• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگلے روز ایک جرمن خاتون پروفیسر کی حیرانی نے حیران کردیا، ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت درست سمت پر چلتے چلتے اچانک گم راہ کیسے ہوگئی؟ ان کا اشارہ فاٹا کو وفاقی کابینہ کے ایجنڈے سے راتوں رات کھسکانے سے متعلق تھا(ہم دل ہی دل میں کہہ گئے یہ تورہبران ملت کا کمالِ ذوق ہے)۔ انہوں نے اپنی ای میل میں جو دلائل دیئے تو من کی دنیا جو ورطہ حیرت میں تھی ، شاداں شاداں رقصاں ہوچلی، ان کا کہنا تھا ’’میرے شوہر ایک پختون ہیں جوبرسوں ہوئے جرمنی آئے تھے، جرمن آرین کی پختون آرین سے شادی کے نتیجے میں پختون تاریخ میرا موضوع بنا۔ میں اور میرے شوہر اس سے آگاہ ہیں کہ اِن دنوں فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کیلئے تحریک چل رہی ہے،۔ آپ پختونوں کو وہ واقعہ یاد دلائیں جب مجاہد آزادی ملا پائوندہ کو انگریزوں کے نمائندے نے ٹانک سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی تو ان زرخرید نمائندوں کا کیا حشر ہوا۔ خاتون کے مطابق ملا پائوندہ کی موت پر نماز جنازہ کے بعد ان کی جو وصیت پڑھ کر سنائی گئی ان میں پختون قوم کو یہی پیغام تھا کہ انگریز کی تقسیم ہرگز قبول نہ کی جائے اور جو بھی وحدت پر تقسیم کو ترجیح دے جان لیا جائے یہ غیروں کا ایجنٹ ہے۔‘‘ ان خیالات سے راقم نے یہ جان لیا کہ فاٹا کے پختونخوا میں انضمام کے مسئلے سے دنیا کے طول و عرض میں آباد پختونوں کی دلچسپی کا کیا عالم ہے۔ ہم نے اس بصیرت افروز یاد دہانی پر پہلی ہی فرصت میں محترم علی خان محسود کی تاریخ ’’پیر روشن سے باچا خان تک‘‘ کی ورق گردانی شروع کردی۔ مصنف نے بھی جرمنی میں ایک جرمن خاتون سے شادی کرلی تھی۔ ان کی کتاب میں صفحہ 341,340 میں یہ وصیت قدرے جدا الفاظ کے ساتھ نقل ہے، تاہم مرکزی خیال یہی ہے جو پروفیسر محترمہ نے بیان کیا ہے۔ کتاب کے مطابق وصیت پر مشتمل یہ خط آج بھی دہلی ارشیف نمبر 1 فارن ڈیپارٹمنٹ سیکشن ایف میں محفوظ ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جب انگریز پختونوں کی وحدت ختم کرنے کی خاطر تقسیم کا فارمولہ بروئے کار لائے اور بعدازاں ایجنسیاں قائم کرنے لگے تو تمام قبائل فرنگی استعمار سے برسرِ جنگ ہوئے۔ ان میں سب سے توانا آواز مردان کے عمرا خان اور وزیرستان کے ملا پائوندہ(ملا پیوندہ) تھے۔ یعنی پختونخوا کے بندوبستی اور آج کے فاٹا کے باشندے ایک پرچم تلے متحد تھے۔ ملا پائوندہ کی تحریک کو ناکام بنانے کے لئے سر ایڈورڈ نے ٹانک کے نواب شاہ نواز خان کو خرید لیا تھا، لیکن جب اسے بھی پختونوں کو تقسیم کرنے میں ناکامی ہوئی تو پھر انگریزوں نے ’’مَلک‘‘ بنا ئے اور ان مَلکوں کے ذریعے حریت پسندوں کو کمزور ولاچار بنانے کا سلسلہ شروع کیا جو آج تک دراز ہے۔ آج جب تمام قبائل اور پورا ملک ایف سی آر اور فرنگی استعمار کے ظلم و استبداد پر مبنی نظام کے خلاف اٹھ کھڑا ہے تو پھر بعض عناصر نواب شاہ نواز اور شاہ شجاع کی یادگار بنے راہ حق میں ایستادہ ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ریفرنڈم کرایا جائے، سوال یہ ہے کہ کیا قبائل ریفرنڈم کے ذریعے پاکستان میں شامل ہوئے تھے کہ اب ان کے پختونخوا میں شمولیت کے لئے ریفرنڈم کا شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ جس آئین کے تحت آپ حقوق حاصل کئے ہوئے ہیں قبائل کو اس آئین سے باہر رکھنےپر بضد ہیں!