• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ ایک بار پھر بری طرح متنازع ہو چکا ہے،ایک بار پھر اس لئے کہا کیوں کہ اس منصوبے پر گزشتہ سال آغاز کیساتھ ہی خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی حکومتوں اور بعض سیاسی جماعتوں نے سخت تحفظات ظاہر کیے تھے اور اسے چین پاکستان اکنامک کاریڈور کی بجائے چین پنجاب اکنامک کاریڈور کہاگیا تھا۔اب سات ماہ گزرنے کے بعد ایک بار پھر اس منصوبے پر اس شدت کیساتھ اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں کہ اسکے دوسرے کالا باغ ڈیم بننے کے خدشات تک ظاہر کیے جا رہے ہیں۔انتہائی سنجیدگی اور تشویش کی بات یہ ہے کہ اس بار انگلی اٹھانے والوں میں خیبر پختونخوا حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کیساتھ وفاقی حکومت کی حلیف جماعتیں بھی شامل ہو چکی ہیں جن میں جمعیت علمائے اسلام ف اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نمایاں ہیں۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف حکومت کی بد ترین مخالف عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی بھی اس معاملے پر اسکے ہمرکاب ہیں۔اور تو اور حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے صوبائی ارکان بھی وفاقی حکومت پر عائد کیے جانے والے حق تلفی کے الزامات پر اپنے بھائی بندوں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں جس کا بخوبی اندازہ وفاقی وزیر احسن اقبال کو حالیہ دورہ پشاور کے دوران ہو گیا ہوگا۔ ویسے تو اگر وفاقی حکومت کو اشاروں کی زبان سمجھ آتی ہوتی تو کے پی کے اور بلوچستان اسمبلی کی طرف سے سی پیک پر عمل درآمد کے خلاف متفقہ طور پر منظور کردہ قراردادیں ہی کافی تھیں لیکن اسے شاید رائی کو پہاڑ میں تبدیل ہوتا دیکھنے میں ذہنی تسکین حاصل ہوتی ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ منصوبے پر تحفظات ظاہر کرنے والی جماعتیں دھمکیاں دینے پر اتر آئی ہیں کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ اقتصادی راہداری کو پختونخواسے گزرنے نہیں دینگے۔ یہ صورتحال اس نہج تک پہنچی کیوں ہے آئیں اس کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی جزئیات جناب نواز شریف کے بطور وزیر ا عظم حلف اٹھانے کے بعد پہلے سرکاری دورہ چین کے دوران ہی طے پا گئی تھیں جو جولائی 2013ءمیں کیا گیا تھا۔اس دورے کے دوران صوبائی وزرائے اعلیٰ میں سے صرف شہباز شریف ان کے ہمراہ تھے۔اسی دورے کے دوران فیصلہ کیا گیا تھا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے متعلق تاریخی معاہدے پر دستخط چین کے صدر شی چن پنگ کے دورہ پاکستان کے دوران کیے جائیں گے تاہم اس منصوبے پر ماسوائے پنجاب کسی صوبائی حکومت کو اعتماد میں لینے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ اسکےبعد بھی خواہ صدر کا دورہ چین ہو یا وزیر اعظم پاکستان کا وزیر اعلیٰ پنجاب ہر وفد کا حصہ ہوتے تھے ، وفاقی حکومت کے اس طرز عمل نے نہ صرف صوبوں کے درمیان احساس محرومی کو جنم دیا بلکہ سی پیک کو متنازع بنانے کی بنیاد بھی رکھ دی گئی۔ یہ طرز عمل یہیں تک موقوف نہیں رہا بلکہ اقتصادی راہداری کی تعمیر کے اسی منصوبے سے متعلق مختلف معاہدوں پر دستخط کیلئے چین کے صدر شی چن پنگ گزشتہ سال اپریل میں پاکستان کے دورے پر آئے تو نور خان ائیر بیس پر ان کےاستقبال سے لیکر درجنوں معاہدوں پر دستخط تک سوائے پنجاب کے کسی صوبے کی نمائندگی نظر نہ آئی۔چینی صدر کے دورے کے دوران 51معاہدوں سے متعلق مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے،8 منصوبوں کی تختیوں کی نقاب کشائی کی گئی جبکہ 5منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا لیکن مجال ہے جو وفاقی حکومت نے کسی ایک معاہدے کی دستاویزات بھی ان صوبوں کو فراہم کی ہوں۔ ان سرکاری دستاویزات کو اس قدر خفیہ رکھنے کی پالیسی نے ان صوبوں کے درمیان شکوک و شبہات کو مزید گہرا کر دیا ،ان کی طرف سے مسلسل مطالبہ کیا جاتا رہا کہ 46 ارب ڈالرز کے اس نایاب اور مقدس منصوبے سے متعلق دستاویزات کی زیارت انہیں بھی کرا دی جائے لیکن ہر بار انہیں یہی باور کرایا گیا کہ یہ استحقاق وفاقی اور پنجاب حکومت کے صرف چند حکام کو ہی حاصل ہے۔ یہ صوبے بار بار کہتےرہے کہ انہیں کم از کم اقتصادی راہداری کا نقشہ ہی دکھا دیا جائے لیکن سنی ان سنی کر دی گئی اور جب برادرم سلیم صافی نے اپنے پروگرام جرگہ میں نقشہ دکھایا تو احسن اقبال نے فرمایا کہ یہ نقشہ تو اصلی نہیں اور وہ’’ اصلیـــ‘‘ نقشہ پلوں کے نیچے اتنا پانی بہہ جانے کے بعد اب گزشتہ ہفتے وزارت منصوبہ بندی کی ویب سائٹ پر پوسٹ کیا گیا ہے۔ اب احسن اقبال صاحب اقتصادی راہداری منصوبے کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام جتنا اہم اہم قرار دیتے ہوئے اسے متنازع نہ بنانے کی اپیل کر رہے ہیں لیکن اسے خفیہ رکھ کر وہ خود اسے اس قدر متنازع بنا چکے ہیں کہ کبھی پشاور کا دورہ کرتے ہیں تو کبھی کوئٹہ کا لیکن کوئی ان کی آوازپر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ مغربی روٹ میں ایک انچ تبدیلی نہیں کی گئی لیکن نہ پرویز خٹک سننے کواور نہ ہی ڈاکٹر عبدالمالک یقین کرنے کو تیار ہیں۔اب بات کرتے ہیں منصوبے پر تحفظات ظاہر کرنیوالوں کے مطالبات کی کہ کیا وہ واقعی حقائق پر مبنی ہیں، مغربی روٹ پر کام شروع نہ کرنے کا واویلا مچانے والوں کو ادراک ہونا چاہئے کہ بلوچستان میں اس طویل راہداری کی تعمیر کیلئے ایف ڈبلیو او کے 13یونٹس کام کر رہے ہیں اور اب تک مسلح افواج کے 13جوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔خنجراب سے رائے کوٹ 335کلومیٹر سیکشن مکمل ہو چکا ہے،رائے کوٹ سے تھا کوٹ 280کلومیٹر کی فزیبیلٹی مکمل ہوگئی ہے جس میں سے 147کلومیٹر چینی گرانٹ سے تعمیر بھی ہو چکا۔تھا کوٹ سے حویلیاں کی فزیبیلٹی بھی مکمل کر لی گئی ہے جبکہ حویلیاں ست برہان سیکشن کی تعمیر مکمل ہو چکی۔ برہان سے ڈی آئی خان، ڈی آئی خان سے مغل کوٹ اور مغل کوٹ سے ژوب کی تعمیر کیلئے ٹینڈر دینے کا کام شروع ہے۔ ژوب سے کوئٹہ 331کلومیٹر اور کوئٹہ سے سراب 211کلومیٹر کو چار رویہ کرنے کیساتھ سراب سے خوشاب 449کلومیٹر کی تعمیر جاری ہے۔خوشاب سے گوادر 193 کلومیٹر کی تعمیر پر بھی کام ہو رہا ہے۔ ان حقائق کے بعد بھی اگر کوئی کہے کہ مغربی روٹ پر کام نہیں ہو رہا تو دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو دیدہ بینا عطا کرے۔ جہاں تک مغربی روٹ کے ساتھ صنعتی زونز کے قیام کا مطالبہ ہے تو اس کیلئے بلوچستان میں سات اور کے پی کے میں آٹھ مقامات کی نشان دہی کی جا چکی ہے تاہم حتمی فیصلہ پاک چین مشترکہ ورکنگ گروپس کرینگے جو تاحال قائم نہیں کیے گیے، اعتراض کرنیوالوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ سی پیک میں ایل این جی ،تیل اور گیس کی پائپ لائن کا کوئی منصوبہ سرے سے شامل ہی نہیں ہے۔فائبر آپٹک کے اکلوتے منصوبے میں گلگت بلتستان ، خیبر پختونخوا، اسلام آباد راولپنڈی شامل ہیں۔تحفظات ظاہر کرنے والے یہ بھی بھول گئے ہیں کہ پشاور سے کراچی ریلوے ٹریک کی اپ گریڈیشن 2018 ءمیں مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ میٹرو بس اوراورنج لائن ٹرین پر اعتراض کرنے والوں نے نومبر 2014ءمیں پشاور میٹرو بس منصوبے کی سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی سے منظوری کے بعد تاحال اس کا پی سی ون تک نہیں بھجوایا۔ اب ذرا ترقیاتی بجٹ کے بارے میں حقائق بھی بیان کر دوں کہ گزشتہ مالی سال کے دوران خیبر پختونخوا کو 37ارب روپے اور بلوچستان حکومت کو 59ارب روپے فراہم کئے گئے اور رواں مالی سال کے دوران پرویز خٹک حکومت کیلئے66 ارب اور بلوچستان حکومت کیلئے 48 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ فریقین نے مل جل کر منصوبے کو اس قدر متنازع بنا دیا ہے کہ اب خود وزیر اعظم صاحب تحفظات ظاہر کرنے والوں کو ایک میز پر بٹھا کرگوش گزار کریں گے تو ہی وہ مانیں گے کیوں کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر اتفاق رائے کا حصول اب وفاقی وزیر منصوبہ بندی کے بس کی بات نہیں رہی۔
تازہ ترین