• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’امریکہ اپنے اتحادیوں سے ملکر اسلامی دہشت گردی کا خاتمہ کرے گا‘‘، صبح سے امریکی صدر کا بیانیہ کان بدمزہ کر رہا ہے، کالم کا موضوع بھی یہی۔ عرصہ دراز سے اُمت ِمسلمہ نشانے پر ہے۔ لتاڑنا اور فہمائشیں روزمرہ کا معمول ہیں۔ ’’اسلامی دہشت گردی‘‘، کہنے والوں کے منہ میں خاک، اسلام دین سلامتی ہے۔ عالمی دہشت گردی میں نام کمانے والا دہشت گرد ہاتھی، کیڑے مکوڑوں کو چھانٹتا، پھٹکتا پھر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کی کہی بات، پرانی واردات نئی نویلی پیکنگ کے ساتھ مارکیٹ ہورہی ہے۔ صرف اور صرف شدت اور حدت میں خاطر خواہ اضافہ ہے۔ یہ بحث ضمنی، کہ مسلمانوں اندر ایک معمولی گروہ ’’دہشت گردی‘‘ کو گھر دے چکا۔ بنیادی نکتہ اہم، دیکھنا ہوگا کہ کشمیر، فلسطین، افغانستان، پاکستان، شام، یمن، ایران، انڈونیشیا، مصر، لبنان، سوڈان، سعودی عرب، الجزائر، صومالیہ، لیبیا جہاں جہاں بھی دہشت گردوں کے نقش پا نظر آئے، بنیادی وجہ ہے کیا؟ وجہ یکساں۔ ظلم و بربریت نے ہی تو قدم پہلے جمائے۔ اسلامی ممالک کی معاشرت، معیشت اور دین میں رخنے ڈالنے والے ہاتھ پوشیدہ ہیںہی نہیں۔ فلسطین اور کشمیر پر ڈھائے مظالم تو خیر سے70 سال پر محیط، روسی شکست و ریخت کے بعد سے درجنوں ممالک، نئی امریکی پالیسی کی زد میں آچکے ہیں۔ پچھلے28 سالوں سے مصائب، مصیبتیں بڑھتے بڑھتے عفریت بن چکی ہیں۔ سات ممالک پر بندشوں اور پابندیوں کا اعلامیہ، ٹرمپ کا بیانیہ سمجھا جا رہا ہے جبکہ اسی بیانیہ میں افغانستان، پاکستان، سعودی عرب، ترکی، مصر، انڈونیشیا وغیرہ کو آڑے ہاتھوں لینے کی گفت و شنید بھی جاری ہے۔ پچھلے28سالوں سے سارے اسلامی ممالک امریکی دہشت گردی، سازشوں، ریشہ دوانیوں کی آماجگاہ بنے ہیں۔ نیا بیانیہ کیسا؟ ٹرمپ نے نئی بات کون سی کہہ دی؟ خلیجی ممالک جانتے ہیں، کہ ان ممالک کا امن، سکون اور حکمرانوں کا استحکام و دوام، ایک ’’پیکیج ڈیل‘‘، روزِ اول سے امریکہ کی مرہون منت ہے۔ امریکہ پلک جھپکتے سب کچھ چھین لے گا۔ خلیج میں امریکی بحری بیڑوں، اڈے چھائونیوں کی بھرمار، ہر ملک حصہ بقدر جثہ مستفید، پابند سلاسل ہے۔ مسلم ممالک، پابہ گل، ہل جل نہیں سکتے۔ البتہ حکمران اپنی تدوین و آرائش کی حد تک،آسمان چھو رہے ہیں۔
جاہلوں سے غرض نہیں، عقل کے اندھے لاعلاج ہیں۔ امت مسلمہ کا وجود تسلیم کرنا کجا، نام سنتے سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ سرخ بھبھوکا! امت مسلمہ جنس نہیں کہ مفاداتی منڈیوں میں ٹٹولتے پھرولتے پھرو۔ نہ اسٹاک ایکسچینج کہ روزانہ کی بنیاد پر اتارچڑھائو رہے، قیمت کا تعین ہو۔ امت مسلمہ اقدار، کیفیت، نظام زندگی، شرح، تشریح، سرور کا نام ہے۔ اُمت ِ مسلمہ سے آگاہی، واقف کاری کی مقدار کا تعین، دین اسلام سے لگائو دلچسپی، سپردگی کی درجہ بندی سے منسلک ہے۔ جاننا راکٹ سائنس نہیں کہ لغو عادتیں، پراگندگی، متلون ومنتشر المزاجی، گندے مشاغل نہ چاہتے ہوئے بھی اللہ، دین اور ’’تصورِِ امت ِمسلمہ ‘‘سے دور لے جاتے ہیں۔
ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ عرصہ سے مسلمان ممالک امریکی نشانے کی زد میں ہیں۔80کی دہائی کے اختتام سے پہلے، روسی مطلق العنان سلطنت کا خاتمہ، دنیائے اسلام کو امریکی میڈ دلدل میں دھکیل گیا۔ امریکہ جو سردجنگ میں بھی اپنے اتحادیوں کا سرخیل تھا۔ اکلوتی طاقت ملی تو مغربی گروہ کا عملاً سربراہ بن کر سامنے آیا۔ آنے والی صدی کو امریکہ کا نہ ختم ہونے والے راج کے مطابق ڈھالنا، مطمح نظر ٹھہرا۔ امریکی استحکام کو کئی صدیوں تک یقینی بنانا، عزم جانا۔ نئے عزائم کا رہنما اصول ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘بنا۔ مقصد مختصر، دنیا کے وسائل قبضے میں رکھنے، نئے عالمی نظام تحت تقسیم و تشکیل کرنی تھی۔ لگ بھگ 37سال پہلے، روسی یلغار پر، افغان قوم اٹھ کھڑی ہوئی۔ افغان جہاد کو امریکہ نے اپنے مفادات پر منطبق سمجھا۔ لمحوں میں’’افغان مجاہدین کو اثاثہ جانا، اپنے بانی مبانی آبائو اجداد کا ہم پلہ قرار دیا‘‘ (صدر ریگن) بعدازاں انہی لوگوں کا چہرہ دکھا کر، اسلام کو بدنام کرنے کی ٹھانی۔ سارے کے سارے خود پالے پوسے، مسلح کیا، جدید ٹیکنالوجی دی۔ اپنے حق اور مخالفت میں ایسوں کو نبرد آزماپایا۔ سانحہ نائن الیون، امریکی مفادات ہی کو پروان چڑھا گیا۔
سانحہ نائن الیون کی تحقیقات آج بھی نامکمل۔ سانحہ پر قائم کمیشن کی اڑھائی ہزار صفحات پر مشتمل 22 جولائی 2004 کو رپورٹ مکمل ضرور ہوئی۔ خامیوں، عیبوں، قانونی سقموں سے بھری ہے۔ لغو اور بے معنی، بنیادی سوالوں کے جواب سے تہی دامن سمجھیں۔ سانحہ نائن الیون کے اوپر متعلقہ سوالات یا تجسس جرم سمجھا گیا۔ سنجیدہ حلقوں نے سانحہ نائن الیون میں سی آئی اے کا کردار تلاش کیا۔ شواہد دیئے کہ سی آئی اے کی مدد سے دہشت گردی ممکن رہی۔
80 کی دہائی کا رہنما اصول ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کو آگے بڑھانے کی بنیادی ضرورت، کسی سانحے کی کوکھ ہی سے جنم لینا تھا۔ عرض اتنی، صدر ٹرمپ جس غل غپاڑے میں آج مصروف، نیا نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ وہی کچھ کرنے میں مصروف، پچھلے 28 سالوں سے جو تمام امریکی صدور پابندی سے کرتے پائے گئے۔ تہذیوں کے تصادم کی بازگشت،1988 سے کیوں باآواز بلند نشر ہوئی؟ اس پر لکھے مقالے، کتابیں، مذاکرے و مذاکرات ’’آرڈر آف دی ڈے‘‘ تھے۔ تہذیبیں تھیں کونسی، مغربی دنیا بمقابلہ اُمت ِ مسلمہ۔ اچنبھے اور پریشانی کاہے کی؟ آج کی صورت حال کا اعلامیہ ہی تو نشر ہوا تھا۔
