• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوچا تو یہ تھا کہ کراچی کے جشن ادب یعنی کراچی لٹریچر فیسٹیول کو اس کالم کا موضوع بنائوں گا کیونکہ اس کا خمار بھی کئی دن باقی رہتا ہے اور اس کی تھکن بھی ایک، دو دن میں نہیں اترتی۔ یوں بھی گزشتہ اختتام ہفتہ کی ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں اتنی ہنگامہ خیز اور فکر انگیز تھیں کہ ان میں شرکت ہی ایک یادگار تجربہ بن جاتا ہے۔ اب یہ سالانہ جشن آٹھ سال سے جاری ہے اور اس میں پڑھے لکھے شہریوں کی شرکت قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے لیکن ہوا یہ کہ پہلے لاہور کے بم دھماکے نے ہمیں دہلا دیا اور پھر دہشت گردی کے دوسرے واقعات نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ دہشت گردی کے خلاف ہم جو جنگ اتنے برسوں سے لڑ رہے ہیں اور جس میں کامیابی کے شواہد بھی ملتے رہے ہیں، آخر کب اور کیسے ختم ہو گی؟ کب تک ہم وہ بیانات سنتے رہیں گے کہ جن میں ایک نئی جدوجہد کے عزم کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جب میں نے اپنے ملک میں کسی نہ کسی پیمانے پر دہشت گردی کے جاری رہنے کی وجوہات پر غور کیا تو مجھے لگا کہ ان دونوں موضوعات یعنی جشن ادب اور دہشت گردی کے واقعات میں ایک خاص رشتہ ہے، ایک عجیب و غریب فکری ربط ہے۔ وہ یوں کہ اسی سال پاکستان 70سال کا ہو جائے گا تو اسی نسبت سے جشن ادب نے خاص طور پر پاکستان کی تحریک، برطانوی ہند کی تقسیم اور اس ملک کے تاریخی تجربہ پر ایک گہری نظر ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جو اجلاس اس سلسلے میں منعقد کئے گئے اور ملک بلکہ ملک سے باہر کے بھی اہم تاریخ دانوں کو اس گفتگو میں شامل کیا گیا ان کا خلاصہ میرے بس کی بات نہیں۔ پوری روداد کئی کتابوں کا مواد مہیا کر سکتی ہے۔ میں صرف یہ اشارہ کردوں کہ پاکستان کی تحریک اور قائداعظم کی سیاست کی سب سے معتبر مؤرخ عائشہ جلال نے اس جشن میں شرکت کی۔ کلیدی خطبہ بھی دیا اور کئی اجلاسوں میں اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔ ایک امریکی پروفیسر کہ جنہوں نے لیاقت علی خان کی سوانح تحریر کی ہے اور پاکستان کی تاریخ کے ماہر مانے جاتے ہیں، کئی اجلاسوں میں شریک تھے۔ کسی بھی ملک کیلئے اپنی تاریخ کا دیانت داری سے سامنا کرنا ایک بہت کٹھن کام ہے کیونکہ اس میں کئی نازک مقام آتے ہیں۔ جن معاشروں میں علم کی کمی ہے، مکالمے کا فقدان ہے اور جن کی قیادت اپنے مقاصد اور مفادات کیلئے گزشتہ کی تاریخ کو مسخ کرنے یا بہ ظاہر فتنہ انگیز حقائق کو درسی کتابوں یا لوگوں کے ذہن سے نکال دینے کی کوشش کرتی ہے ان کا مستقبل کبھی محفوظ نہیں ہو سکتا۔
اب یہ بہت گمبھیر بات ہے کہ ماضی کا مستقبل سے کیا رشتہ ہوتا ہے۔ زیادہ پیچیدہ یہ مسئلہ ہے کہ ماضی بدلتا بھی رہتا ہے۔ نئی دستاویزات، نئی تشریحات اور نئے علوم پورے منظرنامے کو کسی حد تک تبدیل کر سکتے ہیں۔ جابر حکمراں بھی اپنی ضرورت کے مطابق کسی نئے نظریئے یا نعرے کو ماضی کا عنوان بناتے رہے ہیں۔ ایک مصنف نے کہا تھا کہ کسی جابر حکمراںکی سب سے خوفناک قوّت یہ ہوتی ہے کہ وہ ماضی کو تبدیل کر دے۔ ایک محاورہ بھی ہے کہ ماضی اب وہ نہیں کہ جو پہلے ہوا کرتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو ہم دہشت گردی، مذہبی انتہاپسندی، فرقہ پرستی اور عدم برداشت کے چنگل میں پھنسے ہیں تو اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہم نے اپنے ماضی کو یوں تبدیل کر دیا ہے کہ جیسے پاکستان مذہبی جماعتوں نے بنایا ہو اور محمد علی جناح کی اس کی تشکیل میں زیادہ اہمیت نہ رہی ہو۔ ہاں قائداعظم کا ذکر کرتے ہم نہیں تھکتے لیکن یہ جو برسوں ہمارے معاشرے میں انتہاپسندی اور قدامت پرستی کی باضابطہ ترویج کی جاتی رہی تو قائداعظم کی شخصیت اور سیاست سے اس کا کیا تعلق ہے؟ جس عدم برداشت کے طوفان نے اس ملک کے روشن خیال طبقے کو نرغے میں لے رکھا ہے اس کا پاکستان کی تحریک کے تناظر میں کیا جواز ہے؟ موجودہ حالات میں اس بات کا کھوج لگانا بہت مشکل ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا آغاز کیسے ہوا؟ اسے کس نے پالا اور اس کے نتیجے میں پاکستان اپنے تاریخی سفر میں کس طرف جا رہا ہے؟ یہ تو ہم سے بار بار کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ نیشنل ایکشن پلان میں تو پوری حکمت عملی موجود ہے کہ دہشت گردی کو فروغ دینے والے عوامل سے کس طرح نمٹا جائے گا۔ لاہور کے بم دھماکے کے بعد کہ جو واقعی ایک بڑا واقعہ ہے، وزیراعظم نواز شریف نے کہاکہ دہشت گردوں کے ساتھ ان کے سہولت کاروں اور نظریئے کو بھی ختم کرنا ضروری ہے۔ ان کے خلاف بے رحم آپریشن کیا جائے۔ دہشت گردوں کو شکست دینے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
اب آپ یہ سوچئے کہ بے رحم آپریشن کیسے کیا جائے گا؟ اگر یہ اعتراف کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کو شکست دینے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تو اس کے نتیجے میں کن نظریات کو رد کیا جا رہا ہے اور کن نئے خیالات کو اپنایا جا رہا ہے؟ ایسے فیصلے تو تبدیلیٔ قلب کا تقاضا کرتے ہیں اور ہمارے پاس ایسی کسی تبدیلی کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔ وہی لوگ اقتدار کی ان ہی کرسیوں پر بیٹھے ہیں کہ جن کے فیصلے، مثال کے طور پر طالبان سے ہمدردی کے غماز تھے اور جو فرقہ پرستی کو دہشت گردی سے الگ سمجھتے تھے۔ اس جرم کا کوئی اقرار کیوں نہیں کرتاکہ دہشت گردی کو ان خیالات سے بھی تقویت ملی کہ جو اقتدار کی بنیاد ہیں۔ ظاہر ہے اگر نتائج یہ ہیں تو راستہ غلط تھا۔ اب شاعر تو اس کیفیت کو تسلیم کر سکتا ہے کہ جیسے منیر نیازی نے کہا:
تھا منیر آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا
اب پتہ نہیں منیر نے یہ بات کس حوالے سے کی تھی، ویسے اس ملک پر آسیب کے سائے کا تو انہوں نے واضح طور پر ذکر کیا تھا اور ہاں…راستہ تبدیل کرنے کیلئے تاریخ کی سمجھ بھی ضروری ہے۔(باقی صفحہ 15پر)
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس ماضی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ جو سیاست میں مذہب اور قدامت پرستی کے دفاع کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ ویسے یہ سچ ہے کہ پاکستان کے بننے کی تاریخ کئی الجھنیں بھی پیدا کرتی ہے پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھی کئی انتہائی مشکل سوالات اٹھاتی ہے لیکن ان سوالات سے نظریں چرانا اور ان پر غور کئے بغیر انہیں رد کر دینا کسی صورت ہمارے قومی مفاد میں نہیں ہے۔ وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم پاکستان کے قیام کی سچائیوں پر نئے سرے سے غور کریں۔ نواز شریف نے تو دہشت گردوں کے خلاف ایک ’بے رحم‘ آپریشن کی بات کی تھی۔ پاکستان کے بارے میں سوچنے اور نئے فیصلے کرنے کیلئے بھی فکری معنوں میں ایک ’بے رحم‘ آپریشن کی ضرورت ہے اور اس کام کیلئے حکمرانوں کو تاریخ دانوں اور سماجی علوم کے ماہرین کی مدد درکار ہے۔
(میں یہ کالم لکھ چکا تھا جب جمعرات کی شام سہون کی درگاہ میں خودکش دھماکہ ہوا۔ تب میری ذہنی کیفیت ایسی نہیں تھی کہ میں اسے تبدیل کرتا لیکن اس سے پیدا ہونے والی اذیت اور بے بسی کی جھلک یہاں موجود ہے۔)


.
تازہ ترین