• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سیاست میں صوبہ پنجاب کا کردار ہمیشہ سے انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے، 60فیصد آبادی پر مشتمل اس صوبے سے جو سیاسی پارٹی عام انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے وہی جماعت وفاق میں حکمرانی قائم کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں پنجاب کی اہمیت کے پیش نظر اسے اپنا سیاسی مرکز بناتی ہیں اور ہر سیاسی جماعت کی عام انتخابات میں بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طریقہ سے پنجاب میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کی جا سکیں۔ حکمران جماعت مسلم لیگ ن جس کا پنجاب ہمیشہ سے سیاسی گڑھ رہا ہے اس صوبہ میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد مسلم لیگ ن وفاق میں 3مرتبہ اپنی حکومت بنا چکی ہے۔ 1997ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے پنجاب میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور ان کے مد مقابل پاکستان پیپلزپارٹی ایک نشست بھی حاصل نہیں کرسکی۔ اسی طرح 2013ء کے انتخابات میں بھی پاکستان مسلم لیگ ن نے پنجاب سے بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد وفاق میں حکومت بنائی جبکہ صوبہ خیبرپختونخوا، صوبہ سندھ میں حکمران جماعت انتہائی کم نشستیں حاصل کر پائی تھی لیکن پنجا ب سے واضح اکثریت ملنے کے باعث پاکستان مسلم لیگ ن آج وفاق میں حکومت کر رہی ہے۔ 2013ء کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ن کی کامیابی کا سہرا خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے سر جاتا ہے جنہوں نے دیگر صوبوںکے مقابلے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 2018ء کے انتخابات کے بارے میں بھی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس مرتبہ بھی کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن جیتا یا ہارا جائے گا لہٰذا چاروں صوبوں کے درمیان وہاں کی حکومتوں کی کارکردگی کا موزانہ کیا جائے گا۔ بلاشبہ آج جب میں یہ تحریر کر رہا ہوں اوربین الاقوامی اور غیر جانبدار تنظیموں کی طرف سے جو سروے آ رہے ہیں اس میں پنجاب کی کارکردگی کو اولین پوزیشن حاصل ہے اگرچہ ہیلتھ اور ایجوکیشن کے شعبے میں مزید کام کرنے کی گنجائش ہے ان دونوں شعبوں میں کارکردگی انتہائی تسلی بخش قرار نہیں دی جا سکتی لیکن باقی تینوں صوبوں کے مقابلے میں پنجاب کی کارکردگی ان دونوں شعبوں میں بھی بہتر ہے۔ اس کے علاوہ خادم اعلیٰ پنجاب کے میگا پروجیکٹس جن میں تعلیم، صحت، زراعت، سستی ترین سفر سہولتیں، توانائی اور لاء اینڈ آرڈر جیسے شعبوں میں ترجیحی بنیادوں پر کام کیا گیا اور حکومت پنجاب کے ان اقدامات کی وجہ سے عام آدمی تک ان کے ثمرات منتقل ہو رہے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی تمام لوگ آشنا ہیں کہ شہباز شریف جو ترقیاتی منصوبے شروع کرتے ہیں ان کا ٹائم فریم بھی ضرور دیتے ہیں اور شروع کیے جانے والے منصوبے مقررہ مدت میں مکمل کر لئے جاتے ہیں۔ 2013ء کے الیکشن سے قبل خادم اعلیٰ پنجاب کی خصوصی توجہ اور دلچسپی کے باعث لاہوریوں کو میٹروبس سروس کی صورت میں سستی سفری سہولت دی گئی یہ منصوبہ مقررہ وقت سے پہلے مکمل کیا گیا آج میٹرو بس پر لاکھوں افراد سفر کر کے اپنا وقت اور پیسہ بچا رہے ہیں۔ لاہور کے بعد میٹرو بس سروس راولپنڈی سے اسلام آباد تک شروع کی گئی ان دو نوں شہروں میں کامیابی اور عوامی مقبولیت کے بعد ملتان میں بھی میٹروبس سروس شروع کر دی گئی ہے جس کا خیر مقدم اہالیان ملتان نے بھرپور انداز میں کیا اور وہ اسے خادم اعلیٰ پنجاب کی طرف سے اپنے لئے ایک تحفہ کی طرح سمجھتے ہیں۔ دانش اسکولوں کا قیام، سرکاری اسکولوں میں مفت نظام تعلیم، پنجاب ایجوکیشنل انڈونمنٹ فنڈز کا اجرا، پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن، پنجاب ایجوکیشن سیکٹر ریفارم پروگرام، پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب اور پنجاب کے 4286مڈل اسکولوں میں آئی ٹی لیب بنائی گئیں تاہم حکومت پنجاب کو ابھی تعلیمی میدان میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے یہ الگ بحث ہے کہ دوسرے صوبوں کی نسبت تعلیم کے شعبہ میں پنجاب کی کارکردگی زیادہ بہتر ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت کے شعبہ میں بھی انقلابی اقدامات میں موبائل ہیلتھ یونٹ اور پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن بنایا یہی نہیں وزیراعلیٰ نے ساہیوال، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور ڈیرہ غازی خان میں چار نئے اور جدید سہولتوں سے آراستہ میڈیکل کالج بنائے اور پنجاب کے تمام سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کو مفت طبی امداد کی فراہمی کے ساتھ ساتھ مفت ادویات فراہم کرنے کا عمل بھی یقینی بنایاجبکہ ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام پر بھی ٹھوس اقدامات کیے گئے جن سے ناقدین کے منہ بند ہو گئے لیکن اس شعبہ میں بھی مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ پنجاب چونکہ زرعی صوبہ ہے اس شعبہ میں بھی کسانوں کو اربوں روپے کی سبسڈی دی گئی تا کہ وہ گزشتہ برسوں کی نسبت زیادہ اور بہتر اہداف حاصل کر کے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں لیکن ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ خادم اعلیٰ پنجاب فصلوں کے لئے استعمال کی جانے والی ادویات، کھاد اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اس حد تک کمی کرنے کا اعلان کریں تا کہ وہ اشیاء کسانوں کی قوت خرید سے باہر نہ چلی جائیں۔ پنجاب کے تمام سرکاری محکموں کی کارکردگی بہتر سے بہتر بنانے کے لئے انفراسٹرکچر ڈیپارٹمنٹ بنایا گیا۔ سوشل ویلفیئر اینڈ ویمن ڈویلپمنٹ کا قیام بھی خادم اعلیٰ پنجاب کی عوام سے دوستی اور محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے جبکہ توانائی کے شعبہ میں بھی خادم اعلیٰ پنجاب کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ساہیوال کے قریب 22ماہ قبل کول پاور پروجیکٹ کا آغاز کیا گیا تھا اس وقت کوئی بھی یہ یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ آئندہ تین برسوں میں یہ منصوبہ ناصر ف مکمل ہو گا بلکہ یہاں سے بجلی بھی پیدا کرنا ممکن ہو جائے گا۔ بہت سے سیاسی مخالفین تو یہاں تک کہہ رہے تھے کہ کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والے اس منصوبہ سے ساہیوال میں ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ کھڑا ہو جائیگا لیکن ماہرین نے ان تمام آراکو مسترد کر دیا اور خادم اعلیٰ پنجاب کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے یہ پروجیکٹ دسمبر2017ء کی بجائے جون 2017ء میں ہی مکمل ہو جائے گا اور یہاں سے 8 سینٹ فی یونٹ کے حساب سے 1320میگاواٹ بجلی پیدا کی جانے لگے گی۔ یہ منصوبہ ہمسایہ اور دوست ملک چین کے تعاون سے مکمل ہوگا چین یہاں سے بجلی پیدا کر کے نیشنل گریڈ کو فراہم کریگا۔ اسی طرح خادم اعلیٰ پنجاب کا ایک اور وعدہ بھی پورا ہو جائیگا۔ لا اینڈ آرڈر کے شعبہ میں بھی خادم اعلیٰ پنجاب نے انتہائی مؤثر اقدامات کیے جن کے نتیجہ میںا سٹریٹ کرائم میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی۔ اربوں روپے کی لاگت سے پنجاب سیف سٹی پروجیکٹ کا آغاز لاہور سے کر دیا گیا ہے۔اور نج لائن ٹرین پروجیکٹ لاہور کو دنیا کے جدید ترین شہروں میں شامل کر دیگا۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ اورنج لائن منصوبہ سال رواں کے آخر تک مکمل کر لیا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ بھی 2013ء کی طرح خادم اعلیٰ پنجاب کا وژن اور ترقیاتی ایجنڈا پنجاب سے مسلم لیگ ن کی کامیابی کی ضمانت ثابت ہوگا اور کیا مسلم لیگ ن وفاق میں چوتھی مرتبہ اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکے گی اس کا فیصلہ 2018ء کے انتخابی نتائج ہی بتائیں گے۔


.
تازہ ترین