• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فرنگی نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو اس کی وحدت ختم کرنے کی خاطر اس نے تقریباً چھ سو ریاستیں قائم کیں، جہاں راجائوں، مہاراجائوں، نوابوں اور شہزادوں کی حکومتیں تھیں۔ بعض ریاستیں تو اس قدر وسیع و عریض تھیں کہ انہیں علیحدہ مملکت قرار دیا جاسکتا تھا، جیسا کہ حیدر آباد دکن۔ جب برطانیہ نے ہندوستان سے واپس جانے کا فیصلہ کیا تو ریاستوں کے الحاق سے متعلق تین جون 1947 کا اعلان غیر واضح تھا، اس میں کہا گیا تھا کہ ’’وہ اقتدار اعلیٰ (Paramouncy) جو ریاستوں نے حکومت برطانیہ کو اپنی رضا سے منتقل کیا تھا، اب یہ اقتدار اعلیٰ حکومت برطانیہ سے واپس ریاستوں کو منتقل ہو جائے گا۔‘‘ ریاستوں کے والیوں اور عوام کو یہ پتہ نہیں تھا کہ ریاستیں کس طرح الحاق کریں گی۔ کانگریس کی پالیسی یہ تھی کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ریاستی عوام کریں جبکہ مسلم لیگ یہ اختیار ریاستی حکمراں کو دینے کی خواہاں تھی۔ خیر انتہائی کم عرصے میں سردارولبھ بھائی پٹیل(ریاستی امور کے وزیر) اور لارڈ مائونٹ بیٹن کے گٹھ جوڑ سے تین کے ماسوا تمام ریاستوں نے بھارت سے الحاق کر لیا۔ یہ تین ریاستیں حیدرآباد دکن، جونا گڑھ، اور کشمیر تھیں۔ مشکل امر یہ تھا کہ حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کے نواب اگرچہ مسلمان تھے لیکن آبادی ہندو تھی جبکہ کشمیر کا حکمراں اگرچہ مہاراجہ ہری سنگھ تھا مگر غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ تاہم دلچسپ بات یہ تھی کہ مہاراجہ بھارت کے ساتھ یوں نہیں جاسکتے تھے کہ انہیں پتہ تھا کہ ایسی صورت میں پھر حکمرانی سے ہاتھ دھونے پڑیں گے، دیگر کے علاوہ یہ وجہ بھی تھی کہ مہاراجہ کانگریس مخالف تھا، یہاں تک کہ شیخ عبداللہ کی گرفتاری کیخلاف جون 1946میں جب نہرو نے کشمیر جانے کی کوشش کی تو اُنہیں کشمیر میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ تاہم دوسری طرف مہاراجہ کو نوازئیدہ مسلمان مملکت میں بھی تحفظ کا یقین نہیں تھا، اس لئے وہ لیت ولعل سے کام لیتا رہا تاکہ کشمیر کو خود مختار حیثیت دی جائے۔ 22 اکتوبر 1947 کے واقعہ کو برطانیہ نے کشمیر پر حملہ قرار دیا۔ اس سلسلے میں لارڈ مائونٹ بیٹن کے سیکرٹری جانسن نے اپنی کتاب (Mission with Mount Batten میں  یوں  لکھا ہے’’لارڈ مائونٹ بیٹن، جواہر لعل نہرو کی دعوت میں شریک تھے جہاں مجاہدین کے حملے کی اطلاع ملی، تو فوری اگلے روز اجلاس ہوا جس میں کہا گیا (الزام لگایا گیا) کہ یہ حملہ چونکہ پاکستان کی منشا کے تحت ہوا ہے اس لئے مہاراجہ اگر چاہے تو ہندوستان اس کی مدد کرے گا مگر شرط یہ ہوگی کہ ایسی صورت میں مہاراجہ کو ہندوستان کے ساتھ عارضی الحاق کرنا ہوگا۔ برطانوی نمائندوں کا اصرار تھا کہ حالات معمول پر آنے کے بعد عبوری حکومت کے تحت ریاستی عوام کی جو آرا ہوگی اسی کے مطابق الحاق کا حتمی فیصلہ ہوگا۔‘‘ چنانچہ ریاستوں کے سیکرٹری وی پی مینن کے توسط سے اس فیصلے پر عملدرآمد یوں کیا گیا کہ 27 اکتوبر1947 کو بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کردیں، یہی نہیں کہ عارضی الحاق کے نام پر جو قبضہ کر لیا گیا تھا وہ آج تک برقرار ہے بلکہ بعد ازاں بھارت خود اس مسئلے کو اقوام متحدہ لے گیا۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ جہاں بھارت نے رات کے اندھیرے میں وار کیا تو وہاں ہم نے بھی دن کےاُجالے میں فاش غلطیاں کیں۔ یہ ایک تاریخی مغالطہ ہے کہ پختون قبائل نے سری نگر پر قبضہ کرلیا تھا، قبائل تو بارہ مولا سے آگے جاہی نہیں سکے تھے، بارہ مولا اور سری نگر کے درمیان میدانی علاقہ ہے، قبائل میدانی علاقوں میں لڑنے کا تجربہ نہیں رکھتے۔ سری نگر پر قبضہ اصل مجاہدین و کشمیریوں نے کیا تھا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن قبائلی لشکر کے ایک بڑے حصے نےایسا نامناسب طرز عمل اپنایا جس کی یادیں آج بھی کشمیریوں کو دکھ دیتی ہیں۔ یہاں تک کے ممتاز مسلم لیگی رہنما پیر صاحب مانکی شریف امین الحسنات بھی ایسے واقعات پررنجیدہ ہوئے تھے۔ ریکارڈ کی درستی کیلئے یہ بھی یاد رہے کہ آزاد کشمیر پاک فوج اورکشمیریوں نے آزاد کرایا تھا ۔سوال یہ بھی ہے کہ اگر سب کچھ قبائل ہی نے کیا تھا تو پھر وہ کشمیر ی کہاں تھےجو تقسیم ہند کے وقت اپنی دھرتی ماں سے لپٹ گئے تھے اور جن کی نسلیں آج تک خون کا نذرانہ پیش کررہی ہیں۔بلاشبہ پختون قبائل نے سکند راعظم سے لیکر فرنگی استعمار تک ہر غاصب کو شکست سے دوچار کیا ،اور پشتو کے عظیم شاعر غنی خان کے مطابق اس خطے کے ہر درے میں ان کے خون کے نشان موجو د ہیں لیکن کشمیر کے حوالے سے کشمیریو ں کی قربانی کو کسی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھانا تاریخی جبر قرار پائےگا۔ گورنر سرحد سر جارج کنگھم کا کہنا ہے کہ میں نے جب جناح صاحب سے بات کی کہ کشمیر پر حملہ دولت مشترکہ کے دو ملکوں کے درمیان سخت مشکلات پیدا کردے گا ، تو جناح صاحب نے جواب دیا، مجھے حملے کا علم نہیں تھا۔ اب جارج کنگھم کی بات کہاں تک درست ہے! اس سے قطع نظر عرض یہ کرنا ہے کہ قبائل کی جدوجہد نے اگر ہمیں نقصان نہیں پہنچایا ہے تو اس سے ہم حاصل بھی کچھ نہیں کرسکے ہیں۔ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد کی حکومت نے جیسے کشمیر کے مسئلے کو لپیٹ ہی لیا تھا۔ کشمیر پر لیاقت علی خان اور امریکہ کے اختلافات پیدا ہوگئے تھے اُن کی شہادت کے بعد یہ اختلافات ختم کرنے کیلئے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے امریکہ کا دورہ کیا تھا جس کے متعلق امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ایچی سن اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں’’ظفراللہ نے کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا، دراصل غلام محمد کی حکومت امریکہ کے مزید قریب آنا چاہتی ہے‘‘ پھر 1955میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو آئین میں شامل کرلیا لیکن ہم آج تک کشمیر کو ایسا کوئی اسٹیٹس نہیں دے سکے، یہاں تک کہ گلگت بلتستان بھی اس لئے آئینی حقوق سے محروم ہے کہ ہمارا مقصود استصواب رائے کے موقع پر یہاں کے باشندوں کےووٹ ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم حق پر ہیں اور طاقت کے کسی بھی پیمانے میں  بھارت سے کم نہیں، تو پھر واضح پالیسی اپنانے سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟ مزید یہ کہ کیا وجہ ہے کہ برحق موقف رکھنے کے باوجود چین سمیت کوئی بھی ہمارا دوست و برادر ملک اس سلسلے میں ہمارا اس طرح ساتھ نہیں دیتا جوحل کے لئے ناگزیر ہے۔ غیروں کے کردار سے قطع نظر اہل وفا کاولولہ تازہ مگر یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستانی ریاست و عوام کی رائے ایک اور دو ٹوک ہے اور کشمیر کی آزادی کا قرض ریاست پر واجب الادا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے حکمراں اس قرض کی ادائیگی کے لئے کب اور کونسی قابل حل پالیسی اپناتےہیں۔



.
تازہ ترین