• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں مشرف دور میں آزاد میڈیا کس طرح ابھرا؟ کارگل کے بعد بھارت کے نجی ٹی وی چینلز ( جن کا آغاز تقریباً 1995 میں ہوگیا تھا)نے بیک زبان دعوے کرنے شروع کردئیے کہ’’ پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے جس کا ایک ہاتھ ایٹمی ہتھیاروں کے بٹن پر ہے ۔‘‘ان کا جواب دینے کے لئے پاکستان کے ترکش میں صرف پی ٹی وی تھا۔ چنانچہ ریاست نے معقولیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے درست سوچا کہ نجی چینلز سے ہونے والے بھارتی پروپیگنڈے کے مقابلے میں پاکستان کا ریاستی چینل استعمال کرنا درست نہیں،اور نہ ہی یہ موثر ثابت ہوگا۔ چنانچہ ہمیں بھی نجی ٹیلی وژن چینلوں کی ضرورت محسوس ہوئی کیونکہ آزاد ذرائع خبراور تبصرے کی دنیا میں زیادہ ساکھ رکھتے ہیں۔ یہ ماڈل موثر ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ اینکرز ٹی وی اسکرین پر سدا بہار پانی پت آباد رکھتے ہیں۔ سرحد کے دونوں طرف یہی صورت ِحال ہے ۔
زیادہ تر ممالک میں نیشنل سیکورٹی کے معاملے پر طے شدہ اتفاق ِر ائے پایا جاتا ہے ، اور انڈیا بھی ایسے ممالک میں شامل ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں اگرچہ اس بات پرعمومی اتفاق پایا جاتا ہے کہ انڈیا پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے ، اور وہ اپنے مذموم مقاصد کی بجاآوری کے لئے ہمیشہ ہی موقع کی تاک میں رہتا ہے ، لیکن یہاں کچھ آوازیں ایسی ضرور ہیں جو سیکورٹی پالیسی کی ناقد سمجھی جاتی ہیں۔انڈیا کے برعکس پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ریاست کا سب سے طاقتور ادارہ ہے ۔ یہ صرف بیرونی سیکورٹی ہی نہیں، بلکہ داخلی سیکورٹی کے لئے بھی سب سے طاقتور ایجنسی ہے ۔ چنانچہ اس کی فعالیت اور پالیسیاں اس کے شہریوں کی جانوں اور حقوق پر کہیں زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ سول ملٹری عدم توازن اور اس کے جمہوریت ، قانون کی حکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق پر گہرے اثرات پاکستان کو ایک سیکورٹی ریاست کا روپ دیتے ہیں۔
پرائیویٹ الیکٹرونک میڈیا کے ابھرنے سے تنقیدی آوازوںکو مزید مواقع میسر آگئے ۔ پرنٹ میڈیا کی نسبت الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنا بہت آسان نہ تھا۔ سوشل میڈیا ، جو الیکٹرانک میڈیا پر بچھائی جانے والی فکری بساط کا ناقد بھی ہے اور معاون بھی ، کے زور پکڑنے سے ریاست کو درپیش چیلنج مزید مشکل ہوگیا۔ ان تمام معروضات اور تغیر پذیر رجحانات کو دیکھتے ہوئے بھی ریاست کے ذہن میںیہ سوچ موجود ہے کہ جنگجوئوں کی چوتھی اور پانچویں نسل کی موجودگی میں بھی بیانیے کو کنٹرول کرنا اور اسے اپنی منشا سے آگے بڑھانا نیشنل سیکورٹی کے تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہے ۔ تاہم بیانیے کو شکل دینے والا فعال عامل ترغیب نہیں، تشدد ہے۔ اس کا محور اختلاف ِ رائے کو دبانا اور’’سیلف سنسرشپ ‘‘ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے ۔
