• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گیارہ سالہ حمزہ پاکستان سپر لیگ کے شروع ہونے کا بےتابی سے انتظار کرتے ہوئے گھرمیں بڑی اسکرین لگانے، دوستوں کو مدعو کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھا، کم عمری میں کرکٹ سے دیوانگی کی حد تک لگاؤ خوش کن تھا لیکن حیران کن کسی طور بھی نہیں تھا اور ہوتا بھی کیوں نہیں کرکٹ اب قومی کھیل اور ہر چھوٹے بڑے کے دل پر راج کر رہی ہے لیکن بدقسمتی سےدہشت گردی کےعفریت نے پاک زمین سے عالمی کرکٹ کا منہ موڑ دیا پھر برسوں کی تنہائی کے سفر کے بعد گزشتہ سال پی سی بی نے پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد کا بیڑا اٹھایا اور پورا سال ملک بھرمیں نیا ٹیلنٹ تلاش کر کے ان کی تربیت کی اور اس سال پھر پی ایس ایل کرانے کا قوم کے سر سہرا سجایا، خیر حمزہ کی ڈیمانڈ پر ٹورنامنٹ دیکھنے کی تیاری مکمل ہوئی، ابھی ابتدائی میچز ہوئے تھے کہ بعض کھلاڑیوں کے بکیوں سے رابطوں کے بارےمیں تباہ کن خبر آگئی، حمزہ نے اچانک حواس باختہ ہو کر پریشانی کےعالم میں پہلے اپنے دادا اور پھر گھر کے ہر بڑے سے پوچھا کہ ہمارے کھلاڑی پیسے کیلئےخود کو بیچتے ہیں؟ کیا ان میں محنت سے جیتنے یا ہار جانے کا ہمت وحوصلہ نہیں یا ’’ضمیر‘‘ بےچارہ ہی مر چکا ہے؟ سب مہر بلب تھے، ٹی وی اسکرین روشن تھی اور سب دیکھنے والوں کے چہرے سیاہی میں ڈوبے ہوئے، جواب نہ پاکر حمزہ پھر بولا یہ کھلاڑی تو قوم کے ہیرو ہوتے ہیں، قوم کی عزت ناموس اور توقیر کے محافظ اور عظمت کا مینار ہوتے ہیں، ہار بھی جائیں تو داد و تحسین اور انعام و اکرام کےحقدار ٹھہرتے ہیں، ان کے حوصلوں کوبلند رکھنے کے لئے ہمیشہ انہیں عزت دی جاتی ہے، پھر قوم وطن کی عزت کو یہ کیسے نیلام کرتے ہیں؟ کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے کے شوق اور جنون کی حد تک جذباتی لگاؤ رکھنے والے بچے کو مجروح ہوتے ارمانوں اور جذبات کےسیل رواں میں سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ ہم وطنوں اور پرچم ستارہ و ہلال کی بےحرمتی پر سوالوں سے موجزن غبار دل کس پر الٹا دے، بپھرتے جذبات کا اظہار کیسے کرے، منطقی انجام جاننے کے لئے کس کا گریبان پکڑے؟ میں خود ایک کمسن کےچبھتے سوالات پر نظر چراتے سوچ رہا تھا کہ ہم کیسی قوم بن چکے ہیں کہ ذاتی مفاد پر سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں جی ہاں سب کچھ، ملک میں ہر سطح پر ہونے والی کرپشن، بدانتظامی، دھوکہ دہی، جھوٹ، فریب، غلط بیانی، سفارش، رشوت اور دوسروں کا حق مارنے جیسے ’’کارناموں‘‘ کو برائی سمجھتے ہی نہیں، انتہائی خطرناک بات تو یہ ہے کہ بڑے سے بڑا آدمی اپنی ترقی و خوشحالی اور بڑائی کے لئے دوسرے کو نیچا دکھانے سمیت ملک و قوم کی عزت داؤ پر لگانے میں سبقت لے جانے کے لئے کوشاں رہتا ہے، بدعنوانی میں لتھڑے معاشرے پر مشتمل اس ملک کے چار ستونوں کے کرتا دھرتا کا حال ہی دیکھ لیں، عالی شان رہائش گاہوں، بڑی بڑی چمکتی دمکتی نئے ماڈلز کی گاڑیوں، پرتعیش رہن سہن، جدت کے پہناووں اور ان کی نسل کےچال چلن و انداز حب الوطنی اور غریب و متوسط طبقے سے ’’بےلوث محبت‘‘ کے جذبوں اور رویوں کو روز روشن کی طرح عیاں کر رہا ہے، معاشرے کی بہتری و ترقی کے سفر میں ہم کس مقام پر کھڑے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ بدعنوانی اور برائی کی روک تھام کے ادارے خود کو قاعدے قانون سے ماورا اور کسی بھی تحقیق و تفتیش کےعمل سے مبرا سمجھتے ہیں، یہی نہیں قومی سیاسی قیادت پر کسی الزام کی تحقیقات کی کوشش بھی گویا اپنا سر دیوار سے بلکہ کسی بیٹ یا وکٹ سے پھوڑنے کے مترادف ہے۔ یہ ادارے و افراد سچ لکھنے اور بولنے والے صحافیوں کو نفرت اور دشمنی کا نشانہ اس لئے بناتے ہیں کہ حقائق و شواہد کو بےنقاب نہ کریں، غلطیوں کو اجاگر کرنے کی بجائے پردہ پوشی کریں، ایسے میں بعض صحافی خود کو کبھی بے چارگی و دبائو اور کبھی لالچ میں آکر اپنی ذمہ داریوں سے روح گردانی کر گزرتے ہیں، یہ سب بلاشبہ شرمناک ہی نہیں معاشرے کے لئے نقصان اور تباہی کا آئینہ دار بھی ہے، لیکن معاشرے کا صحت مند اور مثبت چہرہ دکھانے والے کھلاڑی جن پر محض اچھی پرفامنس دکھانے کے سوا کوئی دبائو نہیں ہوتا جب ایسا عمل کریں جس کی ان کو داد و عیش کی بجائے لعن طعن اور قوم کے طیش کا سامنا کرنا پڑے تو حاصل کیا ہے؟ دراصل یہی قوم کی بربادی اور زوال کی حقیقی نشانی ہے کہ معاشرے میں اصول وضوابط کی سمجھ اور عمل کا فقدان، اچھے برے کی تمیز، سزا وجزا اور انصاف کی فراہمی جیسے بنیادی حقوق و اصولوں کی پامالی اور سچ سے انحراف عام ہو جاتا ہے۔ مسرت وشادمانی کاسبب بننے والے کھلاڑی اپنے منہ سے پیسے لے کر ہارنے کا اعتراف کریں تو عوام کے دلوں میں محبتوں کی بجائے نفرتوں کا راج ہو جاتا ہے، ایک مارشل آرٹ کےسابق چیمپئن برما نژاد پاکستانی کا حالیہ اعتراف اس کی تازہ مثال ہے۔
قارئین کرامؒ پی ایس ایل کی کامیابی کی خوشی ہے لیکن دل بوجھل ہے کہ دبئی کےمیدان میں قوم کی آنکھوں میں اپنی ’’پرفارمنس‘‘ سے دھول جھونک کر ارمانوں کا خون کرنے والے کرکٹرز کا ذکر کن الفاظ میں کیا جائے، جو کسی اور ملک کےخلاف نہیں اپنے ہم وطن کھلاڑیوں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں، ابھی چند سال پہلے کرکٹ کے میدان میں قوم کی دعاؤں اور امیدوں کے سامنے بکیوں کے ہاتھ ’’بک‘‘ جانے والے سپوت اقبال جرم، معمولی سزا، قوم سے ’’معافی‘‘ اور سفارش اور طاقت کےبل بوتے پر پھر قومی ٹیم کاحصہ بن گئے اور ماہرین کی رائےمیں یہی غیر فطری و عدم انصاف کے تقاضوں پر مبنی فیصلہ ہی موجودہ میچ فکسنگ کے ’’سانحہ‘‘ کی بنیادی و بڑی وجہ ہے، بلاشبہ بھارت سمیت کئی ملکوں میں بھی ایسے واقعات ہوئے لیکن ’’بھرپور ایکشن‘‘ کےبعد اس کو دہرانے کی کسی میں ہمت نہیں ہوئی۔ کاش پاکستانی کھلاڑیوں کو بھی بھیانک حرکت پر ایسی عبرتناک سزا دی جاتی کہ سبق آموز مثال بن جاتی، پھر کوئی کھلاڑی اس کا تصور کرتے ہوئے بھی کانپتا، لیکن بقول غالب ’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہرخواہش پر دم نکلے‘۔ ایسا کیوں، کیسے اور کون کر سکتا ہے؟ بھلا قُوم کی یہ خواہش کیسے پوری ہو سکتی ہے؟ کہ جس ملک میں حکمران طبقہ و اشرافیہ حد نگاہ مالی کرپشن میں ڈوبے نظر آتے ہوں وہاں پاکستان میں کرکٹ کو آباد کرنے والوں کو حوصلہ کون دے گا؟ سال میں ایک دفعہ منعقد ہونے والی سپر لیگ میں کرپشن کے اصل کرداروں اور کٹھ پتلی کھلاڑیوں کا احتساب کون کرے گا؟ محب وطن سوچتے ہیں کہ کاش یہ الزامات غلط ثابت ہوں کرکٹ کی بحال ہوتی ’’عزت‘‘ بچ جائے اور حرص کے اندھے کنویں میں گرنے کی بجائے اچھی کرکٹ کھیلی جائے کیونکہ ٹرافی تو بہرحال پاکستان ہی آنی ہے ۔

.
تازہ ترین