• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوجی عدالتوں کے قیام کے بل میں اچھے برے دہشتگرد میں تفریق نہیں کی گئی

اسلام آباد (انصار عباسی) حکومت کی جانب سے تین سال کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے تیار کیے جانے والے قانون کے نئے مسودے میں ماضی کی غلطیوں سے بچتے ہوئے اچھے اور برے دہشت گردوں کی تفریق نہیں کی گئی۔ گزشتہ مرتبہ دو سال کیلئے فوجی عدالتیں 21ویں آئینی ترمیم کے ذریعے قائم کی گئی تھیں۔ اس ترمیم میں کہا گیا تھا کہ صرف مشکوک دہشت گردوں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلایا جائے گا یا مذہب یا فرقے کی بنیاد پر سرگرم دہشت گرد تنظیم کے ارکان کیخلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔ لہٰذا بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی اور بھرپور قتل عام میں ملوث افراد کو فوجی عدالتوں سے ٹرائل کا استثنیٰ مل گیا کیونکہ یہ افراد ایسی دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھتے تھے جو مذہب یا فرقے کی بنیاد پر کارروائیاں نہیں کرتی تھیں۔ اس سنگین تفریق کی وجہ سے جنوری 2015ء سے جنوری 2017ء تک متحدہ قومی موومنٹ یا پھر بلوچستان میں سرگرم کالعدم / دہشت گرد تنظیم کے دہشت گردوں کیخلاف مقد ما ت فوجی عدالتوں کو نہیں بھجوائے گئے۔ لیکن اب نئے حکومتی مسودے، جو سیاسی اتفاق رائے کے حصول کیلئے اپوزیشن جماعتوں کو بھجوایا گیا ہے، میں ماضی کی غلطی کو درست کرتے ہوئے ہر تنظیم اور گروہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد کا مقدمہ فوجی عدالتوں کو بھیجنے کی بات کی گئی ہے۔ 21ویں آئینی ترمیم کے مطابق، کسی بھی ایسے مشکوک دہشت گرد کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں بھیجنے کی بات کی گئی تھی جس کا تعلق ایسی جماعت سے ہو جو مذہب یا فرقے کی بنیاد پر کارروائیوں میں ملوث تھی۔ اسی ترمیم میں یہ وضاحت شامل کی گئی تھی کہ ’’فرقے‘‘ کا مقصد مذہب کا فرقہ اور جس کا شمار سیاسی جماعتوں کے آرڈر مجریہ 2002ء میں نہیں آتا۔ اب حکومت کی جانب سے تیار کیے گئے قانون کے نئے مسودے میں تین سال کیلئے فوجی عدالتیں قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے ماضی کے برعکس آرٹیکل 175؍ میں ترمیم کی تجویز ہے جس کے تحت تمام دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کا ٹرائل فوجی عدالتوں سے کرانے کی بات کی گئی ہے۔ ایسے مشتبہ دہشت گردوں کے مقدمات فوجی عدالتوں کو بھیجے جائیں گے جو: ’’ ۱) پاکستان کیخلاف ہتھیار اٹھاتے یا ریاست کیخلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوں یا مسلح افواج یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار و ں یا سرکاری ملازمین یا سرکاری تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہوں، ۲) کسی بھی شخص کے اغوا، اسے زخمی کرنے یا اس کے قتل میں ملوث ہوں، ۳) اسلحہ یا دھماکا خیز مواد یا اس سے وابستہ آلات، خود کش جیکٹس رکھتے، ذخیرہ کرتے یا اس کی نقل و حرکت میں ملوث ہوں، ۴) دہشت گردی کی کارروائی میں استعمال کیلئے گاڑیاں استعمال کرتے ہوں یا انہیں ڈیزائن کرتے ہوں، ۵) غیر ملکی یا مقامی ذرائع سے فنڈنگ حاصل کرکے انہیں اس شق میں شامل کسی غیر قانونی کارروائی میں استعمال کرتے ہوں، ۶) عوام یا ریاست کے کسی حصے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش میں ملوث ہوں، ۷) پاکستان میں دہشت یا عدم استحکام پھیلانے یا پاکستان کے اندر یا باہر رہ کر اس طرح کی کسی سرگرمی میں ملوث ہوں۔‘‘ مجوزہ آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتیں صرف وفاقی حکومت کے بھجوائے گئے مقدمات کی سماعت کریں گی۔
تازہ ترین