• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرچہ عدالتی سماعت کا آغاز نہیں ہوا تھا، لیکن اکتوبر 2016 میں پاناما لیکس کا معاملہ ہمارے سیاسی اور صحافتی افق پر بھر پور طریقے سے چھایا ہوا تھا۔ انہی دنوں دو معروف امریکی اداروں ، انٹرنیشنل ریپبلیکن انسٹیٹیوٹ (جسے ہم IRI کے نام سے جانتے ہیں) اور انسٹیٹیوٹ فار پبلک اپینین(Institute for public opinion) نے پاکستان میں رائے عامہ کے جائزے کا اہتمام کیا۔ سروئے کا بنیادی مقصد یہ جانچنا تھا کہ سیاسی جماعتوں ، سیاسی رہنماوں اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی سے متعلق پاکستانی عوام کیا رائے رکھتے ہیں۔ سروے کے نتائج کیمطابق 63 فیصد عوام نے نواز شریف کو پسندیدہ ترین سیاسی رہنما قرار دیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان 39فیصد کیساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔یہ نتائج ہرگز چونکا دینے والے نہیں ۔ کم و بیش ایک برس قبل پاکستان میں کام کرنے والے معروف ادارے پلڈاٹ نے بھی کچھ اسی قسم کا سروے کیا تو تقریبا اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔ البتہ حالیہ سروے کا حیران کن پہلو یہ ہے کہ عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری کی مقبولیت اور پسندیدگی میںصرف7 فیصد کا فرق ہے۔ توقع کے عین مطابق، اس سروے کے نتائج پر مسلم لیگ (ن) مسرت کا اظہار کر رہی ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اسے تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں کی سائنس سے نا آشنا لوگ عام طور پر اعتراض کرتے ہیں کہ محض چند ہزار افراد کی رائے کو کروڑوں لوگوں کی رائے یا سوچ قرار دینا کیونکر قابل قبول ہے؟ رائے عامہ کے جائزے دنیا بھر میں ہوتے ہیں اور انہیں قابل اعتبار سمجھا جاتا ہے۔ آج کل اسے ایک مسلمہ سائنس کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ سروے کیلئے افراد کا چناوایک مخصوص طریقے سے کیا جاتا ہے۔ اور اس بنیاد پر چند ہزار افراد کی رائے کل آبادی کی رائے تصور کی جاتی ہے۔ یہ جائزے بلا شبہ سو فیصد درست نہیں ہوتے، البتہ ان سے عوامی سوچ کے بہاو اور رجحانات کا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے۔ 2013 کے انتخابات سے قبل پلڈاٹ ، گیلپ پاکستا ن ، آئی آر آئی سمیت دیگر ملکی اور غیر ملکی اداروں نے امکانی انتخابی نتائج کے حوالے سے کئی جائزوں کا اہتمام کیا۔ معمولی فرق کیساتھ تقریبا تمام جائزوں کے اعداد و شمار ظاہر کرتے تھے کہ مسلم لیگ (ن) اکثریتی جماعت بن کر ابھرے گی، اور مرکز اور پنجاب میں حکومت بنائے گی۔ 2013کے انتخابی نتائج ان جائزوں کے عین مطابق تھے۔ انہی جائزوں میں کہا گیا کہ تحریک انصاف کسی سونامی کو لانے سے قاصر رہے گی، البتہ خیبر پختونخوا میں اکثریت حاصل کرئے گی۔ یہ بات بھی درست ثابت ہوئی۔ اس وقت کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کے متعلق امکان ظاہر کیا گیا کہ وہ سندھ تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔ انتخابات کے بعد ایسا ہی ہوا۔ سو کہا جا سکتا ہے کہ رائے عامہ کے جائزے اگر مستند سائنسی اصولوں کو ملحوظ رکھ کر کئے جائیں ، تو وہ صورتحال کی کافی حد تک درست عکاسی کرتے ہیں۔ لہذا حالیہ سروے کوبھی سیاسی صورتحال کا ایک معتبر جائزہ سمجھا جا سکتا ہے۔
بہتر حکمت عملی تو یہی ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتیں رائے عامہ کے کسی بھی جائزے پر بغلیں بجانے یا اسے یکسر مسترد کر دینے کے بجائے، اس سے رہنمائی حاصل کریں اور اپنی حکمت عملی وضع کریں۔ اپوزیشن جماعتوں کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہونا چاہیے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی اس مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟ غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو گزشتہ تین برسوں میں حکومت نے توانائی کے بحران پر کافی حد تک قابو پایا ہے۔ دہشت گردی پر قابو پانے کی سنجیدہ کوششیں ہوئی ہیں۔ ملک اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہے، جسکا اعتراف معتبر بین الاقوامی ادارے بھی کر رہے ہیں۔ یہ کوئی مثالی صورتحال نہ سہی، تاہم تسلیم کرنا پڑے گا کہ پی پی پی کے پانچ سالہ عہد حکومت کی نسبت موجودہ حکومت نے کہیں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ غالبا یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی اداروں نے کرپشن میں مسلسل کمی کا بھی اعتراف کیا ہے۔ اسی جائزے میں عوام نے پنجاب میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی حکومت کو بہترین کارکردگی کی حامل قرار دیا۔ سروے کے نتائج یقینا اس کے اطمینان اور اعتماد میں اضافے کا باعث بنیں ہوں گے۔ اچھا ہو کہ حکومت ان جائزوں پر مطمئن ہو جانے کے بجائے، حل طلب سماجی اور معاشرتی مسائل پر توجہ مرکوز کرئے۔سڑکوں ، شاہرائوں ، میڑوز، اور بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ، تاہم اب حکومت کو اپنی ترجیحات کا رخ عوام کی روز مرہ زندگی سے جڑے عمومی مسائل کی طرف موڑنا چاہئے۔ صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی، تھانہ کچہری میں سستا اور فوری انصاف جیسے بنیادی مسائل تاحال حکومتی توجہ کے منتظر ہیں۔ عام آدمی کی زندگی سے جڑے یہ مسائل حل ہوں گے، تب ہی اس حکومت کو صحیح معنوں میں عوامی حکومت سمجھا جائے گا۔
سروے کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی کے تناسب میں بہت کم فرق ہے۔ پنجاب حکومت کی مقبولیت کی شرح 79فیصد ہے ، جبکہ خیبر پختونخواحکومت 72فیصد پسندیدگی کیساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ پلڈاٹ کے سربراہ جو اس سائنس سے پوری طرح آگاہ ہیں کیمطابق کسی صوبے یا علاقے میں کئی برسوں کے تعطل کے بعد ہونے والی معمولی سرگرمی بھی عوامی مقبولیت میں یکدم اضافے کا باعث ہوتی ہے۔ برسوں سے صوبہ خیبر پختونخواحکومتوں کی غفلت کا شکار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے صوبے میں چند اچھے اقدامات کئے تو صوبائی حکومت کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ وجہ کچھ بھی ہو، ماننا پڑے گا کہ حکومت نے بہتر کارکردگی دکھائی ہے جس سے لوگوں کی اکثریت مطمئن ہے۔
جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے ، بلاول بھٹو زرداری پاکستان کے تیسرے مقبول رہنما کے طور پر ابھرے ہیں۔ لوگوں نے انہیں ایک نوجوان لیڈر کے طور پر سراہا ہے۔ اس صورتحال کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی 32 فیصد مقبولیت اور آصف علی زرداری کی 80 فیصد نا پسندیدگی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کہاں کھڑی ہے اور 2018 میں اسکی کارکردگی کیا رہے گی۔دوسری طرف مرکز اور پنجاب میں اچھی کارکردگی کی سند حاصل کرنے کے باوجود، بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی چوتھے نمبر پر رہی ہے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ سندھ حکومت بد ترین کارکردگی کی مثال ہے ۔مگر حالیہ سروے میں عوام نے بلوچستان حکومت کی کارکردگی کو سندھ حکومت سے بھی زیادہ غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔ یہ حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔وزیراعظم کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ اس سروے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ عوام نے بجلی کے بحران کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ جبکہ پاناما لیکس کے بارے میں تقریبا 60 فیصد عوام نے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔ یعنی عوام کا مسئلہ بجلی کےبحران کا خاتمہ ہے ،شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اسے اولین ترجیح بنا رکھا ہے۔ یہ بات عمران خان صاحب کیلئے بھی قابل توجہ ہے جو اپنا سارا زور بازو پا ناما لیکس پر صرف کر رہے ہیں اور غالبا اسی کو 2018کی انتخابی مہم کا مرکزی موضوع بنائیں گے۔


.
تازہ ترین