• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صحیح یا غلط کی بحث میں پڑے بغیر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ہاتھوں اور زبانوں کو قوم کی ترجمانی کا اختیار حاصل ہو چکا ہے، قومی، اخلاقی اور مطلوبہ معیاری پہلوئوں کے ترازو میں اس آزادی کو کیسے طرز فکر اور طرز عمل سے برتا جا رہا ہے اس پہ تبصرے سے بھی پر جل سکتے ہیں۔ اب صرف ’’طاقت‘‘ ہی وہ طریقہ ہے جس کے استعمال سے ملک اور معاشرہ اس ’’آزادی‘‘ کی ’’دست برد‘‘ سے بچایا جا سکتا ہے، چنانچہ جو کچھ ہم نے کہنا ہے اسے یہ برادری ایک عاجز اور درد مند پاکستانی کی جانب سے ’’رحم کی اپیل‘‘ سمجھتے ہوئے اس پر غور و فکر کیلئے اپنے وقت کا کچھ حصہ ضرور نکالے، ’’بات کا تعلق چند روز قبل ’’پٹھان کوٹ دہشت گردی‘‘ کے واقعہ سے ہے۔ بھارت اور عالمی برادری پاکستان کی جانب آہستہ آہستہ بڑھ رہے ہیں۔ دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں، لہٰذا دونوں جانب جو لوگ ’’بم مار دیں گے‘‘ کی بڑھکیں لگا کر اپنا سودا بیچنے کی کوشش کرتے ہیں وہ دفاعی توازن سے محروم ہیں یا چالبازی سے کام لے رہے ہیں، یہ طرز عمل دونوں ملکوں کا انجام کر کے رکھ دے گا، بھارت اور عالمی برادری کے پاس ایسے واضح آپشنز موجود ہیں جن کا استعمال ہمیں اپنے بچوں کے لئےدوائیوں تک سے محروم کر سکتا ہے۔ شجاعت اور پاگل پن کے درمیان دانش مندی کی برکت نعمت خداوندی ہے، ہمیں کفران نعمت کے بجائے اس سے فیض رسانی کا کام لے کر ’’پٹھان کوٹ‘‘ کے واقعہ پر عرق ریزی اور جرأت مندانہ حکمت عملی کے ساتھ بھارت اور عالمی برادری کے سامنے اپنے جوابی دلائل بمعہ ثبوت رکھنے چاہئیں جس کیلئے پاکستان کے قومی میڈیا کو ’’بھارت کی سازشوں‘‘کے بارے میں واقعاتی ترتیب کے ساتھ چارج شیٹ مشتہر اور نشر کرنی چاہئے، محض طولانی الزام تراشیوں کا کاروبار فی الفور بند کر کے اس ’’اصل کام‘‘ پر اپنی کلی صلاحیتوں اور وسائل کو بروئے کار لائیں!
پاکستان میں دہشت گردی، ملک کو تیندوے کی طرح اپنے پنجوں میں جکڑ چکی ہے۔ حالات اور واقعات کے تناظر میں یہ افسوس ناک ماحول وسیع، گہرا اور طویل ہوتا چلا گیا تاآنکہ دنیا بھر کے دہشت گرد افراد اور گروہوں نے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے آمد کیلئے اپنا ’’رن وے‘‘ بنا لیا جس کے بعد بالآخر افواج پاکستان کو عملاً اس جنگ میں آخری حد تک کودنا پڑا۔
تین ہزار کے قریب جوانوں کی شہادتوں اور مجموعی طور پر 50ہزار شہیدوں کا لہو اس دہشت گردی کی قربان گاہ پر قربان کرنا پڑا۔ یہ دہشت گردی کراچی میں موجود سماجی اور سیاسی غنڈہ گردی کیلئے ایسی بارودی کمک کی شکل اختیار کر گئی جس کے نتیجے میں پاکستان کی اقتصادی شہ رگ شعلوں کی وادی میں ڈھلنے لگی، یہاں پھر افواج پاکستان کی قیادت نے بلند ترین وژن اور موثر ترین عملیت کے ساتھ غنڈہ گردی، دہشت گردی اور ابتری کی آگ میں گھرے کراچی کو نجات دلائی، وہ پُر امن اور سحر انگیز کراچی جواب محض خواب بن کے رہ گیا تھا، ایک بار پھر اس خواب کی تعبیر بن کے سامنے آنے لگا ہے! کہنے کا مقصد اپنے اہل قلم، صحافتی مبصرین اور ٹی وی اینکر پرسن کو معاملات کی سنگینی کی مقدار کا صحیح معنوں میں اندازہ کرنے کی یاد دہانی کراناہے، اس لئے کہ اب پاکستان عالمی سازشوں کا نرغہ توڑنے اور اس سے نکلنے کی شاید آخری جنگ لڑ رہا ہے، ہمیں اس میں اپنی بقا کیلئے بہر صورت فتح یاب ہونا ہے۔(انشاء اللہ)