کہا جاتا ہے قبائل کی رائے لی جائے،تو کیا پارلیمانی لیڈر حاجی شاہ جی گل کی قیادت میں فاٹا کے تمام منتخب نمائندوں، مشران ،تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور زندگی مختلف شعبوں کے نمائندگان کی رائے ، رائے نہیں ، اور رائے وہی ہے جسے آپ کا حُسن کرشمہ سازکرے! ایک محترم کی تو جماعت کا نام ہی پختونخوا ملی عوامی پارٹی ہے اور وہ جس صوبے میں رہتے ہیں اسے بلوچستان نہیں جنوبی پختونخوا کہہ کر پکارتے ہیں، لیکن قبائل کے پختونوں سے کہتے ہیں، نہیں آپ کی آنگوٹھی میں تو انگریز کا نام فاٹا ہی نگینے کی طرح فٹ ہوچکا ہے۔ یہ محترم لر او بریو افغان (افغانستان و پاکستان کے پختون ایک ہیں) کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن مُصر ہیں کہ فاٹا میں رہنے والےعلیحدہ شناخت فاٹا ہی برقرار رکھیں۔ ان کا سلوگن ہے ’چترال سے بولان تک ایک صوبہ پختونخوا یا پختونستان ‘ لیکن اب بلوچستان کے پشتون یہ کہتے ہیں کہ موصوف چترال سے بولان تک ایک صوبہ کیا بنائیں گے کہ وہ تو فاٹا کی پختونخوا میں شمولیت ہی میں روڑے اٹکارہے ہیں ۔ز غوغائے رقیباں کے باوجود مگر فاٹا میں رہنے والوں کا نعرہ مستانہ پختونخوا کے فلک بوس کوہساروں’ تاترہ‘ سے’ ایلم‘ تک گونج رہا ہے ۔ایسے عالم میں نوجوان شکوہ سنج ضرور ہیں کہ جو صاحب کبھی بے نظیر بھٹو، کبھی آصف زرداری، کبھی پرویز مشرف، کبھی نواز شریف یعنی ہر ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں اور بات بات پر مقدس حوالے دیتے ہیں، آج کسی مقدس حوالے کے بغیر ریفرنڈم کا عَلم اُٹھائے ہوئے ہیں۔
فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنانے کی منطق میں یوں جان نہیں کہ آخر اِس صوبے کو کوئی تو نام دیا جائیگا۔ جو لوگ قبائلستان نام تجویز کرتے ہیں، کیا وہ بتاسکتے ہیں کہ قبائل کسی قوم کی نسلی، لسانی، جغرافیائی یا مذہبی شناخت کا نام ہے یا یہ قبیلے کی جمع ہے؟ سندھ میں رہنے والے کیا مختلف قبائل سے تعلق نہیں رکھتے؟ لیکن چونکہ ان کی نسلی، لسانی و جغرافیائی شناخت ایک ہے لہٰذا ان کے صوبے کو سندھ کہا جاتا ہے یہی صورتحال پنجاب اور بلوچستان کی ہے جو مختلف قبائل کا مجموعہ ہیں۔چونکہ تما م صوبے قبیلوں ہی پر مشتمل ہیں تو کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ پنجاب کو قبائلستان 1 سندھ کوقبائلستان 2پختونخوا کو قبائلستان3 بلوچستان کو قبائلستان4اور پھر نوزائیدہ صوبے کو قبائلستان 5کا نام دیا جائے...! بصورت دیگر فاٹا کے پختون قبائل کی صوبہ پختونخوا میں شمولیت پر اعتراض کیوں! راقم ایک خوش گمان طالب علم ہے لیکن یہاں اُن حلقوں کی بدگمانی درست معلوم ہوتی ہے کہ جو کہتے ہیں کہ معترضین کی پوٹلی میں دلائل کا کوئی ’توشہ ‘نہیں، یہ محض کسی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔آپ جانتے ہیں کہ وطن عزیز میں اسٹیٹ ایکٹرز اور نان اسٹیٹ ایکٹر ز کا اکثر غلغلہ رہتا ہے، لیکن جو اصل ’ایکٹرز‘ہیں اور جو سات عشروں سے عوام سے مذاق کررہے ہیں ان کی جانب کسی کی توجہ ہی نہیں جاتی۔کیا یہ مذاق نہیں کہ ایک ریاسست جو اسلامی ہو ، جمہوری ہو اورسب سے بڑھکر اسلام کا قلعہ ہو ، وہاں’علاقہ غیر‘بھی ہو !!اورجب اس علاقہ غیر میں رہنے والے باشعور لوگ آہ وبکا کررہے ہوں کہ نہیں ہم غیر نہیںاپنے ہیں،ہمیں اپنا بنالو، تو جواب آئے نہیں!کہ ،علاقہ غیر ہی تو اِس اسلامی فلاحی مملکت کے ماتھے کا جھومر ہے...نہ جانے اس مزاحیہ ڈرامے کا اختتام کیا ہوگا...



.
تازہ ترین