• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ راقم کا غریب خانہ دفعتاً بجلی کی فراہمی سے محروم ہو گیا اول تو یہ گمان کیا کہ شاید لوڈ شیڈنگ اس کا سبب ہے مگر گلی میں دیگر گھروں سے چھنتی روشنی نے اس گمان کی تردید کر ڈالی معاملہ صاف تھا کہ بجلی کے تعطل کی وجہ کسی داخلی سبب سے ہے اب مرحلہ الیکٹریشن کو بلانے کا تھا بہر حال تھوڑی دیر میں الیکٹریشن آن موجود ہوا اور نقص کو تلاش کر نے لگا مگر نقص کو تلاش کرتے ہوئے جب کبھی بازو کو بلند کرتا تو چہرے پر ایک کرب کے آثار نمودار ہو جاتے۔ ہاتھ کو نیچے کرتا تو کچھ پر سکون دکھائی دیتا۔ بار بار کے اس عمل نے مجھے متجسس کر ڈالا۔ آخر رہا نہ گیا اور پوچھ ہی لیا کہ بازو بلند کرنے سے آخر تکلیف کا احساس کیوں چہرے پر صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ کوئی تکلیف ہے کیا۔ بولا کلائیوں اور ٹخنوں میں گزشتہ 2برسوں سے درد ہے۔ اتنے پیسے ہی نہیں کہ کسی ہڈیوں کے ڈاکٹر کو دکھا سکوں۔ درد ہے آخر کیوں؟ یار آپ تو جوان آدمی ہیں بھلا اس عمر میں جوڑوں کی تکلیف؟۔ استاد کو جوڑوں کی تکلیف نہیں پولیس نے یہ کر ڈالا ہے۔میں الیکٹریشن کو حیرت سے تکنے لگا ۔ مگر آپ تو ہاتھ سے کمانے والے فرد، پولیس کا تشدد وہ بھی اتنا۔ آخر جرم کیا تھا؟ جرم کرب آمیز مسکراہٹ جھلملاتے آنسوئوں کو لئے اس کے چہرے پر رقص کرنے لگی۔ جرم بے بسی تھا اس نے جواب دیا۔ چھوڑیئے اس سب کو وہ اپنے کام میں مشغول ہونے لگا۔ مگر میرا اضطراب بہت بڑھ چکا تھا۔ میں بولا چھوڑو یار کام کو ، آخر تمہارے ساتھ ہوا کیا تھا۔ الیکٹریشن بولا 2 برس قبل رمضان کی مبارک ساعتیں تھیں۔ میں ایک محلے کے چوک میں افطار کے بعد بیٹھا بارہ ٹہنیں کھیل رہا تھا۔ کہ دفعتاً میرے ساتھ کے کھلاڑی بھاگ کھڑے ہوئے۔
میں اس سے ابھی حیران ہی ہو رہا تھا کہ ایک زور دار لات مجھ کو رسید کر دی گئی۔ بچائو کرتے ہوئے میں نے بھی حملہ آور پر جوابی چوٹ کی مگر تشدد کرتے شخص کا چہرہ چاند کی روشنی میں واضح ہوا تو پہچان لیا کہ یہ تو اس محلے میں رہائش پذیر پولیس کا ملازم ہے۔ یہ مجھے کیوں مارنے لگا۔ میں حیران تھا۔ اس نے مجھے چھوڑتے ہوئے کہا تجھے ایسا مزہ چکھائوں گا کہ بھولے گا نہیں۔ یہ کہتے ہوئے الیکٹریشن کی نظریں اپنی کلائیوں پر گڑھ گئیں۔ پتہ چلا کہ کچھ دن قبل اس نے یہاں کھڑے ہونے سے منع کیا تھا۔ مجھے معلوم ہوتا تو ہرگز جرات نہ کرتا۔ لاعلمی میں اس کی دشمنی مول لے لی۔ کوئی تین دن بعد سحری سے کچھ قبل پولیس میرے گھر کو پھلانگ گئی۔ تشدد کرتے ہوئے لیجانے لگی تو میری ضعیف ماں نے روتے ہوئے پوچھا کہ اس غریب کا قصور کیا ہے۔ ڈکیت ہے ڈکیت مجھے گھسیٹتے ہوئے پولیس والا دھاڑا۔ گھر والوں کو تین دن علم ہی نہ ہو سکا کہ میں کہاں ہوں۔ جس پولیس والے سے غلط فہمی میں لڑائی ہوئی تھی اس کے ایک پیٹی بھائی کے رحم و کرم پر تھا۔ تھانے لائے اور رسیوں اور ڈنڈوں سے باندھ کر میرے پائوں کے تلوے آسمان کی جانب بلند کر دیئے۔ اور پھر تلوں ، ٹخنوں اور کلائیوں پر ڈنڈوں کی بارش کر دی۔ شدت درد اور بے بسی کے احساس سے شکایت بھی نہ کر سکتا کہ جواب میں صرف تضحیک آمیزقہقہے اور غلیظ ترین گالیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ کوئی ایک ہفتے پولیس کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوا۔ اور پھر جیسے تیسے ادھ موا ہوا چھوڑ دیا گیا۔ نہ کوئی پرچہ کٹا اور نہ ہی کہیں گرفتاری کا اندراج ہوا۔ بس تشدد اور ذلت۔ اب آنسو لڑیوں کی مانند اس کے گالوں پر بہہ رہے تھے۔ رہا ہونے کے بعد آپ نے حکام بالا کو کیوں شکایت نہیں کی۔ میں نے سوال کر ڈالا۔ حکام بالا؟ جناب میرے پائوں میں جوتی نہیں تھی۔ میری بات کون سنتا۔ جب گرفتار ہوا تو جیب میں صرف 3 روپے کے سکے تھے اور پریشان تھا کہ صبح بچے کیلئے دودھ کہاں سے لائوں گا۔ گرفتاری کے بعد میرا بچہ تین دن چینی ملا پانی پی کر جیتا رہا۔ شکایت کے چکر میں دیہاڑی سے جاتا اور کچہریوں کے چکر کاٹتا۔ ہاتھ کچھ نہ آتا۔
میری شکایت صرف قادر مطلق کے دربار میں ہے وہی حساب لےگا۔ اذیت چہرے پر نمایاں تھی۔ تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ کچھ دن قبل جرمنی کی خاتون سفیر میرے گھر ملاقات کی غرض سے تشریف لائیں۔ مقامی تھانے کی پولیس بھی ساتھ تھی۔ ایک پولیس ملازم میرے بھائی کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور دکھڑے رونے لگا۔ کہ جن حالات میں ہم فرائض کی بجا آوری کر رہے ہیں تصور نہیں کیا جا سکتا۔ 24، 24 گھنٹے مستقل ڈیوٹی اور پھر ذرا سی دیر میں افسران ذلیل کر کے رکھ دیتے ہیں۔ میں ایک روپے کا روا دار نہیں مگر کچھ دنوں قبل موبائل کے ٹائر خراب ہو گئے۔ افسران بالا نے حکم دیا کہ اگلے 4گھنٹوں میں یہ موبائل سڑک پر ہونی چاہیے۔ عرض کیا کہ جناب ٹائر کہاں سے لائیں۔ جواب ملا بکواس بند کرو۔ جو کہا ہے وہ کرو۔ لمحوں میں سب کے سامنے تذلیل کر کے رکھ دیا۔ پھر کسی سے ٹائر ’’ڈلوائے‘‘۔ اب پولیس نے کرپٹ ہونا ہی ہے۔ وارڈن پر قانونی برادری سے وابستہ چند افراد قانون سے ماورا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے تشدد کر رہے تھے۔ اور پھر چند لمحوں میں نعروں کی گونج میں رہا بھی ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ جس کو موقع ملتا ہے وہ دوسرے کو نوچنے سے بازکیوں نہیں رہتا۔ آخر مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ بالکل واضح ہے کہ پاکستان میں طبقاتی فرق بہت واضح ہے۔ جو فیصلہ ساز طبقہ ہے اس کو ان مسائل کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑتا۔ عوام ہو ۔ پولیس ہو یا دیگر سرکاری ادارے۔ ان سب میں طبقاتی فرق نمایاں ہے۔ افسر شاہی میں ایک اعلیٰ افسران کا طبقہ ہے وہ اپنے ماتحت عملے کو اپنے جیسا انسان تصور کرنے کیلئے تیار ہی نہیں تو بھلا کسی کی مار سے کیوں بچائے گا۔ پھر اس سب کا حل کیا ہے۔ اس سب کا حل صرف ایک ہی ہے کہ اس بدبودار ادارہ جاتی نظام سے جان چھڑا لی جائے۔

.
تازہ ترین