ڈیرہ غازی خاں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک بہت ہی جانباز جیالے حاجی رحیم آصف مجددی نے وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف کو نہایت سوزو کرب سے اپنے علاقوں کے دکھوں کی کتھا سنائی ہے، ہمارے خاکسارانہ کالم کو ’’وسیلہ‘‘ بناتے ہوئے حاجی مجددی صاحب کا جناب شہباز شریف سے کہنا ہے:۔
جیسا کہ آپ بخوبی آگاہ ہیں، ڈیرہ غازی خاں دریائے سندھ (انڈس ریور) کے ویسٹ بینک پر آباد ہے یہاں ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی حکومت کے بعد کسی میگا پروجیکٹ کی بنیاد نہیں رکھی گئی۔ گزشتہ دور صدارت میں جیل روڈ سے جام پور تک کی درمیانی سڑک بند کر دی گئی تھی، یہاں سے مریضوں کو ملتان اور لاہور بھیجنے کی مجبوریوں نے ہماری زندگیاں خراب کر رکھی ہیں، علاقے میں غربت اور جہالت اس پہ مستزاد ہے۔ ہیپاٹائٹس اور کینسر کی بیماریاں اِدھر عام ہیں۔ گزرے 30برسوں سے علاقے میں گردوں کی بیماری بہت زیادہ پھیل چکی ہے۔ یہاں بے نظیر بھٹو انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس فار یورالوجی تعمیر ہونا تھا جس کیلئے ہم نے بہت محنت کی لیکن سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ، لغاری گیلانی قبائلی اور سیاسی کشمکش کے باعث اس انسٹیٹیوٹ کے قیام میں رکاوٹ بن گئے اور یہ منصوبہ پروان نہ چڑھ سکا۔
جناب والا! ڈیرہ غازی خاں ماڈل بازار سینٹرل جیل کے جنوب میں قیمتی ترین اراضی پر بنایا گیا تھا، وہ ناکام و نامراد ہو چکا ہے۔ اب ’’جی ٹی ایس اڈے اور ورکشاپ‘‘ میں یہی ایکسرسائز دہرائی جا رہی ہے۔ یہ زمین بڑی قیمتی اور شہر کے دل میں واقع ہے۔ یہاں اگر ہوم اکنامکس کالج یا فاطمہ جناح یونیورسٹی راولپنڈی کا کیمپس بن جائے تو ڈیرہ غازی خاں کی طالبات کیلئے ایک گرانقدر تحفہ ہو گا۔ آپ نے اپنے گزشتہ دور وزارت اعلیٰ میں اس اراضی پر خواتین کے پارک کا وعدہ کیا تھا جو ابھی تک شرمندہ تکمیل ہے۔ ہم ڈیرہ غازی خاں کے باشندے آپ سے ملتمس ہیں کہ بجائے پارک کے ہمارے لئے کیمپس کا قیام ہماری بچیوں کا مستقبل محفوظ کر سکتا ہے۔ دوسرے بے نظیر بھٹو شہید انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز برائے یورالوجی کی 34کنال زمین کی فروخت کا اسیکنڈل ہر خاص و عام کی زبان پر ہے، آپ اس جعلسازی کی شفاف تحقیقات کرا کے ایسے ’’قومی مجرموں‘‘ کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں اور اپنے میرٹ کی تاریخ میں ایک اور روشن باب کا اضافہ کریں۔ تیسرے آپ سے مزید استدعا ہے کہ شمالی بلوچستان اور ڈیرہ غازی خاں ضلع جس میںراجن پور بھی شامل ہے کیلئے امراض قلب کا اسپتال بنوا دیں، آپ نے شب و روز واقعی عوامی فلاح و بہبود کے مشن میں اپنی جان کھپا دی ہے، ہم بھی آپ کی جانب سے اس کارخیر کا یقین رکھتے ہیں۔ عوام کے دکھوں میں آپ کی شرکت آپ کو دنیاوی لحاظ ہی سے نہیں اخلاقی لحاظ سے بھی بہترین قومی پوزیشن میں لا کھڑا کرے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے صاحبزادہ صاحب کا قصہ درد ختم ہوا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی صوبائی مانیٹرنگ سسٹم نہایت موثر اور بروقت ہے۔ ہمارا قیاس ہے، صاحبزادہ صاحب کے علاقے ڈیرہ غازی خاں کے یہ دو تین بنیادی انسانی مسائل جن کے باعث یہاں کے باشندے مصائب و اذیت سے دوچار رہتے ہیں واقعی حل ہو جائیں، وزیر اعلیٰ پنجاب کا عوامی خدمت کا ریکارڈ بہرطور ایک زمانے کے نزدیک درست اور تسلیم شدہ ہے!
تازہ ترین