• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان لوگوں کے بارے میں لکھنا کافی مشکل ہوتا ہے جن کو آپ زیادہ جانتے تو نہیں مگر پہچانتے ضرور ہیں۔ بہت سال پہلے کی بات ہے جب آتش جواں تھا اس زمانہ میں ریڈیو کا سننا بھی ایک مشغلہ تھا۔ اس زمانہ میں اشفاق احمد خاں کی ریڈیو پر بہت دھوم تھی۔ انہوں نے اپنے کسی پروگرام میں سفر چین کا ذکر کیا۔ مجھے بھی دنیا دیکھنے کا جنون سا تھا۔ میں نے کسی نہ کسی طرح اشفاق احمد خاں سے رابطہ کرلیا۔ ان سے اردو بورڈ کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی سے تھے۔ میں نے ان سے چین کے سفر کے بارے میں سوال کیا۔ وہ مسکرائے اور بولے۔ میرا خیال تھا کہ آپ کا کوئی کام ہوگا؟ مگر آپ کرتے کیا ہیں؟ ایک طالب علم کیا بتاتا، میں چپ ہی رہا۔ وہ بھانپ سے گئے۔ بولے چین ایک حقیقت ہے اور ایک دن دنیا اس کو مانے گی۔ پھر خاں صاحب نے تفصیل سے اپنے چین کےسفر کا ذکر کیا۔
پھر بہت سال کے بعد لاہور کے ہوائی اڈے پر ان سے ملاقات ہوئی۔ میں اس حیثیت میں تھا کہ ان کی سیوا کر سکتا۔ وہ بیرون ملک جارہے تھے۔ خاں صاحب حافظہ کے معاملہ میں کمال رکھتے تھے۔ میں نے پرانی اور اکلوتی ملاقات کا ذکر کیا تو وہ ایک دفعہ پھر سفر کی داستان سنانےلگے، بانو قدسیہ ان کی ہم سفر تھیں۔ وہ ان سے ایک قدم پیچھے رہتیں۔ وہ ہم دونوں کو سنتی رہیں۔ بس جب وہ جہاز میں بیٹھنے کے لیے جانے لگیں تو اتنا کہا آپ سے مل کر اچھا لگا۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک خاں صاحب سے رابطہ نہ ہوسکا۔ خاں صاحب کی کتابوں تک رسائی میرے محترم اور مہربان جناب نیاز احمد کی وجہ سے رہی۔ جناب نیاز احمد کا اردو ادب میں کتاب شناسی کے حوالہ سے بہت بڑا کردار ہے۔ جناب چوہدری نیاز احمد پاکستان کے بڑے اور باعزت ناشر تھے اور ان کی دھوم ایسی تھی کہ وہ اپنے مصنفوں کو معاوضہ کتاب چھاپنے سے پہلے خود گھر پر جاکر ادا کرتے۔ ان کی اس مروت اور قدر نے اردو ادب میں ایک مثال سی بنا دی ہے۔ ان کے بیٹے اعجاز احمد کتابوں کے ذوق کی وجہ سے ہمارے مہربان اور قدردان تھے۔ ایک دن ان کے پبلیشنگ ہائوس جانا ہوا تو حسب روایت خوب تواضع کے بعد ایک نئی کتاب کا ذکر کہا۔ کتاب کا نام تھا۔ ’’راجہ گدھ‘‘ میں نے کتاب خریدی اور گھر آگیا۔ والدہ محترمہ نے کتاب دیکھی۔ ان کو بھی پڑھنے کا شوق تھا اور مجھ سے پہلے ’’راجہ گدھ‘‘ کا مطالعہ شروع کردیا۔ پھر ایک دن کہنے لگیں ذرا سمجھ کر پڑھنا۔ نہ سمجھ آئے تو اشفاق کا ذکر کرتے ہو، مل لینا۔ اب تو اپنے ہمسائے میں ہیں۔ میں ان کی معلومات پر حیران تھا۔ میں نے خاں صاحب کو فون لگایا اور درخواست کی کہ ’’راجہ گدھ‘‘ پر مصنّفہ کے دستخط چاہتا ہوں۔ وقت اور دن طے ہوا اور میں ان سے ملنے چلا گیا۔
اس دن ان کے ہاں کچھ غیرملکی مہمان آرہے تھے سارا کنبہ خاصا مصروف لگ رہا تھا۔ خاں صاحب نے کتاب لی اور بانو قدسیہ کا انتظار کرنے لگے۔ وہ اک پل کو آئیں اور کہا کتاب کدھر ہے اور کس کا نام لکھنا ہے، میں نے نام بتایا اور وہ کتاب لے کر دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ میں نے اشفاق صاحب سے کتاب کے نظریہ کا ماخذ پوچھ لیا۔ کہنے لگے بھئی مصنفہ سے پوچھو۔ میں نے کہا، ان کے پاس تو آج وقت نہیں، تو کچھ دیر چپ رہے پھر بولے آپ نے حضرت گنج بخشؒ کی کتاب کشف المحجوب پڑھی ہے۔ میں نے کہا جی بالکل پڑھی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ اس میں ایک بزرگ کا ذکر ہے جو بہت اللہ والے تھے، ان کی اولاد ناخلف تھی، وہ کیوں ناخلف ہوئی، اس کی وجہ رزق تھی اور رزق بھی وہ جو آپ کے لیے حلال ہو۔ اتنے میں بانو قدسیہ واپس کمرے میں آچکی تھیں۔ انہوں نے کتاب میرے حوالہ کی، کہ نوکر نے بتایا کہ ان کے مہمان بھی آگئے ہیں اور میں نے اجازت لی۔
