• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مغربی اخبارات میں پاکستان میں دہشت گردی، بیروزگاری اور غربت کے بارے میں سرخیاںاکثر پڑھنے کو ملتی تھیں لیکن حال ہی میں معروف امریکی اخبار ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں امن و استحکام سے بہتری آنا شروع ہوئی ہے، معیشت بہتر اور جمہوریت مستحکم ہورہی ہے جبکہ غربت میں کمی ہونے سے متوسط طبقے کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ملک میں امن و استحکام اور اشیاء کی خرید و فروخت کے باعث پاکستانی معیشت فروغ پارہی ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مقامی اور بیرونی سرمایہ کاری 100 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے اور PSX پچاس ہزار انڈیکس کی ریکارڈ حد عبور کرچکا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج دنیا میں پانچویں بہترین اسٹاک مارکیٹ قرار دی گئی ہے۔ پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ گزشتہ 8 سال کی بلند ترین سطح 5 فیصد پر پہنچ گئی ہے اور رواں سال 5.4 فیصد متوقع ہے۔ سی پیک کے انفرااسٹرکچر اور توانائی کے منصوبوں کے باعث پاکستانی معاشی ترقی میں اضافہ ہوا ہے۔ بیرون ملک سے پاکستان بھیجی جانے والی ترسیلات زر 20 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جس سے ایک عام آدمی کی قوت خرید میں اضافہ ہوا ہے۔ سوئٹزرلینڈ کی معروف فوڈ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو برونو اولینرہوک نے کہا ہے کہ پاکستان میں مڈل کلاس طبقے کی تعداد میں اضافے کے باعث اس کی گزشتہ 5 سالوں میں سیلز دگنی ہوکر ایک ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی ہے اور دنیا کے چھٹے بڑے 20کروڑ آبادی والے ملک پاکستان میں امن و امان کی بہتر صورتحال، معاشی ترقی اور سیاسی استحکام کے باعث مڈل کلاس اوپر آرہی ہے جس کا اندازہ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی موبائل فونز، موٹر سائیکلز، ٹی وی، ریفریجریٹر، واشنگ مشین اور پرائیویٹ اسکولوں کی طلب میں اضافے سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایک موٹر سائیکل بنانے والی کمپنی کے مطابق اس کی موٹر سائیکل کی سیلز بڑھ کر 20 لاکھ موٹر سائیکل سالانہ تک پہنچ گئی ہے، اس کے علاوہ کئی دیگر چائنیز موٹر سائیکل اسمبلرز بھی پاکستان میں بڑی تعداد میں سستی موٹر سائیکلیں بنارہے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت تقریباً 38 فیصد طبقہ مڈل کلاس اور 4 فیصد اپر (امیر) کلاس سے تعلق رکھتا ہے جس کے حساب سے ملک میں تقریباً 84 ملین لوگ قوت خرید رکھتے ہیں ۔یہ تعداد یورپ کے کسی بھی بڑے ملک جرمنی یا ترکی کی آبادی کے برابر ہے جس کو دیکھتے ہوئے ڈیری پروڈکٹ کی ایک ڈچ کمپنی نے ایک پاکستانی کمپنی کو 461 ملین ڈالر میں خریدا ہے۔ اس کے نئے چیف ایگزیکٹو ہینس لاراکر، نے بھی پاکستان میں بڑھتی ہوئی مڈل کلاس طبقے کو اپنے بزنس کیلئے پرکشش قرار دیا ہے۔ ترکی کی ایک کمپنی نے پاکستان کی ایک ہوم اپلائنسز کمپنی کو 258 ملین ڈالر میں خریدا ہے۔ فرانسیسی گاڑی بنانے کی ایک کمپنی بھی پاکستان میں کار اسمبلنگ پلانٹ لگانا چاہتی ہے جبکہ گاڑیاں بنانے والی ایک کمپنی نے کراچی میں بن قاسم پر 470 ملین ڈالر کا نئی ماڈلز سوزوکی گاڑیاں بنانے کے ایک منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ شنگھائی الیکٹرک پاور نے کے الیکٹرک کے 1.8 ارب ڈالر میں اکثریتی شیئرز لینے کا اعلان کیا ہے اور نئی انتظامیہ اس سلسلے میں متعلقہ حکومتی اداروں سے کلیئرنس لے رہی ہے۔حال ہی میں چینی کنسوریشم جس میں چین کے 3 بڑے اسٹاک ایکسچینج شنگھائی، شین ژن اور چائنا فیوچر ایکسچینج شامل ہیں، نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے 40 فیصد حصص خریدلئے اور ان کے نمائندے PSX کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہوگئے ہیں جس نے عالمی کیپٹل مارکیٹ میں ایک مثبت پیغام بھیجا ہے۔چینی کنسوریشمPSX میں نئی سرمایہ کاری، انتظامی مہارت، ٹیکنالوجی اور نئے پروڈکٹس متعارف کرائے گا جس سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری میں مزید اضافہ ہوگا۔ ان حالات میں حکومت کو چاہئے کہ ملک میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو فروغ دے کر ایکسپورٹ میں اضافہ کرے۔ ملک میں نئی ملازمتیں پیدا کرنے سے غربت میں مزید کمی لائی جاسکتی ہے۔