ہوسکتاہے کہ ہمیں کبھی پتہ نہ چلے کہ ’’صبح کے بھولے۔۔۔‘‘ بلاگرز کا اصل قصور کیا تھا، لیکن یہ تمام سوشل میڈیا صارفین کے لئے ایک بھرپور اور موثر تنبیہ تھی کہ وہ اپنی انگلیوں کو کنٹرول کرنا سیکھیں۔ اس دوران الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے کی پالیسی بھی ارتقا پذیر ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نتیجے پر پہنچاجاچکا ہے کہ تشہیر کے بل روکنے ، نادیدہ ہاتھ کے ذریعے کیبل آپریٹرز پر اثر انداز ہونے ، خفیہ فنڈ استعمال کرنے اورجسمانی تشدد یا نقصان کی دھمکی دینے جیسے عوامل آج کافی نہیں۔ جیو اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے درمیان مبینہ تنازع اور معروف صحافی پر قاتلانہ حملے کے بعد ایسی صورت ِحال سے بچنے کے لئے دوغلط نتیجے نکالے گئے ۔ ایک یہ کہ تنقیدی آوازوں کو سزا دینے کے لئے بہتر ہے کہ میڈیاکی بساط پر اپنے مہرے بٹھا دئیے جائیں جو فری میڈیا کی آڑ میں حریفوں پر حملے کریں۔ یہ حسن ِ انتظام ’’دامن پہ کوئی داغ نہ خنجر پہ کوئی چھینٹ ‘‘ کی سند رکھتا ہے، اور اس کے لئےحب الوطنی اور مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے تو نتائج کے کیا کہنے ! چنانچہ ناقدین اور تشدد کی مخالفت کرنے والوں کی زندگی اجیرن بنانے کا نسخہ ہاتھ آگیا۔ تاہم یہ فعالیت تین مسائل کا باعث بنی۔ ایک یہ کہ لڑائی کے لئے اپنے ’’جنگجو‘‘ میدان میں اتارتے ہوئے ریاست اپنے حریف کھلاڑیوں پر قابو پانے میں کمزورہوتی دکھائی دی۔ جب صدر ٹرمپ سی این این یا نیویارک ٹائمز کو لتاڑتے ہیں تو اس سے حریف میڈیا ہائوسز، جیسا کہ فاکس نیوز یا Brietbart News کی ساکھ بہتر نہیں ہوجاتی اور نہ ہی ٹرمپ عوام کی نظر میں کوئی معقول رہنما قرار پاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ حب الوطنی اورمذہبی تعصب کے درمیان ساجھے داری قائم کرتے ہوئے اُس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انتہا پسندوں کی گردن پر قائم کی گئی گرفت ڈھیلی ہوتی جارہی ہے۔ تیسرا یہ کہ اپنے ہی شہریوں کی طرف سے کی گئی تنقید کو سیکورٹی کا مسئلہ سمجھنا عدم تحفظ کے انتہائی احساس کی غمازی کرتا ہے ۔ کیا ریاست چلانے والے دماغ درحقیقت یہی سوچتے ہیں کہ انتہا پسندوں کے جتھے اور نفرت انگیز تقاریر کرنے والے ، جو شہریوں پر غداری اور توہین ِ مذہب کے الزامات عائد کرنے کے لئے آزاد ہیں، ریاست کے تحفظ کے لئےسود مند ہیں؟
اتنی تنک مزاجی کیوں ہے ؟ کیا یہ عوامی اہمیت اور مفاد کا معاملہ نہیں کہ ریاست ہتھیاروں کی بجائے زیادہ وسائل عوامی فلاح، جیسا کہ صحت ، تعلیم اور روزگار ، کے لئے مختص کرے ؟ کیا یہ کہنا غداری ہے ؟اگرہم پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف اتفاق ِ رائے رکھتے ہیں تو دہشت گردی پھیلانے والے نظریات پر بحث کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی ؟کیا سانپ مارنا اور اس کے بچے کو پالنا عقل مندوں کا شیوہ ہے ؟