• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا ہم کسی دل دکھانے والے سچ کی اذیت سے بچنے کیلئے دلاسہ دینے والے جھوٹ کو آسانی سے قبول کرلیتے ہیں یا ہم میں یہ ہمت ہے کہ ہم زندگی کی کھردری سچائیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا تجزیہ کرسکیں؟ اپنے ملک کے حالات کو سمجھنے کی کوشش میں ایسے سوالات ضرور سر اٹھاتے ہیں۔بدھ کی شام، اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل کے شاندار ہال میں منعقد کی جانے والی تقریب میں ان سوالات کی نادیدہ موجودگی کا مجھے شدت سے احساس رہا۔میری نظر میں یہ تقریب ایک ایسا آئینہ تھی جس میں ہمیں اپنی قومی زندگی کے کئی متضاد اور متصادم حقیقتیں گڈمڈ ہوتی دکھائی دیتی ہوں۔گویا کسی مبہم اور سانس لیتی ہوئی الجھن کو سلجھانے کا معاملہ تھا۔اب میں آپ کو بتائوں کہ میں اپنے کس تجربے کا حال بیان کر رہا ہوں۔ یہ دراصل میاں رضا ربانی کے انگریزی میں لکھے ہوئے افسانوں کی کتاب کی رونمائی تھی، میں نے پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کا اتنا اچھا اجتماع کبھی نہیں دیکھا،شاید خبروں میں آپ نے دیکھ لیا ہو کہ وہاں کون کون موجود تھا۔ یہ گواہی میں دے سکتا ہوں کہ وہ ایک یاد رہ جانے والی شام تھی۔ میرے لئے خاص طور پر کیونکہ میں اس تقریب میں شرکت کیلئے کراچی سے اسلام آباد گیا اور مجھے کتاب کے بارے میں کچھ کہنے اور اپنی کئی باتوں کو دہرانے کا موقع بھی ملا۔پہلے تو یہ کسی حد تک چونکا دینے والی بات ہے کہ میاں رضا ربانی نے کہ جو اس ملک کے چند معتبر سیاست دانوں میں نمایاں ہیں افسانے لکھے ہیں۔پھر یہ دیکھئے کہ انہوں نے ہمیں کن کرداروں سے متعارف کرایا ہے۔ان کے مجموعے کا عنوان ہے ’’ان وزیبل پیپل‘‘ یعنی دکھائی نہ دینے والے لوگوں کو اپنی تقریب کا مہمان خصوصی بھی بنایا۔وہ اس طرح کے اسٹیج پر سجی کرسیاں خالی تھیں۔کیونکہ میاں رضا ربانی نے معاشرے کے غریب، مظلوم اور پسے ہوئے افراد کی کہانیاں لکھی ہیں کہ جن سے ہمارا ملک لبالب بھرا ہے اس لئے انہیں ’’ان وزیبل‘‘ کہنے کی معنویت ہی دراصل قابل توجہ ہے۔یہ وہ لوگ ہیں کہ جو ہر جگہ موجود ہیں لیکن ہمیں یا مراعات یافتہ طبقے کو نظر نہیں آتے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اور فیصلہ سازوں نے ان کے مسائل حل کرنے اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی…کتاب میں شامل درجن بھر کہانیوں میں ظلم، ناانصافی، عدم مساوات اور بدنظمی کی ایک متاثر کرنے والی عکاسی کی گئی ہے۔
اب ایسی کہانیاں ایک ایسا شخص تحریر کرے کہ جو اس وقت پاکستان کے ایوان بالا کا چیئرمین ہے اور ان کہانیوں کا ذکر ایک ایسے ماحول میں ہو کہ جہاں ان کے اپنے کردار داخل نہ ہوسکیں تو ظاہر ہے کہ گفتگو کے کئی پہلو نکلتے ہیں…میں کوئی طنز نہیں کر رہا بلکہ میرا خیال ہے کہ اعلیٰ طبقے کو اس بات پر مجبور کیا جانا چاہئے کہ وہ ایسی کہانیاں پڑھیں اور سنیں اور ان حقائق کا سامنا کریں جو ان کے ضمیر پر دستک دیتے ہیں۔ایک طرح سے یہ اچھی بات ہے کہ یہ کہانیاں انگریزی میں لکھی گئی ہیں۔ویسے زبان کا معاملہ بھی سماجی ناہمواری اور طبقاتی کشمکش کا ایک اظہار ہے۔ایک اور بات کہنے کی یہ ہے کہ میاں رضا ربانی کی کتاب پر اتنی سنجیدہ گفتگو اس لئے جائز ہے کہ اس میں شامل افسانے ایک اچھی تخلیقی کاوش ہیں۔کردار بھی جاندار ہیں اور ان کی کہانیوں میں تجسس اور تعجب کے عناصر بھی شامل ہیں۔ ہاں، ساری فضا دکھ اور مایوسی میں ڈوبی ہوئی ہے۔اپنی اختتامی تقریر میں میاں رضا ربانی نے اس ذہنی اور جذباتی ہیجان کا تذکرہ کیا جس نے ان سے یہ کہانیاں لکھوائیں۔کتاب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے والوں میں افسرا سیاب خٹک، مسعود اشعر، تاج حیدر اور مجاہد بریلوی شامل تھے۔
