• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2016 ءکا سال کچھ اس طرح شروع ہوا کہ پاکستان گرد و پیش کے کچھ معاملات کی وجہ سے دبائو میں نظر آنے لگا ہے۔ اس بات پر تو زیادہ اختلاف نہیں کہ مجموعی طور پر2015ءحکومتی حوالے سے ایک اچھا سال تھا۔ اس سال پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ پاکستان نے افغانستان اور بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے عمل میں بھی اچھی خاصی پیش رفت کی۔ وزیراعظم اور آرمی چیف نے کابل کا دورہ کیا۔ افغانستان کے صدر بھی پاکستان آئے۔ دونوں ملکوں کے درمیان دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تعاون بہتر بنانے پر بھی اتفاق رائے ہوا۔ دوسری طرف بھارت کے اندر اٹھنے والی انتہا پسندی کی لہر اور بہار کے انتخابات میں شکست نے وزیراعظم نریندر مودی کو بھی نرم رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ دو طرفہ مذاکرات کے حوالے سے بھارت نے پہلے تو انتہائی جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا لیکن پاکستان نے بھی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ اس پر پیرس میں نریندر مودی نے وزیراعظم نواز شریف سے صرف دو ڈھائی منٹ کی ایک غیر رسمی ملاقات کی جس کے فوراً بعد برف تیزی سے پگھلنے لگی۔ پہلے تو بنکاک میں دونوں ممالک کے سیکورٹی ایڈوائزر کی ملاقات ہوئی۔ پھر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج پاکستان آئیں اور اپنی شہرت کے برعکس کافی میٹھی میٹھی باتیں کیں۔ طے پایا کہ اب دونوں ممالک کے درمیان کشمیر سمیت تمام حل طلب معاملات پر مذاکرات ہوں گے۔ پھر ایک حیرت انگیز واقعہ ہوا کہ نریندر مودی کابل سے وطن واپس جاتے ہوئے اچانک لاہور آ گئے۔ انہوں نے رائیونڈ جا کر وزیراعظم نواز شریف کو سالگرہ کی مبارکباد پیش کی اور تین چار گھنٹے وہاں گزارے۔ پھر یہ بھی طے پاگیا کہ رواں مہینے کی پندرہ تاریخ کو دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہو گی۔ان واقعات سے یوں لگا جیسے بھارت اور پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ نے حکمت و تدبر کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ افغانستان کے ساتھ بھی بہتر مفاہمت کی وجہ سے پاکستان میں خاصا استحکام دکھائی دینے لگا۔لیکن 2016شروع ہوتے ہی پے در پے دو تین واقعات نے سارا منظر بدل ڈالا۔ پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے پر دہشت گردی کی ایک پراسرار واردات ہوئی۔ بھارتی میڈیا نے سوچے سمجھے بغیر اپنی توپوں کے رخ پاکستان کی طرف موڑ دئیے۔ وزیراعظم مودی اور ان کے وزراء کا رویہ شروع شروع میں تو قدرے محتاط رہا لیکن پھر بلی تھیلے سے باہر آنے لگی۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کا تعلق پاکستان سے تھا اور ایک کالعدم جہادی گروپ ان کی سرپرستی کر رہا تھا۔ ایک آدھ دن کے وقفے سے افغانستان کے شہر مزار شریف میں بھارتی قونصل خانہ بھی دہشت گردوں کا نشانہ بنا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے 2015ءکے آخر تک جو سازگار ماحول بنا تھا، وہ خراب ہو گیا۔اب وزرائے خارجہ کی ملاقات بھی غیر یقینی نظر آنے لگی ہےاور پاک بھارت جامع مذاکرات کا عمل بھی ایک بار پھر مشکوک ہو گیا ہے۔بی بی سی سمیت عالمی میڈیا نے پٹھان کوٹ کی واردات اور دہشت گردوں کے خلاف سیکورٹی فورسز کی کارروائی پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ بیان کئے گئے واقعہ کی کئی کڑیاں آپس میں نہیں ملتیں۔ اس سب کچھ کے باوجود بھارت ہمیشہ کی طرح سارا زور یہ ثابت کرنے پر لگا رہا ہے کہ یہ کارروائی پاکستان نے کی۔ وہ دنیا کو یہ بھی باور کرانے کی کوشش کرے گا کہ سارا منصوبہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے بنایا۔ پاکستان ہمیشہ کی طرح ٹھوس شواہد مانگے گا جو فراہم نہیں کئے جائیں گے لیکن شور شرابہ جاری رہے گا۔ اسی طرح مزار شریف کی واردات کا ملبہ بھی پاکستان کے سر ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔پاکستان کے خارجی محاذ پر ایک اور مسئلہ بھی پیدا ہو گیا اور وہ ہے سعودی عرب اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی۔ ایک شیعہ عالم کی سزائے موت کا شدید ردعمل ایران میں ہوا جہاں سعودی قونصل خانے کو نذر آتش کر دیا گیا۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفیروں کو نکال دیا اور سفارتی تعلقات منقطع کر لئے۔ اب ایک ایک کر کے کئی دوسرے ممالک بھی ایران سے سفارتی رشتے ختم یا کمزور کر رہے ہیں۔ تند و تیز بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے اور تلخی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
برادر دوست ملک نے پاکستان کو نئے 34ملکی اتحاد میں شامل کر رکھا ہے۔ اس اتحاد کی تفصیلات پوری طرح منظر عام پر نہیں آ سکیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان قریبی دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔ ان تعلقات کی جڑ یں ہمارے مذہبی، ثقافتی اور تاریخی رشتوں میں پیوست ہیں۔ حرمین شریفین کی وجہ سے پاکستان کے عوام سعودی عرب سے گہری محبت کرتے ہیں۔ سعودی عرب نے آزمائش اور ضرورت کی ہر گھڑی میں پاکستان کی مدد کی۔ اگرچہ یمن کے معاملے کی وجہ سے تھوڑی سی دوریاں پیدا ہوئیں لیکن پاکستان نے واضح کر دیا کہ وہ سعودی سرزمین پر کوئی آنچ نہیں آنے دے گا اور اس کے چپے چپے کی حفاظت کرے گا۔پاکستان نے ایران کے ساتھ بھی اچھے پڑوسیوں جیسے تعلقات کو ہمیشہ بڑی اہمیت دی ہے۔ اگر کوئی اونچ نیچ آئی بھی تو معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کر لیا گیا۔ اب جب کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان شدید تلخی پیدا ہوئی ہے تو پاکستان بھی خود کو بہت مشکل میں محسوس کرنے لگا ہے۔ہمارے برادر ملک کی خواہش ہو گی کہ ایک دیرینہ دوست کی حیثیت سے پاکستان پوری طرح اس کے ساتھ کھڑا ہو جائے اور بعض مبصرین کی رائے میں عرب وزیر خارجہ اسی طرح کی سوچ لے کر یہاں آئے ہونگے۔ ادھر ایران یہ چاہے گا کہ پاکستان اگر اس کاساتھ نہ دے تو کم از کم غیر جانبدارانہ انداز اپنائے۔ یہ ایک مشکل صورتحال ہے۔ چونتیس ملکی اتحاد کا حصہ رہتے ہوئے غیر جانبداری برقرار رکھنا آسان نہیں۔ پاکستان کی کوشش تو یہی ہے کہ وہ سعودی عرب ایران تنازع میں ایک ثالث کا کردار ادا کرے اور ترکی انڈونیشیاء وغیرہ کے ساتھ مل کر آگ پر پانی ڈالے لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہو گا؟
2015ءکے مقابلے میں 2016ءخارجہ محاذ پر یقیناً مشکلات کا سال بن کر آیا ہے۔ بھارت اور افغانستان سے معاملات کو بدستور ٹھیک کرنے کے لئے پھر سے محنت کرنا پڑے گی۔ اسی طرح سعودی عرب اور ایران کی کشمکش بھی ایک بڑا امتحان ہے جو وزیراعظم نواز شریف کو درپیش ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس امتحان سے کس طرح گزرتے ہیں۔اب تک انہوں نے داخلی اور خارجہ محاذوں پر تدبّراور ٹھہرائو کا مظاہرہ کیا ہے۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ملکی سیاسی اور عسکری قیادت کی مشاورت اور پارلیمنٹ کی رہنمائی میں یہ مشکل مرحلہ بھی کامیابی سے طے کر لیں گے۔
تازہ ترین