• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے سمجھ نہیں آتی ہمارے ہاں عدالتوں کا جواز کیا ہے، جبکہ ہمارے بعض چینلز میں ایسے ایسے جج بیٹھے ہیں جن کے فیصلے سن کر عدالتیں پشیمان ہوتی ہوں گی کہ وہ ابھی تک اس نتیجے پر نہیں پہنچیں جس پر میڈیا کی یہ جیوریاں پہلے ان سے پہنچی ہوئی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میری پیدائش سے پہلے کا پانامہ کیس عدالتوں میں ہے، ظاہر ہے ایسا نہیں، مگر لگتا اس لئے ہے کہ ادھر سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان اپنی نشستوں پر تشریف فرما ہوتے ہیں اور ادھر ہمارے کیمرے اپنا رخ سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور ان کے حواریوں کی طرف موڑ دیتے ہیں جو وکٹری کا نشان بناتے ہوئے کمرہ عدالت کی جانب جا رہے ہوتے ہیں، اس کے بعد ٹی وی کی خبروں میں فاضل جج صاحبان کے ریمارکس ناظرین کو سنائے جاتے ہیں اور ہاں اس سے پہلے سیاسی جماعتوں کے وکلا اور رہنما کمرہ عدالت کے باہر کھڑے ہو کر پریس کانفرنس کرتے ہیں اور فاضل جج صاحبان کے ریمارکس کو بنیاد بنا کر اپنی فتح کا اعلان کرتےدکھائی دیتے ہیں۔ اس کے بعد ٹاک شوز کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں میڈیا کی جیوریاں اپنے فیصلے سنانے میں لگ جاتی ہیں اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ مگر اس تمام تر شور شرابے کے باوجود عوام اس ساری کارروائی سے بے نیاز بلکہ بے زار دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں اگر کوئی فکر لاحق ہوتی ہے تو وہ یہ کہ تمام عالمی سروے پاکستان کی بے پناہ معاشی ترقی کی نویدسنا رہے ہیںبلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر ترقی کی یہی رفتار جاری رہی تو 2025 تک پاکستان معاشی طور پر مغربی ممالک کا ہم پلہ ہو جائے گا، چنانچہ عوام کو یہ فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ عدالت سے باہر ہونے والے کھیل تماشے سے کہیں حکومتی توجہ اپنے قومی اہداف سے بھٹک نہ جائے اور وہ اسی میں گم ہو کر نہ رہ جائے۔ کسی بھی شعبے کے صف اول شخص کے خلاف اگر کوئی گھٹیا الزام لگا دیا جائے اور اس حوالے سے مسلسل اس کی کردار کسی کی جائے تو کیا اس کے لئے ممکن ہو گا کہ وہ اپنی تمام تر توجہ اس عظیم کام کی تکمیل پر مرکوز کرسکے جو اس کے سپرد کیا گیا ہے۔ کوئی مافوق الفطرت انسان ہی اس سے مستثنیٰ ہوسکتا ہے!
میں چونکہ کسی بھی میڈیا جیوری کا جج نہیں ہوں، لہٰذا اس کالم سے میرا مطمح نظر کچھ اور ہے۔ مجھے سپریم کورٹ کے جج صاحبان سے گزارش کرنا ہے کہ الزام کی تہہ تک پہنچنے کے لئے جو وہ ریمارکس دیتے ہیں اس سے ایک تو عدالت سے باہر بیٹھی ’’جیوری‘‘ اور ٹی وی چینلز کے ’’جج صاحبان‘‘ ان ریمارکس کو فیصلے کی شکل دے دیتے ہیں اور یوں جب سپریم کورٹ اپنا فیصلہ خود سنائے گی۔ان ریمارکس کے حوالے سے کہا جائے گا کہ عدالت نے اپنے سابقہ ’’فیصلوں‘‘ سے ہٹ کر فیصلہ سنایا ہے اور یوں سیاسی ابتری کا ایک نیا دور شروع ہو جائےگا۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ فاضل جج صاحبان خاموش بن کر بیٹھے رہیں۔ انہوں نے سوال تو اٹھائے ہیں مگر ان سوالات کی نوعیت ایسی ہو کہ کوئی فریق اس آبزرویشن کو ’’عدالتی فیصلہ‘‘ قرار دینے کی کوشش نہ کر سکے! صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف تو چند ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا مسلسل شریف فیملی کی کردار کشی میں لگا ہوا ہے اور دوسری طرف دہشت گرد نواز شریف اور شہباز شریف کی جان کے درپے ہیں ۔حال ہی میں ایسی کارروائیوں کو ناکام بنایا گیا ہے سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان کے یہ دشمن پاکستان کے ان بیٹوں کو اپنے ناپاک عزائم کی راہ میں اتنی بڑی رکاوٹ کیوں سمجھتے ہیں کہ انہیں ان کا وجود ہی گوارا نہیں !
ایک بات اور!مجھے حیرت ہوتی ہے جب شریف فیملی سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ انہوں نے اتنی بڑی جائیداد کیسے بنائی، حیرت یوں ہوتی ہے کہ اس خاندان کی تیسری نسل کاروبار میں ہے اور ان کی کاروباری شہرت پر کوئی داغ دھبہ بھی نہیں ہے۔ یہاں تو مچھلی فروش دکاندار بھی اربوں روپوں کی جائیداد کے مالک ہیں۔ یہاں تو کاروباری اور غیر کاروباری لوگوں کے اتنے بڑے اور اتنےعالیشان فارم ہائوسز ہیں جن میں داخل ہو کر لگتا ہے جیسے جنت کے کسی گوشے میں داخل ہو گئے ہیں اگر آپ کو کبھی کبھی موقع ملے تو پاکستان کے بڑے شہروں میں واقع ان جنت ارضی عشرت گاہوں کی سیاحت کریں، ان کے مالکوں میں سے بیشتر نے حرام کی کمائی سے یہ جائیدادیں بنائی ہیں مگر ہم نے اس خاندان کو ہدف بنالیا ہے جسے ہم سب نے آہستہ آہستہ اور مسلسل محنت سے اس مقام تک پہنچنے میں دیکھا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ کسی سے پوچھ گچھ ہونی چاہئے اور کسی سے نہیں ، مگر ثبوت الزام مانگنے والوں سے مانگنے کی ضرورت ہے کہ مشہور مقولہ ہے اس وقت تک کوئی مجرم نہیں جب تک اس پر جرم ثابت نہیں ہوتا پاکستانی عوام ہر بار اپنا ووٹ ان کے پلڑے میں رکھتے ہیں مگر یہ عوام کی رائے ہے تاہم فیصلہ بہرحال سپریم کورٹ ہی کو کرنا ہے اور میرے اس کالم کا مدعا محض یہ ہے کہ کورٹ اپنا فیصلہ جلد سے جلد سنائے تاکہ قوم اس منزل کی طرف تیزی سے بڑھنا شروع ہو جائے جس طرف لے جانے کے لئے ان کی لیڈر شپ کردار کشی کے تکلیف دہ مرحلے میں سے نہیں گزر رہی، اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈالے ہوئے ہے ۔میری رائے یہ ہے کہ فاضل جج صاحبان اپنا فیصلہ سنانے سے پہلے ان عناصر کو فیصلہ سنانے سے روکیں جو خود کو چیف جسٹس سمجھے بیٹھے ہیں، یہ توہین عدالت ہے جس کی اجازت نہیں ہونی چاہئے ۔

.
تازہ ترین