• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تعلیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے دنیاکے تقریباً سبھی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر تعلیم انسان کے اندر استدلالی نظام پیدا نہیں کرتی ا ور صرف اور صرف اندھی تقلید میں اضافہ کرتی ہے تو ایسی تعلیم زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ تعلیم کا بنیادی طور پر مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کو ایسابنا دے کہ وہ واقعات، حادثات اور ماننے اور نہ ماننے والی باتوںکو، اپنے اور دوسرے کے ادیان کو تحقیقی طور پر جانچے، اپنے فلسفے کا دوسروںکے فلسفے سے مقابلہ کرے اور پھر دیکھے کہ سچ کیاہے اور جھوٹ کیا۔ اس بات کے لئے پرائمری سطح سے اس کے اندر سائنسی اور خاص طورپر ریاضی کی تعلیم گہرااثر ڈالتی ہے لیکن اب کیاکیجئے کہ ایک خبر کے مطابق اس وطن عزیز میں سائنس اورریاضی کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہےاور طلبہ کی اکثریت بنیادی کلیوں کے بارے بھی کچھ جاننے سےقاصر ہے۔ اس سے ایک توفرق یہ پڑے گا کہ ا س شروع میں ہی ناقص تعلیمی نظام کے باعث لوگ آگے چل کر نہ تو سائنس میں کوئی تخلیقی نظام پیدا کرسکیں گے اور نہ ہی دیگر علوم میں رٹے کی سطح سے آگے بڑھ پائیں گے۔ اس کے اثرسے ایک طرف تو ہم سائنسی میدان میں تخلیق سے کوسوں دور ہیں اور ایک زمانے سے ہمارے ہاں کچھ نیا پیدا نہیں ہورہا اور دوسری طرف ایسے کٹ اینڈ پیسٹ قسم کے پی ایچ ڈیز اور دیگر ماہرین علم کی تعدادمیں بتدریج اضافہ ہو رہاہے جو نہ تو خوداستدلالی ذہن رکھتے ہیںاور نہ ہی اپنےآگے آنے والی نسلوں میں اس طرح کی صلاحیت پیدا کرنے کے بارے میں کسی تشویش کا شکار ہیں۔ باقی رہے عام کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کو ان کا جو برا حال ہے اس کا ذکر بھی اب کیا کیجئے۔
صورتحال یہ ہے کہ ہم علامہ اقبال کا بڑا ذکر کرتےہیں کہ وہ ہمارے محبوب شاعر ہیں لیکن اگر ہم اپنے عالم فاضل طلبہ اور اساتذہ سے یہ کہیں کہ ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ کے علاوہ بھی اقبال کے دو چار شعر سنادیں تو عموماً جواب خاموشی ہی ہوتا ہے اور اگر اقبال کے پی ایچ ڈی کے تھیسز اور ان کی کتاب جو انگریزی زبان میں ہے یعنی "The Roconstruction of Religious Thought in Islam" کا ذکر کریں تو مجھے پوری امید ہے کہ ہمارے ہاں فلسفے کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ نے بھی وہ نہیں پڑھی ہوگی۔ دوسرے آرٹس کے طلبہ کا تو ذکر ہی کیا۔ اس ناقص نظام کی وجہ سے پیدا ہونے والے طلبہ کی اکثریت شروع ہی سے اندھی عقیدت کا شکار ہو جاتی ہے اوراس کے ذہن میں نیکی اور بدی کے نظام کی جس طرح ترویج ہوتی ہے اس کا ہی اثر آج ہم اپنے معاشرے میں تنگ نظری کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ جن علامہ اقبال کاہم نے ذکرکیا انہی نے تعلیم اور اس حوالے سے لکھا؎
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی، اولاد بھی، جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
حالیہ دنوں میں ہونے والی شدت پسندی اور تباہی اور اس کے پیچھے چھپے جماعت احرار کے نعرے جو مذہب کے حق میں بلندکئے گئے تو اس تناظر میںدیکھا جاسکتا ہے لیکن یہاں جب اقبال اللہ سے کرے دور والی تعلیم کاذکر کرتے ہیں تو ہمیںیہ بھی دیکھناچاہئے کہ اقبال کی جس انگریزی کتاب کا میں نے ذکر کیا اس میں وہ مسلمانوں پر بارہا یہ زور دیتے ہیں کہ اپنے تعلیمی نظام میںسائنسی فکر کو اپنائو۔ دنیامیں ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ
میری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
نہ تھا ذکر تو شریک محفل قصور تیرا ہے یا کہ میرا
میرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مے شبانہ
افسوس یہ کہ ہم ایسے اشعار بھول کر اور اقبال کے پیغام میںسائنسی فکر کے استدلال کو بھلا کر صرف اور صرف رٹے باز اسکالرز اور طلبہ پیدا کررہے ہیں۔اب ذرا نظر دوڑایئے ہندوستان میں ہونے والے ایک ایسے تجربے کی طرف جس میں ہندوستانی اسپیس سائنس کے ماہرین نے ایک ہی وقت ایک راکٹ سے 104سیٹلائٹ خلا میں پہنچا دیئے۔
ذرا غور کیجئے کہ اب زمانہ ڈرون کاہے۔ زمانہ ایک سے ایک ایسی ایجادات کاہے جس میں انسان کے جسم سے لے کر اس کے استعمال کی اشیا تک نئی سے نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ کیا ہم نے آج سے دس برس پہلے کبھی سوچا تھاکہ جسے فون کریں گے اس کی تصویربھی دیکھ سکیںگے۔ آنکھ کے ایسے علاج، انسانی دماغ میں جا کر بغیر بڑے آپریشن سرجری، اسٹیم سیلز کے ذریعے علاج، جین اور اس کی اسٹڈی وغیرہ۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن اس میں ہم کہاں ہیں؟ یہی حال آرٹس کے مضامین میںہے۔ ہم اس بات کا رونا روتے ہیں کہ ہمارے ہاں اچھا ادب پیدا نہیں ہورہا لیکن کیا ہمارے ہاں میڈیکل اور انجینئرنگ کی اچھی کتابیںلکھی جارہی ہیں؟ اس کے لئے تو ہم اپنے دشمن ملک ہندوستان کی طرف دیکھتے ہیںکہ سبھی کتابیں وہاں سے آرہی ہیں۔ ڈاکٹرعطا الرحمٰن نےاپنے ایک حالیہ لیکچر میں اس کی وجہ تعلیم پر خرچ ہونے والی رقم کے حوالے سے ذکر کیاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک میں جتنی رقم اورنج لائن اور میٹرو پر خرچ کی جارہی ہے اور اس سے کم رقم ہم تعلیم پرخرچ کررہے ہیں۔نتیجہ تو ظاہر ہے کہ پھریہی ہوگا۔ ہمارے حکمرانوں کے ذہن میںصرف ایسی ہی ترقی پھنسی ہے اور یہ باتیں سیہون شریف پر دھماکہ کے بعد پتہ چلتی ہیں کہ وہاں ڈسپنسری نماکلینک میں صرف دو ڈاکٹر اورتین نرسیں ہیں۔



.
تازہ ترین