• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر کوئی جانتا تھا کہ رد ِعمل آئے گالیکن ہم خودستائی اور غیر سنجیدگی کامظہر (بلکہ مظہر شاہ) بنے تھے کہ ہم نے جنگ کے دوران اپنی بالادستی دیکھتے ہی اپنی فتح کا اعلان کردیا۔ہم کسی افسانوی التباس کا شکار تھے؟ جو لوگ کہتے تھے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ، اُنہیں اپنے الفاظ پر شرمندہ ہونا چاہئے ۔ لیکن نہیں، وہ شرمندگی سے مغلوب ہونے کی بجائے ماضی کی طرح ان حملوں کی وضاحت کے لئےکائنات کے قریب و بعید ہر گوشے سے اپنے خلاف کی جانے والی سازشوں کی بوسونگیں گے ، اور ہمیں مجبور کریں گے کہ ہم بھی اُن کی عقابی قوت ِ شامہ پر اعتماد کریں۔دوسری طر ف یہ حملہ اُن افراد کے لئے مایوس کن ہے جو محسوس کررہے تھے کہ دہشت گردی کی اس بیماری کی تشخیص بھی غلط تھی اور علاج بھی ۔ اس مرحلے پر اوسط پاکستانی ، جو اپنے پیاروں کی زندگی کے بارے میں فکرمند ہے، وہ حیران ہے کہ کیا حکومت اُن کی جانوں اور ہونے والے جانی نقصان کو کوئی اہمیت دیتی ہے یا نہیں، اور کیا وہ ان واقعات کے بعد نیشنل سیکورٹی کی حکمت ِعملی پر نظر ثانی کرے گی؟ نیز کیا ریاست عام شہری کی زندگی کو تحفظ دینے کے لئے سخت فیصلے لینے کے قابل ہے ؟ کیا ایسا کرنا اس کی ترجیح بن سکتاہے؟
پندرہ فروری کو پاکستان بھرمیں تواتر سے ہونے والے حملوں، جن کی ذمہ داری جماعت الحرار نے قبول کی تھی، کے بعد وزیر ِاعظم نے مہمند میں ہونے والے جانی نقصانات پر گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔’مسلح افواج کی دی جانے والی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ان قربانیوں نے ماد ر ِوطن کے دفاع کو ناقابل ِ تسخیر بنا دیا ہے ۔‘‘لیکن فوجی جوانوں اور پولیس اہل کاروں کی دی جانے والی قربانیوں کی تعریف کرنا ایک بات ، جب پے درپے حملے ہورہے ہوں تو ملک کے وزیر ِاعظم کی طرف سے ملکی سیکورٹی کے ناقابل ِ تسخیر ہونے کے دعوے پر اُن کی ’’حقیقت پسندی‘‘ پر کیا کہا جائے ؟ سہون شریف پر حملے کے بعد آرمی چیف نے اعلان کیا۔’قوم کے بہنے والے خون کے ایک ایک قطرے کا انتقام لیا جائے گا۔ کسی سے رعایت نہیں کی جائے ، نیزہماری سیکورٹی فورسز دشمن قوتوںکے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیں گی۔‘‘لعل شہباز قلندر ؒ کے مزار پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ۔ اسی روز داعش نے عراق میں حملہ کرکے باون افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ کیا آرمی چیف داعش کو دشمن قوت قرا ردے کر شکست دینے کی بات کررہے ہیں؟
آرمی چیف نے غیرملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی مذموم حرکتوں سے باز آجائیں ۔ تو کیا آرمی چیف نے دشمن کی قطعی شناخت کرکے ہتھیاروں کا رخ اُ س کی جانب کرلیا ہے ؟ اس ہفتے فارن آفس نے افغان مشن کے ڈپٹی ہیڈ کو بلا کر جماعت الحرارکے حملوں پر احتجاج کیا ۔ یہ انتہا پسند گروہ افغان سرزمین پر اپنی موجودگی رکھتا ہے ۔ تو کیا ہم بھی وہی کچھ کرنے کا سوچ رہے ہیں جس کا چندماہ پہلے بھارت نے دعویٰ کیا تھاکہ اُس نے انتہا پسندوں کے ٹھکانوں پر مبینہ سرجیکل اسٹرئیکس کی ہیں؟