حال ہی میں انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر جنیوا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر آرانچا گونزالیس جن کا عالمی ٹریڈ میں ایک نہایت اہم کردار ہے،نے ملک کے ممتاز بزنس مینوں اور چیمبر و فیڈریشن کے نمائندوں سے گورنر ہائوس سندھ میں ایک ملاقات کی جس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، ٹی ڈیپ کے سی ای او ایس ایم منیر، فیڈریشن کے صدر زبیر طفیل، کراچی چیمبر کے صدر شمیم فرپو اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جنیوا میں پاکستان کے مستقل سفیر ڈاکٹر سید توقیر شاہ نے شرکت کی جبکہ اس اہم میٹنگ میں مجھے اور میرے بھائی اشتیاق بیگ کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ میٹنگ کا مقصد پاکستان کو عالمی تجارت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے ملکی ایکسپورٹس میں اضافہ کرنا تھا۔ عالمی ٹریڈ سینٹر کی نگرانی میں SMEs اکیڈمی چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے بہترین ٹریننگ سینٹر ہے۔ میں نے آرانچا گونزالیس جنہوں نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران وزیراعظم نواز شریف سے بھی ملاقات کی تھی،کو بتایا کہ دنیا میں 80 فیصد ملازمتیںایس ایم ایز سیکٹر فراہم کرتا ہے لیکن پاکستان میں یہ سیکٹر فروغ نہیں پاسکا۔ ملک میں ملازمتوں کیلئے ہمیں وینڈر انڈسٹریز کی ضرورت ہے جبکہ اس وقت ملک میں صرف ایک آٹو موبائل سیکٹر کی وینڈر انڈسٹری ہے۔ آئی ٹی سی کی ڈائریکٹر نے پاکستان سے ایس ایم ایز سیکٹر میں دلچسپی رکھنے والوں کو اپنی SMEsاکیڈمی سے ٹریننگ دینے کی پیشکش کی ہے جس کیلئے جنیوا میں پاکستان کے مشن اور کراچی میں ٹرانس فریٹ کارپوریشن (Transfreight Corporation) کے منیجنگ ڈائریکٹر بابر اے بادات سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر میری اپنے ایکسپورٹرز اور ایس ایم ایز سیکٹر کے صنعتکاروں سے درخواست ہے کہ وہ ایکسپورٹ اور ایس ایم ایز سیکٹر کے فروغ کیلئے آئی ٹی سی کی خدمات سے فائدہ اٹھائیں۔ دنیا میں معاشی تعاون اور ترقی کے ادارے OECD نے پیش گوئی کی ہے کہ 2030ء تک دنیا میں دو تہائی مڈل کلاس طبقہ ایشیاء سے ہوگا جبکہ اس دوران امریکہ اور یورپ میں مڈل کلاس طبقے میں کمی آئے گی۔ امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال امریکی قرضوں میں 1.4 کھرب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جو 20 کھرب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں جس میں سب سے زیادہ قرضے جاپان اور دوسرے نمبر پر چین سے لئے گئے ہیں۔ امریکی ارب پتی کارلائل گروپ کے بانی ڈیوڈ رونچائن نے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی امریکی معیشت کی تباہی کی طرف اشارہ ہے جس سے امریکی قرضوں میں بے پناہ اضافہ ہوسکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ قومی پیداوار کی شرح بڑھانے کیلئے ٹیکسوں میں کمی کرسکتے ہیں جس کیلئے انہیں بھاری قرضے لینا پڑیں گے۔ امریکہ پاکستانی ٹیکسٹائل کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے لیکن آنے والے وقت میں حالیہ امریکی پابندیوں کے باعث پاکستان کی امریکہ کو ایکسپورٹس میں کمی آسکتی ہے۔ اس بدلتی ہوئی صورتحال اور سی پیک منصوبوں سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھانے کیلئے پاکستان کو اپنے کارڈز نہایت عقلمندی سے کھیلنے ہوں گے اور امریکہ سے محاذ آرائی کے بغیر ہمیں اپنے ملک اور خطے کی معاشی ترقی کیلئے چین، روس اور ایران کے ساتھ اپنا نیا بلاک تشکیل دے کر افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر بنانے ہوں گے۔

.
تازہ ترین