• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی اسمبلی کی رکن طاہرہ اورنگزیب اور ان کی بڑی بہن سینیٹر نجمہ حمید سے برسوں کے مراسم ہیں مگر کیا کیا جائے بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ تبصرہ کرنا پڑتا ہے اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر یہ قلمی بددیانتی کے مترادف ہے۔ طاہرہ اورنگزیب کی بیٹی مریم اورنگزیب کو ایک بحرانی کیفیت میں اطلاعات و نشریات کی وزیر مملکت بنایا گیا۔ اس بحرانی کیفیت کا ان پر اس قدر اثر ہے کہ ان کی گفتگو اور ’’چہرہ‘‘ گواہی دے رہے ہوتے ہیں کہ’’ہنوز بحران است‘‘ پاناما ہنگامہ پر تو انہیں دائیں بائیں سے پاس دینے والے بہت مل جاتے ہیں مگر لاہور دھماکے پر ایسا نہ ہوسکا، مریم اورنگزیب نے اس دھماکے پر اپنی بھرپور صلاحیتوں سے فرمایا ہے کہ......’’لوگ جمع نہ ہوتے تو اتنا بڑا نقصان نہ ہوتا‘‘ یہ تو ایسے ہی ہے کہ کسی جہاز کے حادثے کے بعد کہا جائے کہ اگر زیادہ لوگ جہاز میں سوار نہ ہوتے تو زیادہ نقصان نہ ہوتا۔ ہماری اس ہونہار وزیر کو پتہ ہونا چاہئے کہ لوگ مارکیٹوں میں بھی جاتے ہیں، خریداری کے لئے بازاروں کا رخ بھی کرتے ہیں، ٹرینوں، بسوں اور جہازوں پر سفر بھی کرتے ہیں، البتہ لوگ سڑکوں پر اس وقت احتجاج کرتے ہیں جب ان کا حق نہ دیا جارہا ہو، ان پر ظلم کیا جارہا ہو، لاہور کی مال روڈ پر اکثر مظاہرے ہوتے ہیں اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ موجودہ حکومت لوگوں کے جائز مطالبات بھی پورے کرنے میں ناکام ہوگئی ہے، اگر لوگوں کو ان کا حق دے دیا جائے تو مظاہرے نہیں ہوتے، مظاہرے ہمیشہ ظلم کے خلاف ہوتے ہیں۔ آج اگر مقبوضہ کشمیر میں مظاہرے ہورہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہاں حکومت نے لوگوں کے حقوق نہیں دیئے۔ کشمیر کی صورتحال بڑی المناک ہے، حالیہ چند مہینوں میں بھارتی افواج نے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے ہیں، انسانی حقوق کی تذلیل کی ہے اس حساس موضوع پر بات میں بعدبات کروں گا پہلے ملک کے اندر دہشت گردی کی حالیہ لہر پر بات ہوجائے۔
ملک کے طول و عرض میں بسنے والوں کو دہشت گردی کی حالیہ لہر نے پریشان کرکے رکھ دیا ہے جبکہ مختلف حکومتی وزراء طرح طرح کی تاویلیں گھڑ رہے ہیں۔ لاہور دھماکے میں انسانی جانوں کا زیادہ ضیاع ہوا۔ باقی دھماکوں میں بھی کئی پیارے پاکستانی شہید ہوئے لاہور میں شہید ہونے والے دونوں پولیس افسران راوین تھے۔ ہمارے ساتھ ہی جی سی یو میں زیر تعلیم رہے۔ اللہ تعالیٰ ملک کی خاطر قربانی دینے والوں کو اعلیٰ رتبے عطا کرے اگر ان دھماکوں پر غور کیا جائے تو یہ سراسر حکومتی ناکامی لگتی ہے۔ چوہدری نثار علی خان اس مرتبہ بہت ناکام سے وزیر ثابت ہورہے ہیں، ان کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عملدرآمد نہیں کروا سکے۔ کئی سیاستدان اور فکرمند طبقات کہتے رہے کہ جنوبی پنجاب دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے مگر موجودہ حکومت نے رینجرز آپریشن کو کراچی تک محدود رکھا۔ کراچی کے علاوہ جہاں جہاں آپریشن کی ضرورت تھی وہاں وہاں آپریشن نہ ہوسکا جس کا خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑرہا ہے، جب تک فوجی عدالتیں دہشت گردوں کے لئے پھانسیوں کا اعلان کرتی رہیں، کافی خاموشی رہی، اب یہ معاملہ بھی پارلیمنٹ میں حل طلب ہے، ہمارے سیاستدان فوجی عدالتوں کے بارے میں فیصلہ ہی نہیں کر پارہے تاکہ ان دہشت گردوں کا قلع قمع ہوسکے۔ یہاں ایک بات ضرور کرتا چلوں کہ یہ بھی پنجاب حکومت کی ناکامی تھی کہ جھنگ سے ضمنی الیکشن میں ایک کالعدم تنظیم کا رہنما جیت کرآگیا۔ سیاسی مخالفین نے اس جیت کو پنجاب کے ایک وزیر کی فتح قرار دیا جب وزراء کے انتہا پسندوںسے مراسم ہوں گے تو پھر دہشت گردی کا قلع قمع کیسے ہوگا؟
