• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گوربا چوف نے حال ہی میں ایک مغربی جریدے میں کالم لکھا ہے جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ دنیا جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے اس نے دنیا کے قائدین سے اپیل کی ہے کہ معاملات کو کنٹرول کریں اور اس نہج تک نہ جانے دیں۔ گوربا چوف کی پالیسیاں سرد جنگ کے خاتمے کا سب سے بڑا محرک تھیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے تین عشروں بعد امریکہ اور اسکے اتحادی یورپی ممالک بھی اب شکست و ریخت کا شکار ہیں ۔ٹرمپ کا صدر بننا اور صدر بننے کے بعد اسکا رویہ امریکہ کے زوال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جب کوئی سپر پاور خاتمے کے قریب ہوتی ہے تو وہ اپنا اقتدار قائم رکھنے کی آخری کوشش میں ایک بڑی خونی جنگ کو جنم دیتی ہے۔تاریخ کا یہ چلن دنیا کے لئے کوئی اچھا پیغام نہیں دے رہا۔
دوسری طرف روس اور چین نئی سپر پاورز کے طور پر ابھر رہے ہیں۔روس سرد جنگ میں شکست کے اثرات سے بتدریج اپنے آپ کو باہر نکال رہا ہے اور سپر پاور کے اپنے پرانے کردار کا ایک دفعہ پھر اعادہ کرتا نظر آ رہا ہے۔ یوکرائن اور شام میں جس طرح روس نے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو کھلم کھلا چیلنج کیا ہے یہ روس کی بین الاقوامی اسٹیج پر دوبار ہ واپسی کی طرف اشارہ ہے۔چین کی اب تک کی پالیسی کے پیچھے دراصل ڈنگ شیائوپنگ کی نصیحت ہے کہ چین کو دوسروں کی توجہ سے بچنے کیلئے عاجزی سے رہنا چاہئے، جنگوں سے احتراز کرنا چاہئے تاکہ ساری توجہ اور توانائی اندرونی اصلاحات پر مرکوز رہے۔لیکن اب شاید چین کے قائدین یہ سوچ رہے ہیں کہ عاجزی اور احتراز کا مقصد پورا ہو چکا، اندرونی معاملات سیدھے ہو چکے او ر اب چین کو کھل کر بین الاقوامی کھیل کھیلنے چاہئیں۔چین جس طریقے سے اپنی عسکری صلاحیتوں کو بڑھا رہا ہے ، اس سے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے کان کھڑے ہو گئے ہیں۔ خصوصاًبحر جنوبی چین میں سمندر کے اندر مصنوعی فوجی جزیروں کی تعمیر سے کشیدگی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کیلئے امریکہ اب اپنے پرانے اتحادی جاپان کو عسکری طور پر مضبوط ہونے کی اجازت دینے پر آمادہ نظر آتا ہے۔دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر ایٹمی ہتھیار گرانے کے بعد سے امریکہ جاپان کے عسکری معاملات کنٹرول کر رہا ہے اور اس وقت سے آج تک امریکہ نے جاپان کو عسکری طور پر مضبوط ہونے کی اجازت نہیں دی۔ لیکن اب پہلی دفعہ مغربی میڈیا میں جاپان کو ایٹمی ہتھیار بنانے کی اجازت دینے کی بات ہو رہی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جاپان کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ اگر وہ ایٹم بم بنانا چاہے تو فوری طور پر بنا سکتا ہے لیکن اب اسے اعلانیہ ایٹم بم بنانے کی اجاز ت کی بات ہو رہی ہے۔یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ جاپان (امریکی اجازت اور اشیرباد سے) دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ مہلک بحری بیڑہ بنا رہا ہے۔ جنگی اور جنونی ماحول میں بین الاقوامی اسٹیج پر جاپان کی عسکری قوت کی واپسی ایک بہت بڑی خبر ہے ۔دوسری جنگ عظیم میں شکست سے پہلے کے دو سو سال کی تاریخ میں جاپان ایک خوفناک فوجی قوت کے طور پر سامنے آیا تھا۔جب انیسویں صدی میں برطانیہ اور روس سپر پاور کے طور پر ایک دوسرے سے برسرِ پیکار تھے، جاپان نے روس کو تاریخ کی بدترین بحری شکست دے کر دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ پھر اسکے بعد جاپان ایک بڑی استعماری قوت کے طور پر سامنے آیا اور مشرقی ایشیا اور چین کو اپنا غلام بنا لیا۔دوسری جنگ عظیم میں بھی جاپان نے امریکہ کو ناکوں چنے چبوائے لیکن ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں امریکہ سے چند قدم پیچھے رہنے کی وجہ سے شکست کھاگیا۔جاپان کی فوجی قوت کی بحالی سے چین میں کافی پریشانی پیدا ہو گئی ہے۔