جب افغان اور امریکی الزام لگاتے ہیں کہ ہم طالبان اور حقانی گروپ کو سرحد پار کرکے افغان فورسز پر حملے کرنے کا موقع دیتے ہیں تو ہمار روایتی رد ِعمل یہ ہوتا ہے کہ پاک افغان بارڈر طویل اور مسامدار ہے ، چنانچہ ہم ہمہ وقت اس پر نگاہ نہیں رکھ سکتے کہ کس نے اسے عبور کیا اور کون ہماری طرف آیا ۔ طالبان کے حوالے سے نجی طور پر ہمارا غیر مبہم موقف یہ ہے کہ چونکہ وہ پاکستانی سرحد کے قریب افغان صوبے کے ایک بڑے حصے پر اپنا کنٹرول رکھتے ہیں،اور چونکہ افغان حکومت خو د بھی ان علاقوں کو کنٹرول کرنے کے قابل نہیں ، اس لئے طالبان کو ناراض کرنا ہمارے مفاد میں نہیں۔
اب ہم کہہ رہے ہیں کہ چونکہ فضل اﷲ، تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الحرار افغانستان میں اپنے ٹھکانے رکھتے ہیں، اس لئےدہشت گردوں کی طرف سے پاکستان میں کئےجانے والے حملوں کی ذمہ داری افغانستان پر عائد ہوتی ہے ۔کیا ہمارے اس استدلال میں حماقت کی جھلک نہیں ملتی ؟امریکہ، افغانستان اور انڈیا برس ہا برس سے ہم پر یہی الزامات عائد کرتے رہے کہ چونکہ اُن پر حملے کرنے والے غیر ریاستی عناصر کا تعلق مبینہ طور پر پاکستان کی سرزمین سے ہے ، اس لئے ان حملوں کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے ۔ اس پر ہم ببانگ ِدہل کہتے رہے کہ غیر ریاستی عناصر کی سرگرمیوں کی ذمہ داری ریاست پر عائد نہیں ہوتی ۔ تو کیا اب ہم اپنی غلطی تسلیم کرنے جارہے ہیں؟ جنرل کیانی فاٹا کی صفائی کے لئے آپریشن نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ اس کی وجہ سے انتہا پسندوںکے ہاتھ ایک گھومنے والا دروازہ آجائے گا(تاوقتیکہ افغان اور پاکستانی فورسز مل کر اُن کے خلاف کارروائی کریں)، اور جب پاکستانی فورسز کارروائی کریں گی تو انتہا پسند فرار ہوکر افغانستان چلے جائیںگے ، اور وہاںسے سرحد پار حملے شروع کردیں گے ۔ جب ہم نے آپریشن ضرب ِ عضب کاآغاز کیاتو وہ اس الجھن سے واقف تھے ۔ اے پی ایس حملے کو افغانستان سے کنٹرول کیا گیا۔ توکیا دوسال بعد آج بھی ہمیں اسی مسلے کا سامنا ہے جس کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں؟
جب فضل اﷲ سوات پر اپنا کنٹرول قائم کررہا تھا تو مقامی افراد کو یقین تھا کہ طاقتور عناصر کی سرپرستی کے بغیر کوئی بھی علاقے پر اپنی عملداری قائم نہیں کرسکتا۔ آج تک اس کی وضاحت سامنے نہیں آسکی کہ ٹی ٹی پی کو سوات کے وسیع وعریض علاقوں پر تسلط قائم کرنے کی اجازت کس نے دی تھی؟اب یہی ٹی ٹی پی افغانستان میں ہے جہاں افغان حکومت کا کنٹرول برائے نام ہے ، تو کیا ہم چاہتے ہیں کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کے حملوں کی ذمہ داری اٹھائے ؟اس کے علاوہ کابل کی پاکستان سے نفرت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ وہ اپنے ہاں ہونے والی ہر خرابی پر آئی ایس آئی کو مورد ِ الزام ٹھہراتا ہے ۔ چنانچہ یہ فرض کرلیتے ہیں کہ افغانستان ایک دشمن ملک ہے ، پس چہ باید کرد؟