1644 ء میں ملٹن ، جس نے ’’تصورات کی مارکیٹ ‘‘ کے خیال کی وکالت کی ، نے کہا تھا۔۔۔’’ جاننے کی آزادی، اظہار کی آزادی اور ضمیر کی آواز کے مطابق کھل کر بحث کرنے کی آزادی سب سے بالا تر ہے ۔‘‘اور یہ شاعرانہ التباس نہیں، ایک مضبوط دلیل اسے سہارا دیتی ہے ۔ آج ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے دور میں تصورات کی مارکیٹ بہت وسیع ہوچکی ہے ۔ اس کے سامنے کوئی حدود وقیود نہیں۔ تو پھر کیوں نہ قدغن کی بجائے کتھارسز کی راہ اپنائی جائے؟ اس کے ذریعے گھٹیا خیالات خودبخود خارج ہوکر اپنی موت مرتے جائیں گے جبکہ اعلیٰ خیالات افکار اور تصورات کی صورت قوم کی فکری آبیاری کریں گے ۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ طاقتور دھڑے خود پر تنقید برداشت کرنے کے روادار نہیں۔ تقریر کی آزادی کی تاریخ کے پہلو میں تقریر پر قدغن کے پہرے بھی موجود ہیں۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ تقریر کی آزادی بھی لامتناہی نہیں ہوتی ۔اسٹیورٹ مل اس کا اسکوپ اس طرح بیان کرتے ہیں۔۔۔’’ اس طاقت کو صرف ایک صورت بلاروک ٹوک استعمال کیا جاسکتا ہے جب کسی فرد کے شر سے دیگر شہریوں کو بچانا مقصود ہو۔ ‘‘چونکہ ہم کسی خلا میں نہیں رہتے ، اس لئے ہمارے بنیادی حقوق کے ساتھ دیگر شہریوں کے حقوق بھی جڑے ہوئے ہیں۔ آزادی ِ اظہار بنیادی حق ہے لیکن اس کے ذریعے دیگر شہریوں کی نجی زندگی، آزادی اور جان ومال کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے ۔
اس کی ایک مسخ شدہ شکل نفرت انگیز تقریر ہے ، جس کے نقصانات سے ہم اجنبی نہیں۔ پیمرا ایکٹ کی شق 23 نفرت انگیز تقریر کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہے۔۔۔’’ ایسا کوئی بھی بیان جو تشدد، نفرت یا مذہب ، رنگ ونسل ، جنس، ذات یا جسمانی ساخت کی بنا پر نفرت انگیز امتیاز کو ابھارے ‘‘اس کی ذیلی شقیں، 2 اور 3 کہتی ہیں۔۔۔’’لائسنس حاصل کرنے والا ایسی نشریات نہیں کرے جو نفرت انگیز تقریر کے زمرے میں آتی ہوں، جیسا کہ کسی کو پاکستان کا غدار یا اسلام کا مخالف قرار دینا ہے ۔جب کوئی مہمان ایسی گفتگو کرے تو چینل اور اس کے نمائندوںکے لئے ضروری ہے کہ وہ اسے روک لے ۔ کسی کے پاس کسی دوسرے کو کافر قرار دینے کی اتھارٹی نہیں ۔ ‘‘یہ اس ملک کا قانون ہے ، چنانچہ اس کی اتنی ڈھٹائی سے خلاف ورزی کیوں کی جارہی ہے ؟
آزادی ِ اظہار کی آڑ میں کسی پر جھوٹے الزامات عائد نہیں کیے جاسکتے ، اور نہ ہی نفرت اور تشدد کا پرچار کیا جاسکتا ہے ۔ ہم شہریوں کی عزت اور وقار کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں ہتک ِعزت کا قانون غیر موثر ہے ۔ اگر اس قانون کو موثر بنا دیا جائے تو اس سے میڈیا میں بھی ذمہ داری کا احساس پیدا ہوگا۔ چنانچہ ضروری ہے کہ نیشنل سیکورٹی اور توہین کے قوانین کا بے جا استعمال کرنے کی بجائے ہمیں نفرت انگیز تقریر کا سدباب کرتے ہوئے مہذب دنیا کے ساتھ چلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

.
تازہ ترین