امریکہ اور روس کی کشیدگی اور جنگ کی صورت میں پاکستان شاید براہ راست متاثر نہ ہو لیکن امریکہ اور چین کی کشیدگی اورجنگ کی صورت کا خمیازہ پاکستان کو براہ راست بھگتنا ہے اسلئے پاکستان کے تزویراتی منصوبہ ساز وں کو اس بارے میں بہت زیادہ توجہ دینی چاہئے۔چند روز پہلے امریکہ کی طرف سے اعلیٰ ترین سطح پر چین کو دھمکی دی گئی تو چین نے بھی غیر رسمی ذرائع سے امریکہ کو آنکھیں دکھائیں۔ لیکن رسمی طور پر چین کے وزیر خارجہ کا یہ بیان سامنے آیا کہ جنگ سے امریکہ اور چین دونوں کا فائدہ نہیں ہو گا۔ جب اعلیٰ ترین سطح پر اس طرح کھل کر جنگ کی بحث چھڑ جائے تو حالات کو خطرناک ہی کہا جا سکتا ہے۔امریکہ چین کا مقابلہ کرنے کیلئے جاپان کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی مضبوط بنا رہا ہے جبکہ چین بھارت کی بڑھتی ہوئی طاقت کا توڑ کرنے کیلئے پاکستان کو’’مضبوط‘‘بنا رہا ہے۔امریکہ اور چین کی کشیدگی کا سب سے بڑا تھیٹر بحرجنوبی چین ہے جہاں امریکہ اور جاپان مل کر چین کا گھیرائو کر رہے ہیں۔چین کی ساری تجارت اور معیشت کا دارومدار اسی سمندر کے تجارتی راستوں پر ہے۔ امریکہ اور جاپان کے اس گھیرائو سے پریشان ہو کر چین اپنے آپ کو متبادل راستوں کے ذریعے یورپ اور مشرق وسطی سے منسلک کرنے کی کوشش میں ہے۔ یورپ کے ساتھ مشرق وسطی کے ممالک کے ذریعے سڑکوں اور ٹرینوں کا جا ل بچھا رہا ہے تو مشرق وسطی کے تیل کے ذخائر تک رسائی کیلئے سی پیک کا منصوبہ تیزی سے مکمل کرنے کی کوشش میں ہے۔ جنگ کی صورت میں بحر جنوبی چین میں امریکہ جاپان کے ساتھ مل کر چین کی سمندری ناکہ بندی کرے گاتو چین کی مشرق وسطی سے سی پیک کے ذریعے تیل کی سپلائی روکنے کیلئے جنگ کہاں منتقل ہوگی؟اس صورت میں امریکہ بھارت کے ذریعے یا براہ راست پاکستان کی سرزمین پر واقع سی پیک کو نشانہ بنائے گاتو پاکستان کے پاس جنگ سے باہر رہنے کیلئے کیا راستہ ہو گا؟اگر چین سی پیک کی حفاظت کیلئے اپنی فوجیں ، طیارے یا بحری بیڑے پاکستانی حدود میں تعینات کرے گا تو کیا وہ پاکستان کے مفاد میں ہو گا؟ وہ جنگ جو چین کی جنگ ہے اور جوچین کی سرزمین پر لڑی جانی چاہئے ،وہ اگر پاکستان کی سرزمین پر لڑی جائے گی تو یہ پاکستان کیلئے اچھا ہو گا یا تباہی کا سبب؟تاریخ کا یہ بھی سبق ہے کہ جب سپر پاورز جنگ کرتی ہیں تو انکے اتحادی مارے جاتے ہیں اور جب وہ جنگ بندی کرتی ہیں تو کمزور اتحادیوںکو آپس میں بانٹ لیتی ہیں۔مشرقی یورپ اور مغربی یورپ کیسے وجود میں آئے تھے؟شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کیسے بنے؟ مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کا وجود کیونکر ہوا؟سلطنت عثمانیہ کتنے حصوں میں تقسیم ہوئی؟ چین کو یورپی اور ایشیائی قوتوں نے کتنے حصوں میں تقسیم کیا؟ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کو ایسے خوفناک انجام سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟ اس حوالے سے پاکستان کیلئے چین کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو قائم رکھنا اور بہتر بنانانہایت اہم ہو سکتا ہے ۔ غیر معمولی حالات غیر معمولی خیالات کا تقاضا کرتے ہیں۔امریکہ اور چین کی خوفناک جنگ سے خود کو بچانے کیلئے کیا پاکستان کو بھارت کے ساتھ اپنی کشیدگی کم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے؟یقینا چین کا مفاد یہ ہو گا کہ امریکہ سے جنگ کی صورت میں پاکستان کو بھارت کے خلاف استعمال کیا جا سکے لیکن اگر پاک بھارت تعلقات بہتر ہو جاتے ہیں تو ایسا کرنا مشکل ہوگا۔پاکستان کو سوچنا چاہئے کہ بھارت سے جنگوں کے وقت کوئی ہماری مدد کو نہیں آیا، کسی نے ہماری خاطر بھارت پر حملہ نہیں کیا تو پھر ہم کسی کی خاطر اپنے آپ کو کیوں تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں؟

.
تازہ ترین