• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ لوگ تو خیر مجھے شیطان سمجھتے ہی ہوں گے اس لئے کہ آپ کو میرے متعلق یہی باور کرایا گیا ہے مگر یہ واقعہ ہے کہ میں خود پہروں اپنے متعلق یہ سوچتا رہ جاتا ہوں کہ آخر مجھ کو شیطان کیوں کہا جاتا ہے مگر یہ بات کبھی میری سمجھ میں نہیں آئی۔
ابھی حال ہی کا ذکر ہے کہ ایک صاحب سے میں انسانی شکل میں ملا اور ان سے صاف صاف کہہ دیا کہ بھائی میں شیطان ہوں وہی شیطان جس نے آدم کے سامنے سر نہ جھکایا اور اپنی خودداری لئے ہوئے بزم ملائک سے نکل آیا اور خدا کا سب سے بڑا باغی قرار دے دیا گیا۔ ان بزرگ نے جو یہ سنا کہ میں شیطان ہوں تو مجھ کو حسرت سے دیکھ کر بولے:’’توبہ کیجئے بھلا میں آپ کے ایسے بزرگ کو ایسی بات کیونکر کہہ سکتا ہوں۔ ‘‘ میں نے کہا:’’نہیں مذاق نہیں یقین جانئے کہ میں شیطان ہوں۔‘‘ ان بزرگ نے فرمایا:’’حضرت یہ آپ کا انکسار محض ہے اور کچھ نہیں۔‘‘ میں نے کہا ’’دیکھئے نہ یہ انکسار ہے نہ یہ خاکساری بلکہ آج میں آپ سے کچھ گفتگو کرنے کے لئے انسانی شکل میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ورنہ دراصل میں انسان نہیں ہوں میں واقعی شیطان ہوں۔ ابلیس۔ ‘‘
ان بزرگ نے نہایت اطمینان سے کہا ’’لاحول ولا قوۃ‘‘۔ میں اُچک کر دس قدم پیچھے ہٹ گیا اور پھر فوراً ہی ان حضرت کے پاس گیا انہوں نے پوچھا بھی کہ ’’خیریت تو ہے کیا ہوا تھا‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’حضور والا میں آپ سے عرض کر رہا ہوں کہ میں سچ مچ شیطان ہوں مگر آپ ہیں کہ مجھ کو کوڑے لگا رہے ہیں اور وہ چیز پڑھ رہے ہیں جو اس وقت آپ کو اخلاقاً نہیں پڑھنا چاہئے تھی۔‘‘
ان بزرگ نے فرمایا ’’مگر صاحب آپ کا ایسا مقدس بزرگ اور نورانی صورت کا انسان سمجھ میں نہیں آتا کہ کیونکر شیطان ہو سکتا ہے۔‘‘
میں نے بات کاٹ کر کہا ’’بھائی اس بات پر غور نہ کرو ورنہ ایک بالکل دوسرا مبحث ہے کچھ تعصب ہے کچھ مجھ غریب کے ساتھ زیادتی ہے بہرحال اگر آپ انصاف پسند ہیں تو میرا حال سن کر آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ خدا کا مجھ سے بڑا عاشق اور کون تھا۔ فرشتوں میں مجھ سے ممتاز حیثیت کس کو حاصل تھی اور علم و فضل میں میرا مدمقابل کون تھا مگر میں آج شیطان کیوں ہوں یہ کچھ سیاسی اختلافات ہیں۔ ‘‘
وہ بزرگ نہایت غور سے میری داستان سنتے رہے اور آخر سانس روک کر تعجب سے بولے ’’مگر یہ فرمایئے حضرت کہ آخر آپ بن کیونکر گئے شیطان، بظاہر تو بڑے مرد مسلمان معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘
میں نے عرض کیا ’’یہ میں مرد مسلمان معلوم کیا ہوتا ہوں۔ ہوں ہی ۔ رہ گیا میرا شیطان بننا، اس کے متعلق آپ یقین جانئے کہ میں خود نہیں بنا ہوں بلکہ بنایا گیا ہوں‘‘
بزرگ محترم نے کہا یہ وہ کیونکر جناب والا۔
عرض کیا ’’آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ کیونکر۔ اچھا میرے ساتھ ساتھ تشریف لایئے۔‘‘
یہ کہہ کر میں نے ان حضرت کو اپنے ہمراہ لیا اور اِدھر اُدھر گھماتا ہوا ایک حلوائی کی دکان کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ حلوائی کی دکان پر ایک کڑہائو میں شیرہ تیار ہو رہا تھا۔ میں نے ان صاحب کو دکھاتے ہوئے اس کڑھائو میں اپنی انگلی ڈالی اور فوراً نکال کر دیوار میں پونچھ دی اور پھر دور جا کر ان صاحب کو لئے کھڑا رہا۔ میرے اور ان کے دیکھتے دیکھتے اس جگہ پر جہاں میں نے شیرہ دیوار میں پونچھ دیا تھا مکھیوں کا ایک گچھا آ کر بیٹھ گیا۔ بڑے میاں نے اس منظر کو دیکھا اور پھر میرا منہ دیکھ کر بولے یہ تو پھر اس سے مطلب آپ کا جناب شیطان صاحب۔
