• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بدھ کے روز پشاور، مہمند ایجنسی اور چارسدہ میں یکے بعد دیگرے چار خودکش بمباروں کی طرف سے دھماکوں کے واقعات نے دہشت گردی کے جس نئی لہر کی نشاندہی کی اس کا کچھ نہ کچھ اندازہ تو اسی وقت ہورہا تھا جب بھارت سے آنے والے بعض بیانات میں پاک چائنا اکنامک کاریڈور کو ہر قیمت پر سبوتاژ کرنے کے مذموم عزائم کا اظہار کیا جارہا تھا۔ بعدازاں مقبوضہ کشمیر میں بھرپور عوامی تحریک سے حواس باختہ نئی دہلی کے حکمرانوں نے بعض ایسی ریاستوں سے بیانات دلواکر پاکستان کو تنہا کرنے کے دعوے کئے جہاں بیرونی مداخلت و تسلط کے نتیجے میں نئی دہلی کو اثر و نفوذ قائم کرنے کا موقع ملا۔ دبئی میں پاکستان سپر لیگ کے شاندار انعقاد ہونے اور لاہور میں اس کا فائنل منعقد کئے جانے کے فیصلے سے پاکستان دشمنوں کو اپنے وہ مذموم مقاصد خاک میں ملتے نظر آئے جو کرکٹ ورلڈ کپ کا اس مملکت خداداد میں انعقاد روکنے کے لئے کئے گئے ۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کو بڑھاوا دینے ساتھ ساتھ پڑوسی ملک کے وزراء نے متعدد ملکوں کے دورے کرکے ورلڈ کپ کے پاکستان میں انعقاد کے خلاف لابنگ کی۔اب جبکہ بھارتی آرمی چیف نے مقبوضہ کشمیر میں عوامی جدوجہد کوداخلی شورش تسلیم کرکے اپنی بے بسی کا اظہار کیا ہے تو ہمیں آنے والے دنوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے نئے واقعات سے نمٹنے کے لئے اپنی تیاریاں فزوں تر کرنا ہوں گی۔ پاکستان دشمن قوتوں کی منصوبہ بندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگرچہ پشاور میں رونما ہونے والے سانحے کی ذمہ داری کالعدم پاکستان تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی ہے تاہم اسی گروپ سے علیحدہ ہونے والے ایک دھڑے جماعت الاحرار نے، جو قبل ازیں لاہور بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کرچکا ہے، اب میڈیا کو بھیجے گئے ایک ویڈیو اور بیان کے ذریعے نہ صرف پولیٹکل ایجنسی کے کمپائونڈ پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے بلکہ ملک بھرمیں سرکاری افسران، سیکورٹی اداروں، عدلیہ، میڈیا اور سیاسی پارٹیوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشنوں کے بعد اگرچہ ان کے اہم ٹھکانے ختم ہوچکے ہیں مگر ملک کے مختلف حصوں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف حساس اداروں کی نشاندہی پر ٹارگٹڈ کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ افغانستان کی سرزمین پر کالعدم ٹی ٹی پی اور اس سے الگ ہونے والے جماعت الاحرار جیسے گروپوں کی قیادتیں نہ صرف کئی برسوں سے مقیم ہیں بلکہ نئے دہشت گردوں کو منظم کرکے اور اسلحہ دے کر کبھی لشکروں کی صورت میں پاکستانی علاقوں پر حملے کرارہی ہیں اور کبھی دہشت گردوں کے جتّھے بھیج رہی ہیں۔ کراچی سمیت مختلف شہروں سے پکڑے جانے والے اسلحے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یا تو پہلے سے کسی خوفناک کارروائی کے لئے یہ ذخیرے جمع کئے گئے تھے یا تاحال ان کی رسد و کمک کے چور راستے کھلے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کی نئی لہر میں اتوار کے روز کراچی میں میڈیا کے ایک کارکن کی شہادت اور پیر کو لاہور میں کم از کم 13افراد کی شہادت کے واقعات کے بعد بدھ کو مہمند ایجنسی اور پشاور میں کئے گئے خودکش حملوں میں 8افراد شہید ہوئے جبکہ 12زخمیوں میں 4ججز بھی شامل ہیں۔ جوابی فائرنگ میں 6دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ یہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہر سطح پر دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی بیخ کنی کے اقدامات کئے جائیں۔ اس ضمن میں بدھ کی روز وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت سیاسی و عسکری قیادت کے اہم اجلاس میں یقینی طور پر اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔ ان فیصلوں کو فوری طور پر روبہ عمل لانے کے ساتھ ساتھ بعض حلقوں کی طرف سے نظر آنے والے سرد مہری کے اس رویے میں بھی تبدیلی آنی چاہئے جو قومی ایکشن پلان کے کئی نکات پر عملدرآمد، مختصر سماعت کرنے والی خصوصی عدالتوں کے قیام اور سزائے موت پر عملدرآمد کے حوالے سے محسوس ہوتا ہے۔ قومی سلامتی کا تحفظ ایک بڑا چیلنج ہے۔ ایسے مواقع پر معمول سے ہٹ کر فیصلے کرنے ہی پڑتے ہیں۔

.
تازہ ترین