کی فعالیت کی مذمت کرتا ہے، ہر مہذب معاشرہ اس کی تباہ کاریوں کے سامنے بند باندھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ اس کی شیطانی طاقت ثابت شدہ ہے۔ انسانیت، مذہب، اخلاق، سماج اور ہر اچھائی کے اس حیوانی دشمن کا نام ’’نفرت انگیز تقریر‘‘ ہے۔
دنیا کے ہر مسلمان اور ہر اس شخص کے لئے جو اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کی آزادی پر یقین رکھتا ہے، کیوبک شہر کی مسجد پر حملے کا صدمہ بیان سے باہر ہے۔ اس شیطانی حملے نے چھ قیمتی جانیں لے لیں اور کئی ایک انسانوں کو گھائل کر دیا۔ اور یہ وہ ملک ہے جو لبرل ازم کی اعلیٰ اقدار پر قائم رہنے کی شہرت رکھتا ہے۔ الیگزینڈر بسونیٹ(Alexandre Bissonnette) جس پر مسجد میں فائرنگ کرنے کا الزام ہے، نے ایسا کیوں کیا؟ اس سوال کا جزوی طور پر جواب ایک گھٹیا قسم کے ریڈیو کی نشریات ہیں۔ اس قسم کی نشریات کرنے والے اسٹوڈیوز میں خبطی ستم گر بیٹھ کر دن رات غیر ملکیوں، خاص طور پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی آمد سے پھیلنے والے خطر ے کی دہائی دیتے رہتے ہیں۔ یہ پروپیگنڈا اس آگ پر تیل گراتا ہے جو دائیں بازو کی نسل پرستی کی سیاست نے بھڑکا رکھی ہے۔ خانہ ٔخدا میں ایک خبطی قاتل کی گولیوں کا نشانہ بننے والے بہت پہلے مائیک کے ذریعے کی جانے والی زہر فشانی کا ہدف بن چکے تھے۔
نفرت کا پرچار کرنے والی نشریات کی تاریخ بہت طویل ہے، اور اس کے ہر موڑ پر خون اور خوف کے گہرے نشانات ملتے ہیں۔ ایسی نفرت، جن کا نشانہ بن کر گروہ اور افراد خطرناک حالات کا شکار ہو گئے، کی جدید مثالیں ان گنت ہیں۔ ان میں ناقابلِ فرامو ش 1994ء میں روانڈا میں ہونے والا قتلِ عام ہے جس میں صرف سو دنوں میں آٹھ لاکھ افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ ہوتو انتہا پسندوں نے نسلی بنیادوں پر تتسی اقلیت اور سیاسی مخالفین کا قتلِ عام کیا۔ چشم دید گواہوں کے بیانات پر مبنی بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق۔۔۔ ’’انتہائی منظم طریقے سے حکومت کے مخالفین کی فہرست تیار کرکے انتہا پسندوں کو فراہم کردی گئی جنہوں نے اُنہیں اور اُن کے اہلِ خانہ کو ہلاک کرنا شروع کر دیا۔ ہمسایوں نے ہمسایوں کو ہلاک کیا، بلکہ بعض کیسز میں شوہروں نے اپنی تتسی بیویوں کو مار دیا کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو انتہا پسند اُنہیں ہلاک کر دیتے۔ اُس وقت لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے شناختی کارڈز اپنے ساتھ رکھیں۔ انتہاپسندوں نے سڑکوں کی ناکہ بندی کرلی اور تتسی افراد کو روک کرخنجروں سے ذبح کردیا جاتا۔ ہزاروں تتسی لڑکیوں کو جنسی غلام بنا لیا گیا۔‘‘
