• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پورا ہفتہ بم دھماکوں، حادثوں اور حملوں کی نظر ہو گیا۔ پکا ارادہ کیا تھا کہ آج اس موضوع پر نہیں لکھوں گا، کئی ایک مثبت خبریں سامنے آئی ہیں جن پر خوشی کا جشن منایا جا سکتا ہے مثلا لاہور ہائیکورٹ نے اگلے سی ایس ایس کے امتحان اردو میں لینے کا حکم دے دیا ہے۔ یہ اقدام بظاہر بڑا معمولی اور رجعت پسندانہ نظر آتا ہے لیکن درحقیقت یہ ایک غیر معمولی اور ترقی پسند اقدام ہے۔ میں ایک عرصے سے اردو زبان کوسرکاری اور عدالتی زبان بنانے کی ضرورت پر زور دیتا آیا ہوں۔ لیکن اس موضوع پر پھر کبھی۔ یہ خبر بھی ہے کہ پاناما لیکس کا کیس اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اور چند دنوں یا ہفتوں میں اسکا فیصلہ متوقع ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ فیصلہ کیا آتا ہے، اس کیس کا سپریم کورٹ میں چلنا، روزانہ کی بنیاد پر چلنا اور سوالات کا پوچھا جانا، اس نظام کی بہتری کیلئےجو سر تا پا کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے، بہت مثبت اثرات لائے گا۔ یہ کیس ہمارے نظام کی کرپشن کم کرنے میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ اس موضوع کو بھی بعد کیلئے رکھ چھوڑتے ہیں۔ ایک اور اہم پیش رفت بیوروکریسی میں ہوئی جہاں ایف بی آر کے چئیرمین کیلئے ان لینڈ ریونیو سروس کے ڈاکڑ ارشاد کو نامزد کیا گیا ہے۔ یہ اقدام دوسرے سروس کیڈرز کی پوسٹوں پر ڈی ایم جی یا باہر سے لوگ لگانے کی روایت کمزور ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ ان لینڈ ریونیو افسران کی ایسوسی ایشن نے باہر سے چئیرمین لانے کے خدشے کے پیش نظر ایک علامتی قلم چھوڑ ہڑتال بھی کر رکھی تھی، جو اب ختم ہو چکی ہے۔
اسی طرح اور بہت سے موضوعات تھے جن پر لکھنا چاہتا تھا اور جن پر لکھا جانا چاہئے لیکن دھماکوں، ہلاکتوں اور حادثوں کے بعد قوم میں مایوسی کی جو لہر دوڑ گئی، اس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر کئی ایک طنزیہ اور غلط حقائق پر مبنی آرا پڑھنے کو ملیں تو اسی موضوع پر لکھنے پر مجبور ہوا۔ یہ آرا کچھ یوں تھیں۔ ’’دشمن کی ٹوٹی ہوئی کمر کہاں گئی؟‘‘، ’’دہشتگرد تو خود بریک پر تھے، کچھ لوگ کریڈٹ لیتے رہے" ’’کہا تھا نہ کہ جانے کی بات جانے دو‘‘، ’’ خبریں بنائی جاتی رہیں لیکن دہشتگردی وہیں کی وہیں ہے‘‘، ’’اگر بیرونی ہاتھ ملوث ہے تو اسے روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟‘‘، ’’نیشنل ایکشن پلان نیپ کر رہا ہے‘‘ وغٖیرہ وغیرو۔ نجانے اس قسم کی کیسی کیسی باتیں کی جا رہی ہیں۔ میری دانست میں اس قسم کی ساری باتیں دہشتگردی کی جنگ کے اہم حقائق سے نا واقفیت اور قومی سانحوں کے بعد چھانے والی مایوسی کا شاخسانہ ہیں۔ اس لئے حقائق کو درست کرنا ضروری ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی کی موجودہ لہر سو فیصد بیرونی ہاتھ کا کیا دھرا ہے۔ بلا شبہ ہماری سیکورٹی اور خارجہ پالیسیاں ناقص رہی ہیں اور ہیں اور ان کو درست کرنے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخی و جغرافیائی حالات اور سپر پاورز کی گریٹ گیم کی وجہ سے پاکستان ایک ایسے دلدل میں پھنسا ہوا ہے کہ ہمیں بیرونی طاقتوں کی ایما پر کی جانے والی ان بزدلانہ کارروائیوں کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے۔ امریکہ، بھارت، اسرائیل اور افغانستان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں پاکستان میں ہر صورت میں افراتفری پھیلانا چاہتی ہیں۔ انکے پاس بے پناہ وسائل ہیں، جدید ترین ٹیکنالوجی ہے، ہمارے راہ گم گشتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد ہے، افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں ہیں اور افغانستان کے ساتھ ہمارا سیکڑوں میل لمبا آسانی سے پار کیا جانے والا بارڈر ہے۔ ہم اسوقت اس بحث میں نہیں پڑتے کہ یہ چار ممالک کیوں پاکستان میں افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں اور انکی اس خواہش کے پیچھے ہماری اپنی غلطیاں کیا ہیں اور انکی خواہش کو پورا کرنے کیلئے ہم کن کمزویوں کا شکار ہیں۔ لیکن یہ بات طے ہے یہ تمام ممالک کسی نہ کسی کدورت کی وجہ سے ہمارے ہاں تباہی پھیلانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اب اگلی بحث کی طرف بڑھتے ہیں کہ حکومت کیا کر رہی ہے، جنرل راحیل نے جو کمر توڑی تھی وہ کہاں گئی، اور کیا جنرل باجوہ کچھ کر رہے ہیں کہ نہیں۔ اس طرح کی مایوسی پھیلانے سے پہلے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے جس کے بہت محدود وسائل ہیں، ٹیکنالوجی میں تو ہم بہت ہی پیچھے ہیں۔ اسکے باوجود حکومت اور سیکورٹی اداروں نے جس طرح ملک و قوم کو سیکورٹی دی ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔ جنرل راحیل کی قیادت نے واقعتا دہشتگردوں کی کمر توڑی تھی اور جنرل باجوہ نے بھی دہشتگردوں کی نیدیں حرام کی ہوئی ہیں۔
ہمیں سیکورٹی اداروں کی کارکردگی جانچنے کیلئے یہ نقطہ نظر نہیں اپنانا چاہئےکہ وہ کتنے دھماکوں کو روکنے میں ناکام ہوئے بلکہ انکی کارکردگی اس زاویے سے جانچنی چاہئے کہ وہ کتنے دھماکوں کو روکنے میں کامیاب ہوئے۔ بُری خبر یہ ہے کہ مستقبل قریب میں یہ دھماکے جاری رہیں گے لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ ہماری فوج اور دیگر سیکورٹی ادارے چوکس ہیں اور اپنا کام خوش اسلوبی سے کر رہے ہیں جس سے نقصان کم سے کم رہے گا۔ اس دہشتگردی کے پیچھے بہت سے بیرونی عوامل پر حکومت اور سیکورٹی اداروں کا کوئی اختیار نہیں ہے مثلا ٹرمپ کا انتخاب اور اسکے احمقانہ خیالات، امریکہ کی افغان جنگ میں شکست، اسرائیل کا فلسطین سے تنازعہ، کشمیر میں انتہائوں کو چھوتی تٍحریک آزادی پر بھارتی انتقامی جذبہ، چین کی بڑھتی ہوئی طاقت، امریکہ سے کشمکش اور پاکستان کی اسکے لئے تزویراتی اہمیت۔ بلاشبہ ہمیں اندرونی عوامل اور پالیسیوں کی غلطیوں کی نشاندہی کرنی چاہئے لیکن حالات کے جبر نے جب دہشتگردی کا عذاب مسلط کر دیا ہے تو ہمیں اسکا مقابلہ مردانہ وار کرنا چاہئے اور مایوسی پھیلانے، قربانیاں دینے والے سیکورٹی اداروں پر تنقید کی بجائے انکی حوصلہ افزائی اور ستائش کا راستہ اپنانا چاہئے۔


.
تازہ ترین