داخلی محاذ کی یہ ناکامی دراصل خارجی محاذ کی ناکامی سے آئی ہے۔ موجودہ حکومت نے ہندوستان کے بارے میں انتہائی نرم رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ تجارت اور امن کے نام پر ہماری جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم دنیا کو کشمیر کے بارے میں بتاتے کہ وہاں بھارت انسانی حقوق کی پامالی کررہا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کرکے ظلم کررہا ہے، ہمیں یہ دنیا کو بتانا چاہئے تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں وہاں کے شہریوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی کررہا ہے، وہاں کرفیو نافذ ہے، وہاں لوگوں کو چھروںسے اندھا کیا جارہا ہے مگر افسوس ہماری حکومت خارجی محاذ پر بری طرح ناکام ہوئی۔ ہمارے اداروں نے کلبھوشن یادیو پکڑا مگر ہمارے حکمران اس اہم کامیابی پر خاموش رہے،حالانکہ ہم کلبھوشن یادیو کا مقدمہ اقوام متحدہ میں لے جاکر بھارت کو پکا دہشت گرد ثابت کرسکتے تھے مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا، الٹا ہمارے حکمرانوں نے مختلف طریقوں سے بھارت کی مدد کی۔ مثلاً ڈان لیکس والے معاملے کے ذریعے بھارت کی مدد ہوئی، اسی کو بنیاد بنا کر بھارتیوں نے امریکہ کی مدد سے اقوام متحدہ میں حافظ سعید سمیت چند اور پاکستانیوں کو دہشت گرد پیش کرکے پاکستان پر دبائو بڑھایا، حالانکہ حافظ سعید کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ جب کشمیر میں زلزلہ آیا تو سب سے زیادہ کام کرنے والی تنظیم حافظ سعید کی تھی۔ اب بھی جب لاہور میں دھماکہ ہوا تو حافظ سعید کے لوگوں نے زخمی ہونے والوں کی بڑھ چڑھ کر مدد کی ۔ حافظ صاحب کی این جی او تو لوگوں کی بھلائی کا کام کرتی ہے، ہاں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جب بھی بھارتی فوج نہتے کشمیریوں پر ظلم کرتی ہے تو حافظ سعید اس پر خاموش نہیں رہتے، اپنی آواز بلند ضرور کرتے ہیں۔
طارق فاطمی کی صلاحیتوں کا پردہ پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف نے چاک کردیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں طارق فاطمی کے بارے میں بہت کچھ بتادیا ہے۔ موجودہ حکومت کے حوالے سے ٹی وی چینل پر ہونے والی ایک اور گفتگو بھی آج کل زیر بحث ہے۔ ایک نامورتحقیقاتی صحافی نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ’’2013ءکے الیکشن میں آر اوز بے چارے تو قیدی تھے۔ ایک مقتدر ادارے کے سربراہ چند اور لوگوں نےمبینہ بیرونی پریشر پر نواز شریف کو جتوایا، جب شام کو الیکشن رزلٹ آرہے تھے تو پی ٹی آئی دو گنا آگے تھی، اسی شام خواجہ سعد رفیق نے میاں نواز شریف کو فون کیا کہ انہوں نے تو ہمیں ہرادیا ہے، لیکن جواباً نواز شریف نے کہا کہ سب ٹھیک ہوگا۔ سابق جنرل صاحب نے نواز شریف کو مینڈیٹ دیا، وہ عدالت میں مجھے لے جانا چاہیں تو حاضر ہوں، میرے پاس سب ثبوت ہیں اور اگر میں غلط ثابت ہوا تو نہ صرف صحافت چھوڑ دوں گا بلکہ قوم سے معافی بھی مانگوں گا.......‘‘
جنگ کے قارئین گواہ ہیں اور جیو کے ناظرین بھی کہ میں نے ابتداء ہی سے الیکشن کو دھاندلی زدہ کہا، اس پر بولا بھی اور بہت لکھا بھی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ الیکشن کی شام ہی پی ٹی آئی کے کارکنوں اور عام لوگوں نے دھاندلی کے خلاف احتجاج شروع کردیا تھا، احتجاجی لوگوں کے موڈ کو دیکھ کر ہی جنرل کیانی اسپتال میں عمران خان کے پاس گئے اور کہا کہ’’سڑکوں پر نہ آنا.....‘‘ صرف وہ ہی نہیں کچھ اور لوگ بھی اس مبینہ دھاندلی میں شریک تھے۔ ان لوگوں کو بھی بڑے عہدوں کا لالچ تھا، آپ کو یاد ہوگا کہ الیکشن کمیشن کے قائم کردہ الیکشن ٹربیونلز نے بھی ا نتہائی سستی کا مظاہرہ کیا۔ یہ سست روی ان کی بددیانتی کی وضاحت کے لئے کافی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ سابق صدر آصف علی زرداری(جو اس وقت صدر تھے) نے کہا تھا کہ’’یہ آراوز کا الیکشن تھا.....‘‘ ملک کی بائیس جماعتوں نے دھاندلی کا رونا رویا تھا۔ سب سے بڑی حقیقت یہ کہ پولنگ دن کو ہوئی ،میاں نواز شریف رات گیارہ بجے کس سے کہہ رہے تھے کہ’’مجھے آپ اکثریت دیں....‘‘ آپ کو یاد ہوگا کہ پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے سب سے پہلے ٹی وی پر آکر شکست تسلیم کی، نتائج کو تسلیم کیا، سندھ کے موجودہ گورنر کے بھائی ہی نے یہ کام کیوں کیا؟ پی ٹی آئی کے اندر سے کچھ لوگ ن لیگ کے لئے مخبر کا کام کرتے ہیں، عمران خان کو ایسے مخبروں کو اپنی صفوں سے نکال دینا چاہئے۔
داخلی اور خارجی محاذ پر حکومتی ناکامیوں کو دیکھ کر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ جن بیرونی طاقتوں نے مینڈیٹ دلوایا تھا وہ اپنی باتیں منوا رہی ہیں، بقول اقبالؒ
ملا کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور


.
تازہ ترین