میرے دماغ میں اشفاق خاں کا جملہ باربار گونجتا ’’رزق۔ رزق بھی وہ جو حلال ہو! میں کچھ عرصہ کے لیے اپنا پسینہ بیچنے کے لیے بیرون ملک چلا گیا۔ ایک دن میری بیٹی حنا نے، پاکستان سے آنے پر مجھے ایک کتاب دی ’’پیا رنگ کالا‘‘ لکھنے والے محمد یحییٰ خاں تھے۔ کتاب دلچسپ اور حیرتوں کا دبستان تھی۔ مجھے یحییٰ خاں کی تلاش تھی۔ میں نے سوچا پاکستان میں اعجاز احمد سے بات کروں گا۔ ابھی پلان کرہی رہا تھا کہ میرے مہربان پبلشر چوہدری نیازاحمد کے بیٹے ہمارے دوست اعجاز احمد داغ رخصت دے گئے۔ محمد یحییٰ خاں کی تلاش موقوف ہوئی۔
پھر میں واپس پاکستان آگیا۔ اب تک محمد یحییٰ خاں کی دوسری کتاب ’’کاجل کوٹھا‘‘ بہت ہی نفیس گیٹ اپ کے ساتھ بازار میں آچکی تھی۔ ایک دن افضال صاحب نے مجھے اپنے ساتھ کسی جگہ چلنے کو کہا۔ میں ان کا ہم سفر بنا۔ ہماری منزل ماڈل ٹاؤن میں داستان سرائے تھی۔ ہمارا سواگت بانو قدسیہ نے کیا۔ ان کے چہرہ پر تشویش اور پریشانی نمایاں تھی۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگیں۔ خاں صاحب صاحب فراش ہیں۔ کسی سے بھی نہیں ملتے۔ افضال میں دیکھتی ہوں اور ہم ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد نوکر نے افضال صاحب کو کہا آپ آجائیں۔ افضال صاحب نے میری طرف دیکھا۔ میں نےکہا آپ ہی مل آئیں ،مگر تھوڑی ہی دیر کے بعد میرا بلاوا بھی آگیا۔ اشفاق احمد خاں بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ وہ آنکھیں بند کرکے افضال سے بات کر رہے تھے۔ افضال نے میرا تعارف کرایا۔ ’’ہاں مینوں پتا ہیگا‘‘ پھر خاموشی۔ میں نے پوچھ ہی لیا۔ اشفاق صاحب یہ بابا یحییٰ خاں کون ہے۔ ایک لمحہ کو اشفاق صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔ بولے ’’یحییٰ خاں لکھتا خوب ہے۔ ولایت کا باسی ہے۔ گھاٹ گھاٹ کا مسافر ہے۔ اردو ادب کا ستارہ ہے۔ ویسے تو بانو ہی حقیقت حال جانتی ہے۔ وہ اس کی تحریر کو مانتی ہے۔ پھر ہم تم کون پوچھنے والے۔‘‘ میں نے ان سے پوچھا آپ اپنی کتابوں میں سے پسندیدہ کتاب کا بتائیں۔ پھر چپ سے رہے۔ تھوڑی دیر کو بولے۔ تم بتاؤ۔ میں حیران سا تھا۔ سوچا پھر بولا خاں صاحب آپ کی کتاب ’’کھیل تماشا‘‘ کا جواب نہیں۔ انہوں نے ایک لمحہ کے لیے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور بولے اور یہ سارا سنسار بھی تو کھیل تماشا ہی ہے۔
پھر چند دن کے بعد اشفاق خاں بھی پردہ کرگئے۔ پھر ایک دن بابا یحییٰ خان نے اطلاع دی کہ عکسی مفتی کی کتاب ’کاغذ کے گھوڑے‘ کی تقریب مقامی ہوٹل میں ہے، بانو قدسیہ نے بھی آنا ہے۔ بانوقدسیہ سے ملاقات ہوئی۔ خاں صاحب کی جدائی کے بعد بانوقدسیہ کی گفتگو اور طرز زندگی میں صوفیانہ رنگ نمایاں ہوتا نظر آتا تھا۔
چند دن پہلے افضال صاحب کا فون آیا وہ دفتر سے جلد جارہے تھے۔ بتایا بانوقدسیہ بھی رخصتی کا سفر باندھ چکی ہیں۔ ان کی نماز جنازہ کل دوپہر کے بعد ہوگی۔ میرے لیے غم اور دکھ کاوقت تھا کہ بہت ہی اچھا انسان ہماری دنیا سے رخصت ہوگیا ہے۔ جب داستان سرائے سے اس کے مکین کا جنازہ اٹھایا گیا تو ایک عہد کا سفر ختم ہوا۔ بانوقدسیہ کے پڑھنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔
میں بانو قدسیہ کو ذرا ذرا سا جانتا ہوں مگران کی شخصیت کی پہچان ضرور ہے۔ انہوں نے ایک پورا عہد گزارا۔ بانو قدسیہ کا عہد تمام ہوا۔

.
تازہ ترین