سانحہ نائن الیون کے اگلے دن، صدر بش جب قوم سے مخاطب تھے تو لب لباب یہی کہ ’’آج ہمیں پھر سے ایک صلیبی جنگ کا سامنا ہے‘‘۔ صلیبی جنگ کا فوراً لب پر آجانا، اتفاقی نہیں تھا۔ صلیبی جنگ کیا غمازی کرتی ہے؟ کئی سو سال پہلے عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان خونریز جنگیں ہم تو بھول چکے۔ امریکہ نے رٹ رکھیں ہیں۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کچھ بھی اضافہ نہیں کیا۔ صرف شدت اور حدت بڑھائی ہے۔ پچھلے ہفتے کے کالم سے چند فقرے، مناسبت رکھتے ہیں۔
’’غلط فہمی نہیں کہ صدر ٹرمپ، امریکی اسٹیبلشمنٹ کا ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ ہے۔ باریک بینی درکار، قرائن بقرینہ نشاندہی، دل بھی ماننے پر آمادہ، امریکہ اب بھی اپنی فضیلت، بزرگی اور برتری پر سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں۔ امریکہ سمجھنے سے قاصر کیوں؟ عرصے سے معاشرت، اقتصادیات، سیاست، قوت تیزی سے انحطاط پذیر ہے۔ تیزی سے کھوتا وقار، گھٹتا اثرورسوخ، دگردوں اقتصادیات اور قوت، جارحیت و مدافعت کو امتحان درپیش ہے۔ ٹرمپ، ابتری اور ہولناکی کو تیزتر ہی کر پائے گا۔ لگتا ہے "Law of Diminishing Return" روبہ عمل ہے۔ دوران صدارتی انتخابی دوڑ، اپنے کالم اور ٹی وی پروگرام میں دلجمعی سے ٹرمپ کی کامیابی کے لیے دعاگو رہا۔ یقین محکم تھا، ٹرمپ امریکی تباہی کا عمل تیز رکھنے میں ہیلری کلنٹن پر سبقت رکھے گا۔ آج ٹرمپ پالیسیاں پچھلے چار صدور سے قطعاً مختلف نہیں، فرق صرف طریقہ کار کا ہے۔ بش سینئر، کلنٹن، بش جونیئر، اوباما (ہیلری) جو فریضہ لپیٹ سمیٹ ’’رات کے اندھیرے‘‘ میں فرماتے رہے وہ ٹرمپ دن دہاڑے فرما رہے ہیں۔
کچھ بھی تو نیا نہیں، سوائے کہ چین اور روس نیا پاور سینٹر بن کر ابھر چکے ہیں۔ اندھوں، بہروں سے مقصد نہیں، سانحہ نائن الیون کے بعد سے آج تک بغیر توقف، امریکہ نے مسلمان ممالک کی زندگی اجیرن بنارکھی ہے۔ صدر ٹرمپ اسی مد میں ٹھوک بجا کر سابقہ بقایا پورا کر رہا ہے۔ اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کی زندگی اجیرن اور محال تو عرصے سے ہے۔ مساجد پر حملے، نسلی امتیاز، مذہبی منافرت بغیر کسی رکاوٹ روزمرہ کا معمول ہی تو تھے۔1979 تا1984 دوران تعلیم5 سال بغیر مداخلت مقیم رہا،2001 تک کئی درجنوں دفعہ مسلسل امریکہ یاترا مقدر بنی۔ بعد سانحہ نائن الیون قصداً جانے کا قصد چھوڑے رکھا۔14 سال بعد، 2014، امریکہ گیا تو مسلمان امریکیوں کے چہروں پر خوف، بے اعتمادی، پژمردگی چسپاں و عیاں دیکھی۔ بچے سکولوں میں طعن و تشنیع کا نشانہ بنے۔ بغیر وجہ پکڑ دھکڑ روزمرہ کا معمول تھا۔ ٹرمپ نے اضافہ کیا کیا ہے؟ شدت اور حدت ہی تو بڑھائی ہے۔ ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ اب نئی پیکنگ میں، وگرنا مسلمانوں کو لتاڑنا، پچھاڑنا،28 سال سے، معمول ہے۔



.
تازہ ترین