• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاشقند سینٹرل ایشیا کے ملک ازبکستان کا کیپٹل اور سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کی تاریخ و ثقافت اور ورثے کی دھوم چہار دانگ عالم میں ہے اور سیاح جوق در جوق کھنچے چلے آتے ہیں۔ مگر آج تاشقند کا ذکر میں کسی اور حوالے سےکرنے جا رہا ہوں۔ آج سے ٹھیک پچاس برس پہلے کا تاشقند، جو اس وقت سوویت یونین کا ایک شہر تھا اور وسط ایشیا کی ریاستیں ہنوز آزاد نہیں ہوئی تھیں۔ جہاں 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے مابعد معاملات کو سلجھانے کیلئے دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات کا انعقاد ہوا تھا۔ پاکستانی وفد کی قیادت صدر ایوب خان کر رہے تھے اور بھارتی وفد وزیراعظم لال بہادر شاستری کی سربراہی میں آیا تھا۔ 3جنوری 1966ءکو دونوں وفود کا تاشقند پہنچنے پر عظیم الشان استقبال ہوا تھا۔ 4جنوری کو مذاکرات کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ میزبانی کی روسی پیشکش پاکستان کیلئے اچھنبے کی بات تھی، وہ تو اس کارخیر کیلئے مغرب کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہاں سے سلسلہ جنبانی نہ ہوا تو روس کی پیشکش قبول کرنا پڑی۔ تاشقند مذاکرات کوئی آسان کام نہیں تھا دو متحارب ممالک پاکستان اور ہندوستان جو ابھی ابھی ایک بڑی جنگ سے فارغ ہوئے تھے، کے مابین مذاکرات کا ڈول ڈالنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ یہ بلاشبہ ماسکو ڈپلومیسی کا امتحان تھا جس میں روسی قیادت سرخرو ٹھہری۔کانفرنس کے انتظامات لاجواب تھے صدر ایوب اور وزیراعظم شاستری کو الگ الگ بنگلوں میں ٹھہرایا گیا تھا جن کے درمیان ایک نیوٹرل بنگلہ تھا جو دونوں سربراہوں اور ان کے وفود کے مابین ملاقاتوں کیلئے استعمال ہونا تھا۔ وفود کی رہائش دوسری جگہ پر تھی۔ فضا میں کھنچائو تھا، جسے کم کرنے بلکہ خوشگوار بنانے میں میزبان وزیراعظم کوسیگن اور ان کی ٹیم نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ سربراہان کے مابین بات چیت تو تہذیب اور شائستگی کی حدود میں رہی، مگر ان کے وزرائے خارجہ کو اکثر سرد و گرم ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔ وجہ ظاہر ہے اول تو ان کو زیادہ تفصیل اور گہرائی میں جا کر بات کرنا پڑتی تھی، دوسرے مزاجوں کا بھی اثر تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور سورن سنگھ کی معرکہ آرائیاں اس سے پہلے بھی ہوتی رہی تھیں اور میزبان وزیر خارجہ گرومیکو بھی مزاج کے زیادہ نرم نہیں تھے ایسے میں گاہے بگاہے فضا کا تلخ ہو جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ لیکن اسے نارمل کرنے بلکہ خوشگوار بنانے کے مواقع بھی پیدا ہوتے رہے اور ماحول کا تکدر قہقہوں کی نذر ہوتا رہا۔دنیا بھر سے پانچ سوسے زائد الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے صحافی اس اہم تاریخی کانفرنس کی کوریج کیلئے تاشقند میں موجود تھے۔ افتتاحی اجلاس سے پیشتر فوٹو سیشن ہوا جس میں ٹی وی کیمرے بھی موجود تھے۔ صدر ایوب اور وزیراعظم شاستری مصافحہ کر رہے تھے، ایک طرف چھ فٹ سے نکلتا ہوا وجیہ جرنیل اور دوسری طرف چار فٹ سے کچھ ہی زائد دھان پان وزیراعظم ہند۔ ایک کیمرہ مین کو نہ جانے کیا سوجھی، یکایک چلایا، جناب وزیراعظم کھڑے ہوجایئے۔ تو وزیراعظم بولے بھائی! میں تو پہلے ہی کھڑا ہوں۔ اس پر زبردست قہقہہ پڑا جس میں مہمان اور میزبان سب ہی شامل تھے، اور یوں افتتاحی اجلاس اور فوٹو سیشن کی ٹینشن لمحہ بھر میں ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ کانفرنس کے تیسرے روز بھٹو اور سورن سنگھ کے مابین مذاکرات ہوئے، میزبان وزیرخارجہ گرومیکو بھی موجود تھے، شام کو وزیراعظم کوسیگن آئے تو مذاکرات کی طوالت اور تلخی کی وجہ سے بھٹو بدمزہ سے تھے۔ کوسیگن بولے ’’لگتا ہے بھارتی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات کچھ اچھی نہیں رہی،‘‘ بھٹو مسکرادیئے۔ پھر گرومیکو کی طرف دیکھ کر کرسیگن بولے۔ ’’ہمارے وزیر خارجہ کا چہرہ بھی اترا ہوا ہے۔‘‘ گرومیکو نے کہا نہیں جناب! ایسی کوئی بات نہیں، میں تو بہت خوش ہوں اور میری خوشی بلاوجہ بھی نہیں، آج شام پاکستانی دوست ہماری دعوت کر رہے ہیں۔ سنا ہے کہ ایک سے ایک بڑھیا باورچی ساتھ لائے ہیں۔ میں نے تو آج دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا تاکہ رات کو پاکستانی ڈشوں کے ساتھ انصاف کر سکوں۔ لیکن قسمت گرومیکو کے ساتھ نہیں تھی۔ اسی شام وزیراعظم کوسیگن کے ہمراہ ہندوستانی وفد کے ساتھ مذاکرات میں کچھ ایسے الجھے کہ وقت کا ہوش نہ رہا، ایک گھنٹے سے بھی زائد لیٹ ہوگئے، اور ان کی آمد تک پاکستانی کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبو باقی مہمانوں کے صبر کا امتحان لیتی رہی۔فریقین کے موقف میں بعدالمشرقین کی وجہ سے کسی قسم کے معاہدے کی توقع دم توڑ رہی تھی۔ وزیراعظم کوسیگن صورتحال سے خاصے پریشان تھے۔ ایسے میں 10جنوری کی شام ایک ثقافتی پروگرام ترتیب دیا گیا۔ کوسیگن کے دائیں جانب شاستری اور بائیں جانب ایوب خان کی نشست تھی۔ مقامی ازبک فنکار نہایت مہارت کے ساتھ اردو اور ہندی زبان میں مزے مزے کے چٹکلے چھوڑ رہے تھے اور مقبول عام گیتوں پر پرفارم کر رہے تھے۔ وزیراعظم کوسیگن تفریح کے ان لمحات میں بھی ایوب خان اور شاستری کو رام کرنے میں لگے رہے، کہ بے نتیجہ کانفرنس کسی کے مفاد میں نہیں ہوگی، بلکہ خوفناک تباہی کا پیش خیمہ ہوگی۔ تینوں اس کھسر پھسر میں مصروف تھے کہ ایک ازبک فنکار نے شاستری جی کی طرف اشارہ کر کے اس زمانے کا مشہور ہندی گیت ’’کیا کروں میں، مجھے بڈھا مل گیا‘‘ گانا شروع کر دیا۔ مجمع لوٹ پوٹ ہو گیا، سب کا ہنسی کے مارے برا حال تھا، جس میں ایوب خان اور شاستری بھی شامل تھے۔ جب ایوب خان نے کوسیگن کو اس کا مفہوم سمجھایا تو وہ بھی محظوظ ہوئے۔ شاید وہ لمحہ برف کے پگھلنے کا تھا، کوسیگن کی محنت رنگ لے آئی اور سمجھوتے کی امید بندھی۔وہ موقع تھا کہ شاستری جی نے اپنی موت سے صرف دس گھنٹے پہلے زندگی کی سب سے بڑی شاہ مات چلی، جس کی نظیر سفارتی دنیا میں مشکل سے ملے گی۔ ایوب خان کو ایک کونے میں لے گئے۔ وہی ایوب خان، جو حقارت سے انہیں بال برابر شاستری کہا کرتا تھا، اور التجا کے انداز میں کہا کہ معاملہ ایک ایسے مقام پرآکر اٹک گیا ہے، جہاں سے صرف تدبر ’’ایوبی ہی اسے آگے لیجا سکتا ہے۔ استفسار پر کہا، ’’دیکھیں مسٹر پریذیڈنٹ بھگوان نے آپ کو بہت عزت دی ہے۔ آپ صدر مملکت ہی نہیں، فیلڈ مارشل بھی ہیں۔ پاکستان کی سیاست، سپاہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں آپ کا طوطی بولتا ہے۔ کس کی مجال ہے کہ آپ کے سامنے دم مارے؟ دوسری جانب میرا تو بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ہے۔ یہ کانگریسی تو پہلے ہی میرے وزیراعظم بننے پر تپے بیٹھے ہیں اور یہاں بھی ہر روز دھمکی آمیز سندیسے بھیجتے ہیں۔ سواگر میں کوئی چوک کر بیٹھا، تو میری تو وہ تکہ بوٹی کردیں گے۔ آپ بادشاہ ہیں، آپ کو کس نے پوچھنا ہے؟ ڈیڈلاک ختم کیجئے اور معاملے کو آگے بڑھایئے۔‘‘ مسمی صورت وزیراعظم ہند کے منت ترلے پر ایوب خان کی تو بانچھیں کھل گئیں۔ فرمایا ’’نو پرابلم، مسٹر پرائم منسٹر میں آپ کی مدد ضرور کروں گا۔‘‘ اور پھر تاشقند معاہدہ طے پا گیا۔
تازہ ترین