اس وسیع قتلِ عام کے پیچھے نفرت انگیز تقاریر کی کار فرما تھی، اور اس کا ذریعہ ریڈیو اور اخبارات تھے۔ یہ شیطانی میڈیا آئوٹ لیٹس سامعین اور قارئین کے جذبات بھڑکاتے ہوئے اُن پر زو ردیتے کہ ’’ان کیڑے مکوڑوں‘‘ کو مٹا کر رکھ دو، گویا تتسی آبادی کو ختم کر دو۔ جن افراد کو ہلاک کیا جانا ہوتا، اُن کے نام ریڈیو پر نشر کیے جاتے۔ حتیٰ کہ اُن گرجا گھروں کے پادریوں اور راہبائوں کو بھی ہلاک کردیا گیا جن میں کسی نے جان بچانے کے لئے پناہ لینے کی کوشش کی‘‘۔ بعد میں یو این ٹریبونل نے تین میڈیا ایگزیکٹوز پر نفرت پھیلا کر قتلِ عام کرانے کا الزام لگایا۔ ان کے میڈیا آئوٹ لیٹس کے اینکرز، جو اکثر نشے میں مدہوش رہتے، قتل کی ترغیب دیتے۔ بعض اوقات وہ انتہاپسندوں کے نام اپنے پیغام میں کھلے عام اُن قصبوں کانام لیتے جن پر حملہ کیا جانا مقصود ہوتا۔ بعض اوقات کوڈ ورڈز استعمال کیے جاتے، جیسا کہ ’’کام شروع کردو‘‘، یا ’’ٹھوک دو‘‘۔
یہی کہانی جنوبی سوڈان میں بھی دہرائی گئی (اگرچہ ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں کم تھی) جب باغیوں نے ملک میں تیل پیدا کرنے والے اہم ترین علاقے، بینتو پر قبضہ کرلیا۔ اقوامِ متحدہ کے امن مشن کے مطابق۔۔۔ ’’قاتل اسپتالوں، مسجدوں اور گرجا گھروں میں پناہ لینے والے آدمیوں، عورتوں اور بچوں کا تعاقب کر رہے تھے۔‘‘ ایک مرتبہ پھر اس خونی واقعہ کی ذمہ داری ریڈیو بینتو پر عائد ہوتی ہے جس نے نفرت انگیز مواد نشر کرتے ہوئے ایک گروپ کو دوسرے کے خلاف قتلِ عام کرنے اور لڑکیوں کی آبروریزی کرنے پر اکسایا۔ صرف ایک واقعہ میں ایک مسجد میں دو سو افراد کو ہلاک اور چار سو کو زخمی کردیا گیا۔ ان ہلاکتوں کے بارے میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ریڈیو، فیس بک اور یوٹیوب کے ذریعے پھیلائے جانے والے نفرت انگیز الفاظ کی وجہ سے یہ ہلاکتیں ہوئیں۔ جس رفتار سے نفرت انگیز تقاریر سفر کرتی ہیں، اس پر ماہرین حیران ہیں۔ ایک محقق کے مطابق۔۔۔ ’’ایک گروہ کے خلاف کی گئی نفرت انگیز تقریر بہت جلد موبائل فون کے ذریعے سرحدیں اور سمندر پار کرتے ہوئے دیگر خطوں میں بھی فعال ہو سکتی ہے۔‘‘
جنوبی سوڈان میں ہونے والی قتل وغارت کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اب تک نفرت انگیز الفاظ عوام کے حافظے میں محفوظ ہیں، اگرچہ اب اُنہیں زبان پر لانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نفرت انگیز زہر بھرے تیر اور خنجر ابھی تک لوگوں کے ذہن میں مقتل بسائے ہوئے ہیں۔ ہمارے قریب ہی مقبوضہ کشمیر، گجرات اور میانمار میں نفرت انگیز تقاریرکی وجہ سے انسانی لہو کی ارزانی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ زہریلی زبانیں بہت سی اشکال رکھتی ہیں۔ یہ ناگ نما اینکر، شیطانی پالیسی ساز اور حتیٰ کہ میڈوسا نما مبصرین بھی ہوسکتے ہیں۔ ٹرمپ کی انتظامیہ کی ایک حالیہ پروفائل میں نیویارک ٹائمز اُن افراد کے ناموں کی شناخت کرتا ہے جو اسلام کے بارے میں منفی تصورات رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا ہر فعل، چاہے وہ عبادت ہو یا ایک دوسرے سے مخاطب ہونے کا طریقہ، دراصل ’’جہاد‘‘ کی کوئی نہ کوئی شکل ہے۔ صدر ٹرمپ کے دست راست، اسٹیفن کے بانن(Stephen K Bannon) نے ایک شو میں مسلمانوں کو خوفناک گروہ بنا کر پیش کیا ہے۔ نئی انتظامیہ کے سیکورٹی ایڈوائزر، مائیکل فلائن مسلمانوں سے لاحق خطرے کا کھل کر اظہار کرتے ہوئے اسے حقیقت کے قریب سمجھتے ہیں۔ نفرت انگیز جذبات رکھنے والے ان افراد کے کنٹرول میں اب دنیا کا سب سے طاقتور ملک آگیا ہے۔
یہ تمام تمہید دراصل ہمارے اپنے ملک میں پائی جانے والی نفرت انگیز مہم اور زہریلی تقاریر کے چند ایک بنیادی نکات کا احاطہ کرتی ہے۔ہمارے ہاں یہ رجحان اس قدر غالب ہے کہ معاشرے اور میڈیا کے کچھ دھڑوں کا ’’معمول‘‘ بن چکا ہے۔ افراد اور گروہوں کے خلاف نفرت انگیز پیغامات وبائی امراض کی طرح پھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہم نے ان زہریلے سانپوں کو ناصرف بڑھایا ہے بلکہ انہیں تحفظ بھی دیا ہے تاکہ وہ کسی کو بھی مذہب اور حب الوطنی کے نام پر اپنی شعلہ بیانی کا نشانہ بنالیں۔ ٹیلی وژن کو نفرت پھیلانے کے موثر ذریعے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے وہ ہمہ وقت دوسرے گروہوں اور افراد کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے نہ صرف شہریوں اور اداروں کی ساکھ تباہ ہو جاتی ہے بلکہ بہت سی جانیں بھی دائو پر لگ جاتی ہیں۔ فتویٰ ساز فیکٹریاں اپنے مخالفین کے قتل کے فتوے جاری کرتی رہتی ہیں، جبکہ قانون بے اختیار ہوکر ایک طرف کھڑا دیکھتا رہتا ہے۔ ابلاغِ عام کے ذریعے اس سرزمین کو وحشت ناک جذبات سے لبریز کردیا گیا ہے۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ ان دھڑوں نے کمزور جوڈیشل سسٹم کو بھی یرغمال بنا رکھا ہے۔
مذہب اور قوم پرستی اور حب الوطنی کے نام پر تفریق، منافرت اور شرانگیزی ایک معاشرے کے لئے انتہائی مہلک فتنہ ہے۔ نفرت بھی دہشت گردی کی طرح ہوتی ہے۔ یہ اپنے بچوں کو جنم دیتی ہے، جو اپنے ’’والدین‘‘ سے بھی زیادہ زہریلے نکلتے ہیں۔ ہم نے فرقہ واریت کو نفرت انگیز تقاریر کی گود میں پلتے دیکھا ہے، ہم نے عدم برداشت کی قربان گاہ پر اقلیتوں کاخون ہوتے دیکھا ہے اور ہماری آنکھوں کے سامنے پوائنٹ اسکورنگ کرنے والی سیاست نے سماج کو تباہ کردیا ہے۔ اب ایک بار پھر ہمارے سامنے یہی گندے کردار زہر فشانی کر رہے ہیں اور ہم اس سے چشم پوشی کا ارتکاب کرتے ہوئے کسی سنگین حادثے کا انتظار کر رہے ہیں۔

.
تازہ ترین