مستنصر حسین تارڑ کی تقریر بھی کسی نے پڑھی کیونکہ وہ خود وہاں موجود نہ تھے۔صرف کتاب ہی نہیں، میاں رضا ربانی کے ذاتی اور سیاسی سفر کے بارے میں بھی دلچسپ گفتگو ہوئی۔ان عالمی شہرت یافتہ تحریروں کے حوالے بھی دیئے گئے جن میں افتادگان خاک اور ذلتوں کے مارے ہوئے لوگوں کو موضوع بنایا گیا ہے اور ان عوامل کا ذکر کیا جو سماجی تبدیلی کا محرک بن سکتے ہیں۔اس طرح بدھ کی شام کی وہ محفل فکر انگیز بھی تھی اور مجلسی اعتبار سے پرلطف بھی…اس کا اہتمام ’’بک کونسل‘‘ کی جانب سے مظہرالاسلام نے کیا جو خود ایک اہم افسانہ نگار ہیں اور نیشنل بک فائونڈیشن کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
اب میں اپنی بات کروں۔جب میاں رضا ربانی سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوئے تو اس کے کچھ دنوں بعد کراچی میں جاوید اقبال نے ان کے اعزاز میں ایک دعوت کی۔وہاں انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اب افسانے لکھنا شروع کرچکے ہیں۔ یوں ان کی کتاب کی اشاعت میرے لئے کوئی انکشاف نہ تھی، اس کتاب کی ڈمی مجھے یوں پڑھنے کو ملی کہ مجھے اس کے گردپوش پر کچھ لفظ لکھنے کی دعوت دی گئی۔ظاہر ہے کہ یہ عبارت انگریزی میں تھی۔میں نے یہ لکھا کہ یوں تو ہمارے حکمراں صبح، شام عوام کا دم بھرتے ہیں لیکن ان کی زندگی اپنے محافظوں کی قید میں گزرتی ہے اور عام شہریوں سے وہ چھپ کرجیتے ہیں۔میاں رضا ربانی نے اپنے طلائی پنجرے سے باہر نکلنے کی جرات کی اور انہوں نے معاشرے کی پستیوں میں اتر کر نظر نہ آنے والے افراد کی محرومیوں کا مشاہدہ کیا ہے،اور اس طرح ایک بڑا سیاست داں ایک تخلیقی فن کار کی شکل میں ہمارے سامنے آیا ہے…وغیرہ وغیرہ…اور جو تقریر میں نے کی اس کے ایک دو نکات کا ذکر بھی شاید مناسب ہو۔ایک بات تو یہ کہ میاں رضا ربانی نے تو کتاب لکھ دی مگر ہمارے سیاست داں تو بیشتر کتاب پڑھتے تک نہیں، میں سمجھتا ہوں ان کو افسانوی ادب پڑھنا ضروری ہے، اس کے ذریعے ہم ان لوگوں کے خیالات اور احساسات اور مصائب اور مسرتوں کو جان سکتے ہیں جن سے ہم اپنی زندگی میں کبھی نہیں مل سکتے،اس طرح ہم اپنے آپ اور اپنے اطراف کے ماحول کو بہتر سمجھ سکتے ہیں اور یہی ترقی اور تہذیب کی بنیاد ہے اور اسی طرح محبت اور یگانیت کے جذبات فروغ پاتے ہیں،ایک اور بات یہ بھی ہے کہ افسانوی ادب سے ٹھوس سچائیوں کو جاننے میں مدد ملتی ہے۔ تخلیقی فنکار دنیا کی تشریح سیاست دانوں اور تبصرہ نگاروں سے بہتر کرتے ہیں،میں نے مثالیں یہ دیں کہ غالب کے خطوط اور ان کی شاعری سے بہتر ہمیں 1857ء کے آشوب کی کون خبر دے گا یا تقسیم کے وقت جو فسادات ہوئے ان کی دیوانگی کو منٹو سے زیادہ کس نے سمجھا ہے،فیض کی شاعری بھی ایک مثال ہے کہ وہ کتنی خوبصورتی سے ہمارے عہد کے جذبات اور تجربات کی گواہی دیتی ہے۔ (زرد پتوں کا بن، جو مرادیس ہے) اور آخر میں میں نے یہ کہا کہ جب کسی محفل میں پاکستان کی حقیقی صورتحال کو سمجھنے کی بات ہوتی ہے تو میرا مشورہ یہ ہوتا ہے کہ جاکر نچلی عدالتوں کا منظر دیکھو،کسی سرکاری اسپتال میں مریض بن کر جائو،کسی تھانے میں اپنی کوئی شکایت درج کرانے کی کوشش کرو،اور کچھ نہیں تو کسی غریب بستی کی تنگ گلیوں میں چل کر دیکھو،اور یہ سب کچھ نہیں کرسکتے تو میاں رضا ربانی کے افسانے پڑھ لو۔

.
تازہ ترین