فرض کریں ہم افغانستان پر اسٹرائیک کرتے ہوئے فضل اﷲ کو ہلاک کردیتے ہیں۔ تو کیا ا س سے دہشت گردی ختم ہو جائے گی؟ کیا حکیم اﷲ محسودیا اس سے پہلے بیت اﷲ محسود کی قیادت میں تحریک طالبان پاکستان کم سفاک تھی؟اس دوران جب ہم غیر ملکی ایجنسیوں کو مورد ِ الزام ٹھہراتے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ ہمارے ہاں پروان چڑھنے اور پھر ہمارے کنٹرول سے باہر ہوجانے والے دہشت گردوں پر سرمایہ کاری کرتے ہوئے اُن کی سرپرستی کررہی ہیں؟جس طرح موجودہ تحریک طالبان پاکستان کی فاٹا سے نام نہاد اسلامی امارت ختم کرنے کے لئےجنگ ضروری تھی، لیکن وہ ثابت نہیں ہوئی، اسی طرح فضل اﷲ کو ہلاک کرنے سے ہوسکتاہے کہ ہمار ا مورال بلند ہوجائے لیکن اس کے سوااور کچھ نہیں۔ نیز سرحد کو کنٹرول کرنا آسان نہیں،اور پھر اس کے سرحد کے دوسری طر ف سے بھی تعاون درکار ہوگا۔ گویا ہم اکیلے دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں کرسکتے ۔ (باقی صفحہ 15پر)
حملوں کی زد میں آنے والے عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لئے جذباتی بیانات کی اہمیت اپنی جگہ ، لیکن یہ ایک پر مغز پالیسی کا نعمل البدل نہیں ہوسکتے ۔ ہمیں کسی بھی اقدام سے پہلے ایک حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ دہشت گردی کے پیچھے مسخ شدہ عقیدے کی بنیاد پر وجود میں آنے والے نظریات ہیں جو مذہب کے نام پر تشدد کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہم یہ کہہ کر آگے بڑھ جائیں کہ دہشت گردوں کو حقیقی دین کی سمجھ نہیں لیکن ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ دہشت گرد جو کچھ بھی کررہے ہیں، اس کے پیچھے ان کے عقیدے کی کارفرمائی ہی ہے ۔ ہم نے پاکستان میں مسخ شدہ عقائد کے تدارک کے لئے کیا کچھ کیا ہے ؟ کیا نیشنل ایکشن پلان کے تحت پر تشدد نظریات اور نفرت انگیز تقریر کا خاتمہ کرلیاگیا؟دوسرے مسئلے کاتعلق سیکورٹی کے ان مقاصد جن کے حصول کے لئے غیر ریاستی عناصر کے استعمال کو ناگزیر سمجھا جاتا ہے ۔ کیا ریاست کو اس غلطی کا ادراک ہوچکا ہے کہ دوسروں کے لئےپالے گئے سانپ اپنے لوگوں کو بھی ڈس سکتے ہیں؟
ہم دشمن ریاستوں کو اپنے مقامی انتہا پسندوںکی سرپرستی سے کیسے روکیں؟ اس وقت غیر ریاستی عناصر کی چوتھی نسل میدان میں ہے۔ پاکستان یا افغانستان میں داعش قائم کرنے لئےکسی کو شام سے ہجرت نہیں کرنی پڑی،اس کا انفراسٹرکچر طالبان اور دیگر لشکروں کی صورت یہاں موجود تھا۔ فرق صر ف اتناپڑا ہے کہ جو ہمارے اثاثے تھے ، اب وہ داعش کے اثاثے ہیں۔ فرض کریں پاکستان میں ہلاک ہونے والے شہریوں کے بدلے میں ہم بھی پراکسی استعمال کرتے ہوئے انڈیا اور افغانستان میں اتنے ہی شہری ہلاک کردیتے ہیں تو کیا اس سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟ اور کیا یہ درست انتقام ہوگا؟دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں عقیدے کی بنیاد پر وجود میں آنے والے منفی نظریات کو پنپنے سے روکنا ہوگا، اپنے سیکورٹی مقاصد کے لئےغیر ریاستی عناصر کے استعمال کا خواب بھی نہیں دیکھنا ہوگا۔


.
تازہ ترین