میں نے ان سے کہا ’’بس دیکھتے رہئے اور یاد رکھئے گا کہ میں نے صرف انگلی سے ذرا سا شیرہ دیوار پر لگایا تھا۔‘‘
بڑے میاں نے گردن ہلا کر کہا ’’ہاں ہاں صاحب مجھ کو یاد ہے میں ایک لفظ بھی زیادہ نہیں کہوں گا مجھے خدا کو منہ دکھانا ہے۔ ‘‘
میں نے کہا ’’حضور والا مجھے بھی منہ دکھانا ہے اس لئے میرے ساتھ بھی انصاف کیجئے گا۔ ‘‘
ہم دونوں یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک چھپکلی نے اس شیرے پر بیٹھی ہوئی مکھیوں پر حملہ کر دیا۔ اس چھپکلی کو دیکھا کہیں لوہار کی بلی نے، جھپٹی چھپکلی پر اور سڑک پر جا رہا تھا دو فوجی گوروں کے ساتھ ایک کتا، وہ غراتا ہوا اس بلی پر اس طرح ٹوٹ پڑا کہ بلی کو بھی زخمی کیا اور مٹھائی کے تھال بھی گرا دیئے۔ حلوائی نے اپنا کڑچھا گھسیٹ کر جو مارا ہے تو ایسا بھرپور اس کتے پر پڑا کہ اس کی ٹانگ ہی غائب کر دی۔ اس نے ’’پوں پوں‘‘ کر کے تمام محلہ آسمان پر اٹھا لیا۔ اس کے مالک ٹامیوں نے جو اپنے عزیز از جان میاں کتے کو اس حال میں دیکھا تو اتنے فوجی بید لئے ہوئے ’’یوڈیم سوائن‘‘ کہتے ہوئے پھاند پڑے اس حلوائی پر اور اس کو لگے دھنکنے۔
ان ٹامیوں کے اس طرح مارنے کا اثر یہ ہوا کہ ہندوستانی سوداگروں نے ان گوروں پر حملہ کر دیا۔ گوروں پر حملہ ہونا تھا کہ ان کی سیٹی اور بگل پر خدا جانے کدھر سے دس پندرہ گورے اور آ گئے ان میں سے ایک گورا تو بمشکل دوڑا مدد کے لئے اور باقی سب نے شروع کر دی گھمسان کی لڑائی۔
اس لڑائی نے ہندوستانیوں میں بھی جوش پیدا کر دیا تھا اور گوروں میں بھی۔ مختصر یہ کہ ہندوستانی جوق در جوق ادھر ادھر کے محلوں سے دوڑتے ہوئے آ رہے تھے اور تھوڑی ہی دیر میں شہر کا بہت بڑا حصہ سمٹ کر وہاں آ گیا تھا۔ گوروں کو اس بری طرح مارا جا رہا تھا کہ گویا ان کا کوئی تھا ہی نہیں مگر تھوڑی ہی دیر میں جب وہ بائیسکل پر جانے والا گوار مسلح گوروں کو پکڑ کر چھائونی سے لایا تو لگے ہندوستانی بھاگنے اور وہاں شروع ہو گئی فائرنگ۔
اس موقع پر ہمارے ساتھی صاحب بھی گھبرائے ہم نے ان کو ساتھ لے کر اس محشرستان سے کھسک جانا ہی مناسب سمجھا اور وہاں سے ہٹ کر ان سے صرف اتنا پوچھا کہ ’’حضرت دیکھا آپ نے مجھ گناہ گار بدنصیب کی خطا کتنی سی تھی جس کو کس قدر مہتم بالشان بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ ‘‘
شوکت تھانوی کی ’’شیطان کی ڈائری‘‘ کا یہ ورق، امریکہ کے نومنتخب صدر کے بعض معمولی اور معصومانہ فیصلوں پر دنیا بھر میں مذمت کی قراردادوں اور جاری مظاہروں کے پس منظر میں یاد آیا۔ سو قارئین کی تفنن طبع کے لئے حاضر ہے۔ صدرِ امریکہ کے حالیہ اقدامات جو اس نے اپنی قوم اور یورپ کو محفوظ اور مضبوط بنانے کے لئے اٹھائے الٹا امریکی شہریوں اور یورپی اتحادیوں نے آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا ہے۔ شوکت تھانوی کے شیطان کی طرح ’’ایرانیوں کا شیطانِ بزرگ‘‘ بھی بیچ چوراہے حیران کھڑا ہے کہ میں نے آخر کیا ہی کیا ہے؟

.
تازہ ترین